تحریر : محمد عتیق الرحمن، فیصل آباد کتاب قوموں کی تہذیب وثقافت کی آئینہ دار ہوتی ہے۔کتاب ہی ہے جو آنے والی نسلوں کو بتاپاتی ہے کہ اس کے آباؤاجداد کس پائے کے تہذیب یافتہ تھے۔اگرچہ آج ٹی وی ، انٹرنیٹ اور سوشل ویب سائٹس کا دور ہے جس کی وجہ سے کتب بینی میں کمی واقع ہوئی ہے لیکن ان سب کے باوجود بھی کتاب کی اہمیت آج بھی مسلمہ ہے۔مغربی ممالک میں کتاب لکھنے اور پڑھنے کا شوق نہ صرف موجودہے بلکہ اس میں تیزی آرہی ہے۔
کتاب اس وقت بھی ساتھ ہوتی ہے جب سب ساتھ چھوڑ جائیں۔کتاب کا لمس ایک ایسا احساس ہے جو قاری عمر بھر ساتھ رکھنا چاہتا ہے۔یہ کتاب کا لمس ہی ہے بینائی ختم ہونے کے بعدبھی کتاب کو چھوتے ہوئے افراد دیکھے ہیں جوآہیں بھرتے ہیں،سسکیاں لیتے ہیں اورفریاد کناں ہوتے ہیں کہ کاش وہ لمس کے ساتھ پڑھ پاتے۔پاکستان میں جہاں دیگر موضوعات پرکتابیں لکھنے کا رحجان موجود ہے وہیں عسکری موضوعات پر لکھنے والے بھی موجود ہیں اگرچہ یہ کم ہیں لیکن الحمدللہ موجود ہیں۔عسکری مصنفین کی کم تعداد میں سے بہت کم ایسے لکھاری ہیں جو عسکری کارہائے نمایاں سرانجام دینے والوں کی سوانح عمری لکھتے ہیں۔
عسکری قلم کاروں میں عبدالستار اعوان کی تحریروں سے لگ بھگ کوئی 11-2010 ء سے تعلق ہے۔اس وقت سے آج تک ان کی تحریریں نظروں سے گذرتی رہتی ہیں۔پاک فوج کے مؤقر جریدے ماہنامہ ہلال ، روزنامہ نئی بات اور روزنامہ اسلام کے لکھاری کی ہر تحریر میں اسلام وپاکستان سے محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے۔پاکستان میں دہشت گردوں کے حملے ،بلوچستان میں بھارتی ایجنٹوں کی شرپسندی ہو یاپھربھارت وافغان سرحدوں پر جاری کشیدگی ،اعوان کی تحریر ہرموضوع پر مل جاتی ہے اورخوب ملتی ہے۔نظریہ پاکستان اور دوقومی نظریہ کی محافظ پاک افواج نے جس طرح سے پاکستان کو اندرونی وبیرونی خطرات سے محفوظ رکھا ہے وہ قابل تحسین ہے۔جہاں پاک فوج نے دشمنوں کو جہنم واصل کیا ہے وہیں پاک فوج کے جوان بھی شہادت جیسے عظیم مرتبے پر فائز ہوئے ہیں۔سخت اورمشکل ترین حالات میں جوانمردی سے سازشوں ، سورشوں اور جنگوں میں ملک دشمن عناصر سے نبردآزما جیالوں کی سوانح عمری کولکھنااو رآنے والی نسل کے لئے ان کو محفوظ بنانا قابل تعریف کام ہے۔
یہی وجہ ہے کہ عبدالستاراعوان جیسا بیدار مغز انسان جہاں ہمیں اخبارات ومیگزین کے صفحات پر پاک فوج کے شہداء سے جوڑتا نظر آتا ہے وہیں اعوان قبیلے کے چشم وچراغ نے کتابی شکل میں بھی شہداء کی زندگیاں قلمبندکرکے ہم پر احسان کیا ہے۔’’ہمارے شہداء‘‘کے عنوان سے کتاب میں 50کے قریب افواج پاکستان کے شہداء کے حالات قلمبند کرکے ہماری آنے والی نسلوں کے لئے ایک ایسا ذخیرہ بنادیا ہے جو انہیں باور کرواتا رہے گاکہ ان کے آباؤ اجداد نے کس طرح سے ان کے روشن مستقبل کے لیے قربانیاں پیش کی ہیں۔ایک ایسے وقت میں شہید سپاہی کی سوانح عمری ماہنامہ ہلال کوبھجواناجب ہر طرف بے یقینی کی کیفیت ہو اورعوام وخواص لفظ شہید پر بحث کررہے ہوں بلاشبہ اپنے نظریات سے والہانہ عقیدت ہے۔یہ شہداء کا اذکا ر اصل میں ان ہیروز کی رودا د ہے جنہیں ہم صرف خبروں تک جانتے ہیں اوراس کے پیچھے کس قدر ان کی محنت وقربانیاں ہیں اس سے ناآشنا رہتے ہیں۔کتاب میں مذکور اکثر شہداء کے نام تک میرے لیے گمنام ہیں اور کتاب کی فہرست پرنظر پڑھتے ہی مجھے اپنی کم علمی کا احساس ہوا کہ کس قدر بے وفاہوں کہ جنہوں نے میری ، میرے گھر، میری زمین ،میرے ڈیرے اور میرے وطن کی خاطراپنی جانیں نچھاور کیں میں انہیں جانناتو دور ان کے ناموں تک سے واقف نہیں ہوں۔اعوان قبیلے کے چشم وچراغ عبدالستار کی بلند ہمتی ہی ہے جس نے انہیں اس کام پر ابھارا اور انہوں نے اس کام کو احسن طریقے سے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔
میجر جنرل ثناء اللہ خان نیازی،میجر جنرل محمد حسین اعوان ،کرنل صاحب زادہ گل ،لیفٹیننٹ کرنل افتخار احمد جمیل ،کیپٹن حافظ محمد سرفراز،سینئر ٹیکنیشن ندیم اعوان ،جونیئر ٹیکنیشن احسان الرحمن ،لانس نائیک نوید عباس ،کمانڈو نعیم عباس ، صوبیدار ممتازحسین اور سپاہی حافظ ثناء اللہ سمیت دیگر پاک فوج کے شہداء کی سوانح عمر کا احاطہ کرتی یہ کتاب 50سے زائد شہدا کاجہاں کا تذکرہ کرتی ہے وہیں ان کے عزیز، رشتہ داروں اوردوست احباب کے تاثرات ومحسوسات بھی بیان کرتی ہے۔ لیفٹیننٹ کرنل افتخار جمیل شہید(تمغہ بسالت)کے تذکرہ میں ان کی بیوی کے حوالے سے لکھا ہے کہ’’آمنہ افتخار کہنے لگیں اپنے پیاروں کے بچھڑنے کا غم بھلا کسے نہیں ہوتا ،وہ ایک لازم امر ہے کہ جانے والوں کو کبھی بھلایا نہیں جاسکتا۔میراخداجانتا ہے کہ میں اپنے شہید شوہر کی یادوں کو کس طرح سینے سے لگائے رکھتی ہوں۔ان کی حسین یادیں ، ان کے ساتھ گذرے ماہ وسال ، ان کی رفاقت میں بیتے نوسال کے طویل عرصے کاایک ایک پل مجھے جب یادآتا ہے تودل کی بے کلی سی بڑھ جاتی ہے ‘‘آگے جاکر آمنہ افتخار مزید کہتی ہیں کہ ’’میرے شوہر جس قدر نیک سیرت انسان تھے۔
انہوں نے اپنے سولہ سالہ کیرئیرکے دوران کے دوران ملک وملت کی جس انداز سے خدمت کی بے شک اسی کا صلہ ملا کہ باری تعالیٰ نے انہیں شہادت کی موت نصیب فرمائی‘‘۔جنرل مرزااسلم بیگ (سابق چیف آف آرمی سٹاف )،لیفٹیننٹ کرنل عارف محمود(سابق ایڈیٹر ہلال ، صدارتی ایوارڈیافتہ )،ڈاکٹر اجمل نیازی (کالم نگار ، ستارہ امتیاز)، یوسف عالمگیرین (ایڈیٹر ہلال،کالم نگار ، ادیب)،حافظ شفیق الرحمن (سینئر صحافی ،کالم نویس ، ادیب ، خطیب)اورجبار مرزا(سینئر صحافی ،کالم نویس)جیسی شخصیات کاعبدالستاراعوان کی کتاب پر اپنے تاثرات دینا اور اعوان کے کام کو سراہنا اس کے کام پر قبولیت مہر ثبت کرنے کو کافی ہے۔شہیدوں کے لہو سے قوم کو نئی زندگی ملتی ہے اور شہداء کو یادرکھنا قوم کے لیے اتنا ہی اہم ہے جتنا اس کا آزاد رہنا۔قابل فخر ہیں وہ لوگ جو شہداء کو یاد رکھنے کے لیے ہمہ وقت مصروف عمل ہیں اور ’’ہمارے شہداء ‘‘ جیسی انمول کتابیں نوجوان نسل کے لیے مہیاکررہے ہیں۔