کراچی (جیوڈیسک) ذرائع کے مطابق پاکستان میں 100 سے زائد ارکان پارلیمنٹ کی ڈگریاں جعلی ہو سکتی ہیں۔ ان میں مسلم لیگ نواز کے 50،تحریک انصاف کے 24، پیپلز پارٹی کے ایک درجن، جمعیت علمائے اسلام ( ف ) کے چار ارکان جب کہ دو آزاد ارکان شامل ہیں۔ارکان اسمبلی کی تعلیمی اسناد کو عدالتوں میں چیلنج کیا جارہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق مختلف سیاسی جماعتوں کی طرف سے 100 سے زائد قانون سازوں کی تعلیمی اسناد پر شبہ ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن ( ایچ ای سی )کو قومی اسمبلی کے ساتھ ساتھ صوبائی اسمبلیوں سے تعلق رکھنے والے قانون سازوں کی تعلیمی اسناد کی ایک سو سے زائد ڈگریاں موصول ہوئیں جو مبینہ طور پر جعلی ہیں اور ان کی تصدیق کی جانی ہے، ان اسناد کو 11 مئی کو انتخابات کے بعد پاکستان الیکشن کمیشن کی طرف سے یا تو ٹربیونل میں چیلنج کردیا گیا یا پھر ایچ ای سی کا حوالے کر دیا گیا ہے۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی ترجمان عائشہ اکرام نے اس بات کی تصدیق کی کہ انتخابات کے بعد107جعلی یا مشکوک اسناد کے کیسز موصول ہوئے۔ ان میں سے کچھ کی تصدیق مکمل کر لی گئی ہے جبکہ 25 مقدمات پر کارروائی جاری ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مبینہ طور پر مشکوک یا جعلی ڈگریوں میں50 ایم این ایز یا ایم پی اے مسلم لیگ نواز سے،24پاکستان تحریک انصاف سے ہیں جن کے کیسز عدالتوں میں چیلنج کیے جا رہے ہیں۔ایک درجن ارکان پیپلز پارٹی سے ہیں اگر جعلی ڈگری کیسز ثابت ہوگئے تو وہ نشستیں کھو بیٹھیں گے۔جمعیت علمائے اسلام ( ف ) کے چار ارکان کی تعلیمی اسناد کو چیلنج کیا گیا ہے جب کہ اس فہرست میں دو آزاد امیدوار بھی ہیں جن کی اسناد مشکوک ہونے کی وجہ سے چیلنج کی گئی ہیں۔
سابق فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف کی طرف سے 2002 اور 2008 کے انتخابات میں الیکشن لڑنے کے لئے ڈگری کی پابندی عائد کی گئی تھی تاہم ستمبر 2008 میں سابق صدر آصف علی زرداری کے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کے لئے جولائی 2008 میں ڈوگر کورٹ کی جانب سے اس شرط کو کالعدم قرار دیا گیا۔ تاہم، قانون سازوں کی طرف سے ایسے جھوٹے دعوی کرنے والے آئین کے آرٹیکل 62 کے تحت مجرم پائے گئے اورعدالتوں کی طرف سے انہیں نااہل قراردے دیا گیا۔