” پاکستانی اقلیتیں ” میری پہلی کتاب

M,P,Bhandara

M,P,Bhandara

تحریر : انجم صحرائی
انسا ئیکلو پیڈ یا بر ٹینیکا میں انگریزی کے لفظMinorities ) ) اقلیت کی تعریف یوں کی گئی ہے کہ “Socially speaking, a minority is an ethnic, racial, religious, or other group having a distinctive presence within a large society” یعنی اقلیت ایسے لوگ ہیں جو نسلی یا مذ ہبی عقیدہ اور احساسات کے اعتبار سے کسی ایسی سیا سی وحدت میں رہیں جہاں کی اکثریت کے نسلی لسا نی اور مذہبی رحجانات ان سے مختلف ہوں۔ اسی طرح امریکہ کے ماہرین سیا سیات میں سے آرنلڈ روز اور کیرولین بی روز نے بھی اپنی کتاب میں اقلیت کی تعریف یوں کی ہے کہ ” لو گوں کا کو ئی بھی ایسا گروہ جو کسی سیا سی وحدت میں وہاں کی اکثریت سے مختلف ہو اقلیت کہلا ئے گا ” سو میری پہلی کتاب کا عنوان تھا “پاکستانی اقلیتیں” جو تیس برس قبل شائع ہوئی۔

140 سے زائد میگزین سائز صفحات پر مشتمل”پاکستانی اقلیتیں” در اصل ایک ملک گیر سروے رپورٹ تھی جس میںوطن عزیز با رے پا کستا نی اقلیتوں کے نما ئندہ مذ ہبی ، سیا سی اور سما جی شخصیا ت کے جذ بات و احسا سات پر مبنی 250 سے زا ئد ا نٹر ویوز شا مل کئے گئے تھے مجھے اپنی کتاب کی تکمیل کے لئے پا کستان کے چا روں صو بوں کے سفر کا مو قع ملا ۔ ضیا ء الحق کے دور حکو مت میں مری بروری را ولپنڈی کے مالک ایم پی بھنڈارا ان دنوں وفا قی حکو مت کے مشیر اقلیتی امور تھے اور مذ ہبی وزارت کا قلمدان را جہ ظفر الحق کے پا س تھا جو وفا قی وزیر اطلا عات و نشر یا ت بھی تھے میں نے ان دنوں ایک پبلشنگ “تعارف پبلیکشنز ” کے نام سے ملتان میں قا ئم کیا ہوا تھا ۔ میں نے ایک کمرہ عمران بلڈنگ چوک شہیداں میں کرا یہ پرلے رکھا تھا جورات کو سو نے کے لئے بیڈ روم اور اور دن میں ” تعارف پبلیکشنز” کا دفتر بن جا تا ۔ اسی زما نے میں معروف شا عر نذ یر قیصر بھی ملتان میں ہوا کرتے تھے نذیر قیصر ملتان چرچ سے منسلک تھے نذ یر قیصر سے کسی ذ ریعے سے ہما ری ادبی سنگت ہو گئی ، بلا شبہ نذ یر قیصر ایک خو بصورت شخصیت اور قادر الکلام شا عر ہیں ۔انہی دنوں ان کی ایک کتاب پر انہیں آ دم جی ادبی ایوارڈ بھی ملا تھا ۔اس زمانہ میں ان کی ایک نئی کتاب ” گنبد خوف سے بشارت ” شا ئع ہو ئی تھی اس کتاب کا ایک نسخہ نذیر قیصر نے اپنے دستخط کے ساتھ مجھے بھی تحفہ کیا تھا جو آج بھی میری لا ئبریری میں مو جود ہے ۔نئے نئے بلد یا تی الیکشن ہو ئے تھے ملتان کے ہمارے ایک دوست نے اپنے اخبار کا ضلعی بلد یا تی سپلیمنٹ شا ئع کیا اس خصو صی اشا عت میں سبھی کو نسلز صا حبان کی تصا ویر مو جود تھیں مگر اقلیتی کو نسلر کا ذکر تک نہ تھا میں نے ان سے اس کمی کی طرف تو جہ دلا ئی تو ان کا جواب میری تشفی نہ کر سکا ۔ میں نے اسی وقت فیصلہ کیا کہ ” پنجاب میں اقلیتی بلد یا تی قیادت “کے نام سے ایک سر وے رپورٹ مرتب کی جا ئے ۔” پنجاب میں اقلیتی بلد یا تی قیادت ” عنوان سے مرتب کی جا نے والی یہ رپورٹ چا لیس صفحات پر مشتمل تھی اس رپورٹ میں پنجاب کے تمام اضلاع اور شہری بلدیا تی اداروں کے نہ صرف اقلیتی کو نسلرز صاحبان سے ان کے علا قا ئی مسا ئل اور بلد یا تی اداروں میں ان کی کار کر دگی ، تر جیحات و تو قعات کے حوالے سے انٹرویوز شا مل اشا عت تھے بلکہ را ولپنڈی سے کیپٹن ( ر )ثنا ء اللہ اور سیا لکوٹ سے پرو فیسرسی ڈبلیو ٹریسلر جو مجلس شوری کے رکن تھے کے علا وہ ملتان چرچ کے بشپ جان وکٹر سیمو ئل اور یو سف پطرس کیتھو لک بشپ ملتان کے خطوط بھی شا مل اشا عت تھے تہنیتی خطوط اس با رے کہ شا ئد یہ پا کستا ن کی تا ریخ میں پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ کسی مسلمان صحا فی نے اقلیتوں با رے کسی مضمون پر اتنی جان ماری کی ہو، مجھے اس سروے رپورٹ کی تکمیل کے دوران معروف مسیحی راہنماء جے سالک سے بھی ملنے اور ان کے انٹر ویو کے حصول کا مو قع بھی ملا جے سا لک اس زما نے میں لا ہور کا ر پو ریشن کے کو نسلر تھے اس زمانے میں ڈیرک آ باد کے فادر فیلکس چک 172 میں کیتھو لک چرچ کے انچارج تھے اس زما نے میں تھل اتنا آ باد نہیں تھا نہ سڑ کیں تھیں اور نہ آ نا جانا اتنا آ سان تھا ۔ میں جب ان سے ملا وہ بڑے حیران ہو ئے ۔ یہ ان کی زند گی کا پہلا تجربہ تھا کہ کو ئی مسلمان صحا فی ان کے مسا ئل سے آ گہی کے لئے خود چل کر ان کے پاس آ یا تھا ۔” پنجاب میں اقلیتی بلد یا تی قیادت ” کا پیش لفظ نذیر قیصر نے لکھا تھا۔

میرا چو نکہ ذرا ئع ابلاغ سے تعلق تھا اسی لئے ہم نے یہ رپورٹ وفا قی اور صو با ئی حکو متوں کی مذ ہبی امور کی وزارتوں اوربرا ئے تبصرہ مختلف اخبارات و رسا ئل کو بھی ارسال کی ۔ جس کا رزلٹ بڑا حو صلہ افزا ملا ۔ رپورٹ کی اشا عت کے چند دنوں بعد را جہ ظفر الحق جو اس وقت وفا قی وزیر اطلا عات و نشریات اور مذ ہبی امور تھے ان کی طرف سے مجھے ایک خط مو صول ہوا جس میں انہوں نے اس رپورٹ کی اشا عت پر ادارہ تعارف پبلیکشنز کو مبارکباد دیتے ہو ئے حکو مت کی طرف سے بھر پور معا ونت کی یقین دہا نی کرا ئی گئی تھی ایک اور خط لا ہور سے نوید بخاری نام کے ایک شخص کا تھا جس میں اس نے بتا یا تھا کہ وہ ایک فری لا نسر جر نلسٹ ہیں اخبارات میں آپ کی شا ئع کردہ سر وے رپورٹ ” پنجاب میں اقلیتی بلد یا تی قیادت ” بارے پڑھا بڑا چھو تا مو ضوع ہے جو آپ نے چنا ۔ میں ما ہنامہ پاک جمہوریت لا ہور کے لئے آپ کا انٹر ویو کر نا چا ہتا ہوں ۔ پر وین ملک کی زیر ادارت ما ہنا مہ پاک جمہوریت لا ہور محکمہ اطلاعات پنجاب شا ئع کر تاہے۔ خط کے ساتھ پاک جمہوریت میگزین کی ایک تازہ کاپی بھی تھی ۔ میں نے نو ید بخاری کو تحریر کیا کہ جب بھی ان کے پاس وقت ہو تشریف لے آ ئیں آپ کے ما ہنا مہ میگزین کے لئے میرے انٹر ویو کا حصول آپ کے لئے نہیں میرے لئے اعزاز کی بات ہو گی ۔ نوید بخاری کا آ با ئی تعلق گو جرہ سے تھا ان کے والد محکمہ ریلوے لا ہور میں ملازم تھے اور اسی سبب لا ہور میں مقیم تھے شا ئد اسی لئے نوید گو جرہ سے کم لا ہور سے زیادہ واقف تھا ۔نوید نے تعلیم کے بعد صحافت کی راہ اپنا ئی او ر جلد ہی فری لا نسز جر نلسٹ کی حیثیت سے لا ہور کے صحا فتی حلقوں میں سے اپنا منفرد مقام بنا لیا ۔ نوید بخاری سے جب میری ملا قات ہو ئی ان دنوں وہ روزنامہ امروز لا ہور اور پاک جمہوریت سے وابستہ تھا ۔ ایک ہفتہ کے بعد ہی نوید بخاری ملتان میرے آفس میں پاک جمہوریت کے لئے میرا انٹرویو ریکارڈ کر رہا تھا ۔دوران انٹر ویو نوید نے مجھے کہا کہ اگر یہ رپورٹ نیشنل سطح کی ہو تی تو مو ضوع کے حوالے یہ ایک شا ندار اور اپنی نو عیت کی منفرد کا وش ہو تی ان کی یہ بات میرے دل کو لگی اور میں نے پا کستانی اقلیتیں کے مو ضوع پر ملک گیر سر وے کر نے کا ذہن بنا لیا ۔ “پا کستانی اقلیتیں “کی تر تیب و تد وین کا سفر اسلام آ باد سے شروع ہوا اور تقریبا چھ ماہ کے بعد سندھ عمر کوٹ میں ختم ہوا ۔ اس بارے میں نے پہلا انٹر ویو12 جو لا ئی 1984 کو اسلام آ باد میں ایم پی بھنڈارا کا کیا جو اس زما نے میں وفا قی مشیر برائے اقلیتی امور تھے ۔ایم پی بھنڈارا پا رسی رہنماء تھے اور متعدد بار ممبر قو می اسمبلی منتخب ہو ئے ۔ بھنڈارا خاندان نے تحریک پا کستان میں بھی گرانقدر خد مات انجام دیں ۔ اس مو ضوع پر آ خری انٹر ویو عمر کوٹ(سندھ ) کے ڈاکٹر ہر چند رائے کا تھا جو اس زما نے میں عمر کوٹ بلدیہ کے چیئر مین تھے ۔ مجھے اپنی اس پہلی کتاب کے لئے جن شخصیات سے انٹر ویوز لینے کا اعزاز حا صل ہوا ان کی فہرست بہت طویل ہے مگر ان میں چند ایسے نام بھی ہیں جو پا کستانی تا ریخ میں انمٹ ہیں ان تا ریخ ساز شخصیات سے ملا قا توں میں بہت کچھ سیکھنے اور جا ننے کو ملا ۔ ان شخصیات میں چو ہدری چندو لال سا بق ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی سر فہرست ہیں ۔ میری ان سے ملا قات شیخو پورہ میں ہو ئی ان دنوں وہ صاحب فراش تھے ۔ چو ہدری چندو لال نے 1933 میں پنجاب اسمبلی سے قا نون کی تعلیم مکمل کی ، 1946 کے الیکشن میں مسلم لیگی امیدوار کی حیثیت سے الیکشن میں حصہ لیا ، پکے مسلم لیگی تھے ۔ قیام پا کستان سے قبلجب قا ئد اعظم لا ہور تشریف لا ئے اور اقلیتی راہنما مسٹر ایس پی سنگھا سے ملاقات کی اس ملا قات کے بعد ایس پی سنگھا اورچو ہدری چندو لال نے قا ئد اعظم کی دعوت پر لبیک کہتے ہو ئے تحریک پا کستان میں بھر پور کلیدی کردار ادا کیا۔

Pakistan

Pakistan

لاہور میں فلیٹیز ہو ٹل کے کمرہ نمبر2میں ساری زند گی گذارنے والے جسٹس اے آر کا رنیلس سے ملا قات بھی میرا ایک اعزاز ہے ۔جسٹس اے آر کا ر نیلس سا بق صدر ایوب خان کے دور میں وزیر قا نون رہے ۔ کہا جا تا ہے کہ ایوب خان کے دور میں بننے والی قا نون ساز کمیٹی کے چیئر مین کی حیثیت سے 1964کے آ ئین کے خالق بھی جسٹس اے آر کا ر نیلس ہی تھے ۔جسٹس صاحب عد لیہ کے سر براہ رہے وزارت ان کے گھر کی لو نڈی رہی مگر جب میری ان سے ملا قات ہو ئی وہ فلیٹیز ہو ٹل کے کنمرے میں مقیم تھے پتہ چلا کہ مو صوف ایک عر صہ سے فیلیٹیز کے اسی کمرے میں مقیم ہیں ۔ جسٹس اے آر کا ر نیلس نے میرے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ” اسلام ایک غلام کو برا بری کی سطح پر اپنے آقا سے بات کر نے کا حق دیتا ہے ۔عزت نفس کا پاس اور فرد کے وقار کا تحفظ اسلامی تعلیمات کا خلا صہ ہے ۔ با با ئے قوم قائد اعظم سے اپنی ملا قات کا ذکر کرتے ہو ئے جسٹس اے آر کا ر نیلس نے بتا یا کہ قیام پا کستان کے ابتدا ئی دنوں کی بات ہے جب میں لا ہور ہا ئی کورٹ کا جج تھا ۔ با با ئے قوم ایک تقریب میں شرکت کے لئے لا ہور آئے تب مجھے قائد سے ہا تھ ملا نے کا شرف حا صل ہوا تھا ۔با با ئے قوم نہ صرف ایک بڑے قا نون دان تھے بلکہ ایک عظیم انسا بھی تھے ۔ان کی ذہا نت اور قابلیت کے سامنے کسی کا چراغ نہیں جلتا تھا ۔وہ بلا امتیاز مذ ہب و ملت انسا نوں کی تر قی کے خواہاں تھے ” میں کتاب کی ترتیب و تد وین کے سلسلہ میں تحریک پا کستان کے معروف مسیحی راہنما دیواب بہادر ایس پی سنگھا کے بیٹے ڈی پی سنگھا سے بھی ملا ، ڈی پی سنگھا 1972 میں صو با ئی اسمبلی اور 1977 میں قو می اسمبلی کے منتخب رکن رہ چکے تھے۔

ڈی پی سنگھا نے مجھے دیوان بہادر ایس پی سنگھا اور قائد اعظم کی ایک نایاب تصویر بھی دی جو ” پا کستانی اقلیتیں ” میں شا ئع بھی ہو ئی ۔ بشپ آف ملتان جان وکٹر سیمو ئل ،ایگزینڈر جان ملک بشپ آف لا ہور ، ڈاکٹر جان جوزف بشپ آف فیصل آ باد اور ڈاکٹر جیمز نذیر علی جو اس زما نے میں بشپ آف را ئے ونڈ تھے اور بعد میں آرچ کنٹری بشپ انگلینڈ بھی رہے ا ن سے ملا قا تیں بھی میری بھر پور صحا فتی زند گی کا باب ہیں اسی کتاب میں چیئر مین ہلال احمر سندھ فرانسس ایکس لو بو ،شکار پور کے با لمیکی راہنما اور بزرگ استادپنڈت ما نگے رام ، وفاقی منیارٹی کو نسل کے ارکان پشاور سے ڈاکٹر انور ایم اجا گر ، جیکب آباد کے ہوند راج آوت را ئے راج پال ، میر پور خا ص کے کشن چند پاروانی ، ڈاکٹر ایچ ایم ڈریگو ، سبی کے دیوان چند ، سکھر کے ریلو مل جگوانی ، کے علاوہ ولیم کے مل جزل سیکریٹری نیشنل کو نسل آف چر چرز ان پا کستان ۔شکار پور کے پہلے بالمیکی قا نون دان جے جے وشنو ایڈ وو کیٹ ۔ملتان مشن ہسپتال کے ایڈ منسٹریٹر یو نس لا دین ، بلو چستان اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر بشیر مسیح حیدر آباد کے معروف قا نون دان کشن چند بھاروانی ایڈ وو کیٹ ، نینسی فلوڈ ہسپتال سا ہیوال کے ڈا ئریکٹر جان ای گل ، ڈاکٹر کشن آر جگا نی کو نسلر کنٹونمنٹ حیدر آ باد ،سدھام چا ولہ کو نسلر بلدیہ جیکب آباد ، ڈاکٹر سٹیفن پی لال رکن مجلس شوری پشاور ،گھو ٹکی کے منو ہر لال ڈی ہیمنا ئی ایڈوو کیٹ جو بلد یہ گھو ٹکی کے چیئر مین تھے ،لا ہور کے کرنل (ر ) ایل کے ٹریسلر ،حیدر آباد سے ضلع کونسل کے ممبر ایم پر کاش ایڈ وو کیٹ ،ملتان سے ایم پی اے میجر (ر) جان وکٹر سیمو ئیل ، کر نل (ر ) ایل سی راتھ پرنسپل سینٹ انتھو نی ہا ئی سکول لا ہور اور گیان چند ایڈ وو کیٹ سکھر ، سینٹ ٹریسا ہسپتال میر پور خا ص کے بنجمن حسین ، سکھر کے مسیحی راہنما ایرک سیمو ئل جیکب ،میر پور ما تھیلو بلدیہ کے کو نسلر گو بند رام ، کراچی کے جارج داس واشنگٹن ، خان پور کے بخشا رام بہا ولپور کے مہر لال بھیل اور ملتان سے جا وید یاد ، کشور مراد ، مقبول ملک اور کو نسلر ریاض مسیح ، فیصل آباد سینٹ رافیل ہسپتال کی ایڈ منسٹریٹر سسٹر ایلس گل اور سکھر کی معروف سماجی و سیاسی شخصیت بھجن داس ایڈ وو کیٹ کے انٹر ویوز بھی شا مل تھے ۔ یہ چند نام ہیں وگرنہ کتاب میں شا مل اشاعت انٹرویوز کی تعداد کہیں زیادہ ہیں۔

کتاب کا آخری باب” اسلام اور اقلیت” کے عنوان سے تھا اس باب میں مو لانا عبد القادر آزاد ، خطیب شا ہی مسجد لا ہور ، معروف قا نون دان اور بھٹو مخالف سیا سی قو می اتحاد کے با نی جزل سیکر یٹری رفیق احمد با جوہ ایڈ وو کیٹ ،ممتاز عالم دین اور اس وقت کیے رکن مجلس شوری مفتی محمد حسین نعیمی اور میاں خالد اقبال ایڈ وو کیٹ سپریم کورٹ جیسے مسلم دا نشور ، قا نون دان اور علمائے دین کے مضا مین بھی شا مل کئے گئے ۔ ان مضا مین میں اسلام میں مذ ہبی اقلیتیوں کے مذ ہبی ،سما جی ، سیا سی ،معا شر تی حقوق اور تحفظات بارے سیر حا صل بحث کی گئی ہے ۔” پا کستانی اقلیتیں ” کے ابتدا ئی صفحات میں اس وقت کے وفاقی وزیر اطلا عات و نشریات راجہ ظفر الحق کا وہ خط بھی شا مل اشاعت تھا جو انہوں نے مجھے میری پہلی کا وش پر بھیجا تھا۔

” پا کستانی اقلیتیں ” کا پیش لفظ معروف ادیب اور صحافی کنول فیروز ،پاک جمہوریت کی مدیر پروین ملک اور آفتاب الیگزینڈر مغل نے تحریر کیا تھا ۔ کنول فیروز کا تعلق لا ہور سے تھا ان سے میرا تعارف داکٹر خیال امرو ہوی کے توسط ہوا تھا ۔ کنول فیروز بھی خیال اکیڈ یمی کے ممبر تھے اور میں بھی ڈاکٹر خیال کے ممدو حین میں سے تھا ۔ ” پا کستانی اقلیتیں ” کی کتابت ملتان کے اسلم وفا نے کی ۔ مرحوم اسلم وفا کا شمار اپنے وقت کے اساتذہ میں ہو تا تھا ۔ کتاب کا سر ورق لا ہور کے آ ر ٹسٹ عثمان نا صر نے بنا یا تھا ۔ یہ کتاب جنوری 1985میں سید الیکٹرک پریس ملتان سے شا ئع ہو ئی کی ۔ ملتان میںمنعقد ہو نے والی” پا کستانی اقلیتیں ” کی تقریب رونما ئی کے صدر روزنا مہ امروز ملتان کے ایڈ یٹر اقبال سا غر صدیقی تھے۔ اس کتاب کی اشا عت میں اپنے سا تھیوں نوید بخاری ،صفیرا خانم ، ڈاکٹر محمد امین قمر ،ارشاد احمد مڑل اور تعارف پبلیکشنز کے سر کو لیشن منیجر مقبول رانا کی محبتوںاور کا و شوں کو کبھی نہ بھول پائوں گا۔ ٍ

Anjum Sehrai

Anjum Sehrai

تحریر : انجم صحرائی