پاکستان کی اقلیتی بیٹیاں

Missing Hindu Girls Case

Missing Hindu Girls Case

تحریر : واٹسن سلیم گل

پاکستان کی بقا اور اس کی نیک نامی کی زمہ داری تمام حکومتی اداروں سمیت ہر شخص پر ہے۔ چاہے اس کا تعلق کسی بھی صوبے، مزہب یا قومیت سے ہو۔ مگر چونکہ اختیار اور طاقت حکومت کے پاس ہوتی ہے اس لئے میں یہ کہونگا کہ اس میں سب سے بڑا حصہ حکومت کا اور ہمارے نظام انصاف کا ہے کسی بھی معاشرے میں اگر غیر منصفانہ نظام ہو گا تو اس سے ریاست کی بنیادیں کمزور ہوں گی۔ جو کہ انتہائ خطرناک عمل ہے۔ قیام پاکستان کے دوران 23 فیصد اقلیتیں ملک میں موجود تھیں بلکہ اُس وقت زندگی کے ہر شعبے میں ان کا حصہ بھی ان کی آبادی کے لحاز سے تسلی بخش تھا۔ مگر آج اقیلتیوں کی مجموعئ تعداد 4 فیصد سے بھی کہیں کم ہے اور ان کا حصہ تو اب نہ ہونے کے برابر ہے۔ گزشتہ تین ہفتوں کے دوران تقریبا 17 اقلیتی خواتین کو اغوا کیا گیا ان کی بے حرمتی کی گئ اور ان کو زبردستی دائرہ اسلام میں داخل کیا ہے۔ یہ وہ تعداد ہے جو میڈیا پر رپورٹ ہوئ ہے جو واقعات میڈیا تک نہی پہنچ سکے ان کی تعداد بھی زیادہ ہے۔

حال ہی میں دو ہندوں لڑکیوں کو ڈہرکی سندھ سے اغوا کیا گیا۔ 20 مارچ کو چھ مسلح افراد ہری داس کے گھر میں گھُسے ان میں احمد شاہ، صفدر علی اور برکت بھی شامل تھے ان کی دو کم سن بچیوں کو زبردستی اغوا کر لیا۔ 14 سالہ روینا اور 15 سالہ رینا کو اسلام میں داخل کیا اور ان دونوں کی شادی صفدر علی اور برکت سے کر دی گئ۔ باپ کہتا ہے کہ میری بیٹیاں 14 اور 15 سال کی ہیں جبکہ ہری داس کی سب سے بڑی بیٹی سن 2000 میں پیدا ہوئ جس کا ریکارڈ نادرہ کے پاس محفوظ ہے جو اس وقت 18 سال کی ہے تو کیسے اس کی چھوٹی بہنیں 18 اور 20 کی ہو سکتیں ہیں۔ دوسری بات کہ نادرہ کے نئے ترمیم شدہ قوانین کے مطابق باپ اگر اپنے بچوں کی تاریخ پیدائیش کے حوالے سے نادرہ کا فارم بھر کر اپنا انگوٹھا لگا کر حلفیہ طور پر جمح کرا دے تونادرہ اسے قبول کرنے کی پابند ہے۔ اس کے علاوہ کومل کو ٹنڈو الہ یار سے اغوا کیا گیا اور اس کا نکاح ایک مسلمان بوڑھے شخص کے ساتھ کر دیا گیا۔ ٹنڈو محمد خان سے تین مسلح اشخاص نے دن دہاڑے پرومیلا مشواری کو اٹھا لیا۔ اس کا آج تک پتا نہی ہے۔

سونیا کماری کو میرپورخاص سے اغوا کر کے مسلمان بنا کر اس کا نکاح کر دیا گیا۔ گھر والے اس سے بات کرنے، اسے دیکھنے کے لئے ترس گئے ہیں۔ لچھمی دیوی کو بدین سے مالا میگھوار کو بھی بدین سے اٹھایا گیا۔ ان کے ساتھ بھی وہی ہوا جو ہندو اور مسیحی خواتین کے ساتھ ہو رہا ہے اب یہ دونوں ماشا اللہ مسلمان ہیں اور اپنے شوہروں کے ساتھ ہیں، ہیں بھی یا نہی کسی کو معلوم نہی ہے۔ 25 مارچ کو فیصل آباد کے رہائیشی محمد رضوان نے اپنی بیوی حنا کو گولی مار کر ہلاک کر دیا محمد رضوان نے آٹھ سال قبل اس مسیحی خاتون حنا سے زبردستی شادی کی تھی جس کا انجام 25 تاریخ کو سب نے دیکھ لیا۔ محمد رضوان نے پولیس کو بیان دیا کہ اس کے کم سن بیٹے نے حنا کو قتل کیا ہے۔

فیصل آباد ہی کی ایک 15 سالہ ارم مسیح کو اغوا کیا گیا، ماں باپ تھانے گئے تو پولیس نے ان کے ہاتھ میں اسلام قبول کرنے کا سرٹیفیکیٹ پکڑا دیا۔ ماں باپ نے سیاسی اور سماجی شخصیات سمیت سب دروازے کھٹکھٹائے مگر ان کو انصاف نہی مل رہا ہے۔ ماں باپ کا صرف یہ مطالبہ ہے کہ کم از کم ان کو یہ جاننے کا حق ہے کہ ان کی بچی زندہ بھی ہے یا نہی۔ زرایع بتاتے ہیں کہ اس بچی کو فروخت کر دیا گیا ہے۔ 13 سالہ صدف مسیح جس کا تعلق بہاولپور سے ہے وہ بھی زبردستی اغوا ہوئ جبری طور پر اسلام قبول کرایا گیا اور آج اس کی کوئ خبر نہی ہے۔ اس کے علاوہ گیانی کولہی بدین سے چمپا دیوی کو بدہو قمبرانی ڈسٹرکٹ سے اغوا کیا گیا ہے۔ جس پر ہندو کمیونٹی نے پُرزور احتجاج بھی کئے مگر کوئ سنوائ نہی ہوئ۔

اسلام آباد کے علاقے اقبال ٹاؤن کے رہائیشی نوید اقبال مسیح کی بیوی صائمہ نوید کو جو تین بچوں کی ماں ہیں علاقے کے بدمعاش خالد ستی نے پورے محلے کے سامنے اغوا کیا جبری طور پر مزہب تبدیل کروایا اور اسے دس دن تک اپنی ہوس کا نشانہ بناتا رہا۔ اس کے ساتھ ہی وہ صائمہ پر تشدد بھی کرتا رہا، شروع میں تو پولیس نے مقدمہ درج کرنے سے انکار کردیا مگر جب نوید اقبال اور اس کے بچوں نے تھانے کا سامنے خودکشی کا اعلان کیا تو پولیس نے صائمہ اقبال کو برآمد کر کے اس کے شوہر کے حوالے کر دیا۔ اس دوران خالد ستی نے ضمانت کروا لی اور آزاد گھوم رہا ہے۔ صائمہ اقبال نے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی پر ایک ویڈیو جاری کی ہے جس پر اس نے اپنے ساتھ ہونے والے غیر انسانی سلوک کی کہانی سنائ ہے۔جسے دیکھ کر ہٹلر اور فرعون جیسے سنگدل کی آنکھوں سے بھی آنسوں جاری ہو جائیں۔ سندھ میں کئ ہندو خاندانوں نے اپنی بچیوں کو تعلیم حاصل کرنے سے روک دیا کیونکہ وہ ڈرتے ہیں کہ ان کی بچیاں باہر جائیں گی اور پھر وہی کھیل شروع ہوگا کہ اغوا ہونے کے بعد اسلام قبول کر کے شادی کر کے غائب ہو جائیں گی۔

سندھ میں گزشتہ پانچ سال کے ریکارڈ کے مطابق 87 فیصد لڑکیوں کا پتا ہی نہی کہ وہ زندہ بھی ہیں کہ نہی۔ اکثر ماں باپ کا یہ مطالبہ ہے کہ کونسا ایسا مزہب ہے جو شادی کے بعد بچیوں کو اپنے ماں باپ سے ملنے سے روکتا ہے۔ ان ماں اور باپ کو یہ حق تو ملنا چاہئے کہ ان کی بچیاں کس حال میں ہیں۔ بہت سی انسانی حقوق کی تنظیمیوں نے انکشاف کیا ہے کہ ان بچیوں کے قبول اسلام کے بعد پولیس اور معاشرے کی ہمدردیاں ان بچیوں کو اسلام مین داخل کرنے والوں کے ساتھ ہوتی ہین وہ یہ دیکھنے کی کوشش نہی کرتے کہ حقیقت کیا ہے ۔ بہت سی بچیاں آگے فروخت کر دی جاتیں ہیں بہت سے بچیاں کئ سالوں سے غائب ہو چکی ہیں اور اب ان کی کسی کو کوئ خبر نہی ہے۔ کہ وہ زندہ بھی ہیں کہ نہی خدا انصاف کرنے والا ہے اور وہ تو انصاف کرے گا ہی مگر حکومت پاکستان کو بھی انصاف کرنا ہو گا ورنہ حکومت کا انصاف کرنے والا اللہ تعالیٰ سب سے طاقتور ہے۔ اور وہ ظالم کو کبھی بھی نہی بخشے گا۔

Watson Gill

Watson Gill

تحریر : واٹسن سلیم گل