دشمن نے میلی آنکھ سے پاکستان کی طرف دیکھا۔ رات کی تاریکی میں گیدڑ کی طرح پاکستان کی پیٹھ پر سے وار کرنے کی کوشش کی جس پر ہمارے جوانوں نے اپنی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے چند افراد نے یا پھر یہ کہنا مناسب ہو گا کہ ایک چھوٹی سی آرمی نے ماشاء اﷲ اتنے بڑے کانامے دکھائے کہ رہتی دنیا تک دوبارہ ایسے واقعات کبھی نظر نہیں آئیں گے ، کبھی دیکھے بھی نہیں جائیں گے اور نہ ہی آپ کو کبھی سنائے جائیں گے ۔ ان محرکات کی اصل وجہ کیا تھی؟ ایسی کون سی وجوہات تھیں جن کی وجہ سے یہ واقعہ پیش آیا اور یہ جنگ ہم پر مسلط کی گئی؟ 1965 کی جنگ کے حوالے سے آج کے دور میں نوجوانوں میں بہت زیادہ غلط فہمیاں پیدا کی جارہی ہیں۔ یہ کہا جارہا ہے کہ یہ جنگ ہم جیتے ہی نہیں ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جو کامیابیاں اس میں بیان کی جاتی ہیں وہ مبالغہ آرائی ہیں۔ میں کچھ باتیں آپ کو ذرا واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ہماری تاریخ کے عظیم ترین دنوں میں سے یہ 6 ستمبر کا دن بہت اہم ہے۔ اگر آپ صرف اس دن کی صبح کی وہ تقریر سن لیں جو ایوب خان نے کی تھی۔ اس وقت ٹی وی نہیں ہوتا تھا۔ریڈیو پاکستان پر وہ تقریر کی گئی تھی۔ کہ لا الہ الا اﷲ کے ماننے والوں پر انڈیا نے حملہ کر دیا ہے۔ میری قوم کے ہم وطنوں ! جنگ شروع ہو چکی ہے۔ اُٹھو اور دُشمن پر ٹوٹ پڑو۔
میں ایوب خان کی اس تقریر کے اصل الفاظ آپ تک پہنچانا چاہوں گا۔ انہوں نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ” میرے عزیز ہم وطنو! اسلام علیکم ! دس کروڑ پاکستانیوں کے امتحان کا وقت آ پہنچا ہے۔ آج صبح سویرے ہندوستانی فوج نے پاکستانی علاقے پر لاہور کی جانب سے حملہ کیا اور بھارتی ہوائی بیڑے نے وزیرآباد اسٹیشن پر ٹھہری ہوئی ایک مسافر گاڑی کو اپنے بزدلانا حملے کا نشانا بنایا۔ بھارتی حکمران شروع ہی سے پاکستان کے وجود سے نفرت کرتے رہے ہیں۔ مسلمانوں کی علیحدہ آزاد مملکت کو انہوں نے کبھی دل سے تسلیم ہی نہیں کیا۔ پچھلے 18 برس سے وہ پاکستان کے خلاف جنگی تیاریاں کرتے رہے ہیں۔ پاکستان کی 10 کروڑ عوام جن کے دل کی دھڑکن میں لا الہ الا اﷲ محمد الرسول اﷲ کی صدا گونج رہی ہے اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک دشمن کی توپیں ہمیشہ کیلئے خاموش نہ ہو جائیں۔ ہندوستانی حکمران شائد ابھی تک نہیں جانتے کہ انہوں نے کس قوم کو للکارا ہے۔ ہمارے دلوں میں ایمان اور یقین موجود ہے اور ہمیں یہ معلوم ہے کہ ہم سچائی کی یہ جنگ لڑ رہے ہیں۔ ملک میں آج ہنگامی صورت حال کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ جنگ شروع ہو چکی ہے۔ دشمن کو فنا کرنے کیلئے ہمارے بہادر فوجیوں کی پیش قدمی جاری ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے پاکستان کی مسلح فوجوں کو اپنے جوہر دکھانے کا موقع عطا کیا ہے۔ میرے ہم وطنو! آگے بڑھو اور دشمن کا مقابلہ کرو۔ خدا تمہارا حامی و ناصر ہو ۔ آمین ۔ پاکستان پائندہ آباد ”پاکستان کی پوری قوم نعرہ تکبیر لگاتی ہوئی سڑکوں پر نکل آئی ۔ ہوا کیا تھا ؟ پوری قوم کیوں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئی اس وقت ؟ یہ دشمن کے خواب و خیال میں نہیں تھا ۔ 17 دن وہ لڑائی رہی ۔ 17 دن ملک میں چوری ڈکیتی بند ہو گئی ۔ رشوت بند ہو گئی ، ٹرینیں وقت پر چلنے لگیں ۔ پاک فوج کے جوانوں کا حال یہ تھا کہ جب وہ شہر میں کچھ خرینے کیلئے آتے تھے تو پورا شہر امڈ آتا تھا ان کو تحفے پیش کرنے کیلئے ۔ ان کی گاڑیوں میں پھل پھینک دئیے جاتے تھے ۔ بسکٹ کے ڈبے پھینک دئیے جاتے تھے اور جب ان دکانداروں کو پیسے دئیے جاتے تھے تو وہ لوگ رونے لگ جاتے تھے کہ ہمیں پیسے دے کر ہماری توہین نہ کرو ۔ تم ہمارے بیٹے ہو ہماری عزت کا دفاع کر رہے ہو ۔
پورا لاہور کا شہر ، سرگودھا کا شہر ، سیالکوٹ کا شہر اور ہر پاکستانی نکل کر سرحدوں پر جانے کی باتیں کرنے لگا ۔ مائوں نے بہنوں نے اپنے جہیز اپنے زیور اپنی رضائیاں ، طلائیاں اور جتنا کچھ ان کے پاس جتنی دولت ان کے پاس تھی جتنا مال ان کے پاس تھا سب کچھ پاک فوج کے نام ان کی امداد کرنے کیلئے کر دیا ۔ اس وقت ہوا کیا تھا؟ہندوستان نے 6 ستمبر کی صبح فجر سے کچھ پہلے لاہور شہر پر حملہ کیا اور ان کے جرنیل نے بھڑک ماری تھی کہ ہم 11 بجے تک لاہور جم خانہ میں بیٹھ کر ناشتہ کریں گے ،شراب پئیں گے اور بدمعاشی کی محفل سجائیں گے ۔ ہم دشمن کی طاقت کا بھی پہلے اندازہ کر لیں کہ دشمن ہم سے تعداد میں 5 گناہ زیادہ تھا ۔ انڈیا آبادی کے لحاظ سے بھی ہم سے بڑا ہے اور اس کی فوجیں بھی ہم سے زیادہ ہیں ۔ ان کی ائیر فورس فضائیہ بھی ہم سے بڑی ہے ۔ 5 گناہ بڑا دشمن جب رات کی تاریکی میں ہمارے ایک بڑے شہر لاہور پہ جو بالکل سرحد پر ہے اچانک اتنا بڑا حملہ کرتا ہے جس کے اند ایک حملے میں پانچ پانچ سو ٹینک استعمال کئیے جاتے ہیں۔
Sialkot
سیالکوٹ اور لاہور پر جب حملہ ہوتا ہے تو بھارت نے 500 ٹینک کے ساتھ حملہ کیا تھا اور یہ دونوں سرحدی شہر ہیں اور حال یہ تھا کہ پاکستان مکمل طور پر حیرت میں پڑ گیا تھا ۔ کشمیر میں اس سے پہلے جھڑپیں ہو رہی تھیں ۔ 1947 سے کشمیر میں ہم لڑ رہے ہیں پاکستان بننے کے بعد قائدِاعظم نے کشمیر میں پہلی بار کشمیر کی آزادی کیلئے جنگ شروع کروائی تھی اور مسلسل لائن آف کنٹرول پر ہماری انڈیا سے جھڑپیں رہتی تھیں ۔ یہاں پر میں ایک بات واضح کرتا چلوں کہ لائن آف کنٹرول بارڈر نہیں بلکہ لائن آف کنٹرول کا مطلب ہوتا ہے کہ جس کے ہاتھ جو لگے وہ اس پر قابض ہو جائے ۔ ہم نے آزاد کشمیر کو 1948 کی لڑائی میں آزاد کروایا تھا ۔ کارگل 2 مرتبہ ہمارے ہاتھ میں آکر نکل چکا ہے ۔ کارگل آج اگرچہ انڈیا کے پاس ہے لیکن 1948 کی لڑائی میں ہم انڈیا سے کارگل لے چکے تھے ۔ گلگت بلتستان کا سارا علاقہ ہم نے 1948 میں آزاد کیا تھا ۔ تو اسی طرح 1965 میں کچھ عرصہ پہلے پاکستان آرمی نے ایک آپریشن کیا تھا جس کا مقصد یہ تھا کہ کشمیر کے اندر کمانڈوز داخل کیئے جائیں اور کشمیر کے اندر ایک جنگِ آزادی کو برپا کیا جائے گا ۔ یہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان ایک سمجھوتہ تھا کہ انٹرنیشنل بارڈر اور ہوتے ہیں اور کشمیر اور ہے ۔ جیسا کہ کارگل پر لڑائی ہوئی تو وہ کارگل تک ہی محدود رہی۔ یہاں اب آپ کو یہ بات سمجھ آگئی ہو گی کہ لائن آف کنٹرول انٹرنیشنل بارڈ نہیں ہے بلکہ یہ تبدیل ہوتی رہتی ہے ۔ انڈیا کو جب موقع ملا تو وہ سیاچین میں گھس گیا تھا اور وہاں کچھ پوسٹیں پکڑ لی تھیں ۔ اسی طرح جب 1965 میں جب ہم بے اپنے کمانڈوز اندر داخل کیئے اور اس کے بعد ہم نے ایک اور آپریشن کرنا تھا جو آپریشن Grand Slame تھا جس کا مقصد یہ تھا کہ آپ جا کر وہ جو سپلائی لائن ہے وہ سڑک جو کہ کشمیر میں جاتی ہے اس کو بند کر دیں تو کشمیر کے اندر جنگ آزادی کشمیر کو آزاد کروا سکتی ہے ۔ یہ سارے معاملات لائن آف کنٹرول کی دوسری جانب ہو رہے تھے ۔ چونکہ جنگ کے قوائد ہوتے ہیں کہ جن میں کسی ملک کو منع کیا جاتا ہے کہ آپ یہ کام نہ کریں جس کی وجہ سے جنگ ہو سکتی ہے ۔ یہ ایک قسم کی جنگ سے پہلے وارنگ ہوتی ہے لیکن انڈیا نے تمام جنگی قوائد کو اور باتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے خفیہ طور پراچانک پاکستان پر حملہ کیا ۔ جنگ انہوں نے شروع کی تھی ۔ ہم نے نہیں کی تھی ۔ اور جب کسی گھر میں 10 یا 12 ڈاکو ایک ساتھ گھس جائیں اور اس گھر پر اور تمام چیزوں پر قبضہ کرنا چاہیں اور گھر کا مالک اکیلا ان سب ڈاکوں کو مار بھگائے تو یہ اس کیلئے بہت بڑی کامیابی ہو گی ۔ تو اسی طرح جب پاکستان پر حملہ ہوتا ہے تو اس وقت لاہور میں پاکستان کی ایک کمپنی تھی جس میں 150 لوگ تھے اور دشمن بھاری نفری کے ساتھ ہمارے سیکٹرز پر حملے کر رہے تھے ۔ صرف 150 لوگوں نے دشمن (انڈیا) کی اٹیکنگ فورس یعنی حملہ آور فورس کو 12 گھنٹے تک روک کر رکھا تا کہ ہماری پچھلی فوجوں کو موقع مل جائے کو اپنے دفاع کو مضبوط کر لیں ۔ سیالکوٹ پورا شہر خالی تھا۔
سیالکوٹ میں دشمن کے ٹینک آئے تو سیالکوٹ کا شہر خالی پڑا تھا اور دشمن کو یقین نہیں آرہا تھا کہ شہر خالی کیسے ہو سکتا ہے؟ دشمن اس خوف سے رُک گئے کہ شاید آگے ان کے لئیے پھندہ لگا ہوا ہے ۔ اﷲ تعالی کی تائید اس طریقہ سے آئی اور پاکستانی ٹینکوں کو موقع مل گیا کہ ہم نے اپنے پوزیشنز بنا لیں۔ پاکستانی فوج نے دشمن کے اس طرح پرخچے اڑائے جیسے وہ کوئی کھایا ہوا بھوس تھا تو 1965 کی لڑائی کا معاملہ یہی ہے کہ ایک ایسے موقع پر کہ جب دشمن نے یہ کہا تھا کہ ہم 6 ستمبر کی صبح 11 بجے تک لاہور جِم خانہ تک پہنچ جائیں گے ۔ اس وقت حال یہ تھا کہ اﷲ کے فضل سے 17 دن تک دشمن کے دانت توڑ دئیے گئے اور انڈیا کے اندر جا کہ ان کے قصبے پر ہم نے قبضہ کر لیا ۔ ایم ایم عالم صاحب نے 15 سکینڈ میں دشمن کے 5 جہاز مار کر گرائے جو ایک ایسا ریکارڈ ہے جسے دنیا میں آج تک کوئی نہیں توڑ سکا۔ پاکستان کی پوری قیادت یعنی پاکستان کی عام فورسز کی لیڈرشپ سے لے کر ایک سپاہی تک نے قربانیاں دیں۔ میجر راجہ عزیز بھٹی شہید ماشاء اﷲ اس جنگ کے شہدا میں سے ہیں۔ میں آپ کو ان کا واقعہ بتاتا ہوں اور دیگر واقعات سے آپ کو پتہ چلے گا کہ 6 ستمبر کا واقعہ ہم اتنے پیار سے ، عقیدت سے اور جذبے سے کیوں یاد کرتے ہیں ۔ ایئر مارشل نور خان اس وقت چیف آف ایئر سٹاف تھے اس وقت پاکستان کے پاس بمبار طیاروں کی کمی ہو گئی تو منصوبہ یہ بنایا گیا کہ C1-30 ایئر کرافٹ جس کا کام کھانا اور دوسری اشیاء پہنچانا ہوتا ہے C1-30 ایئر کرافٹ کو بمنگ کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ یہاں نور خان صاحب کی دلیری اور جرأت دیکھیں کہ انہوں نے کہا کہ یہ ایئر کرافٹ نہیں جائے گا جب تک میں خود نہ دیکھ لوں کہ یہ ہمارے پائلٹ کیلئے کتنی خطرناک ہے؟ اسی کو لیڈنگ آف دا فرنٹ کہا جاتا ہے جو دنیا میں صرف اور صرف پاکستان کے پاس ہے ۔ دنیا کی تاریخ میں پاکستانی فوج ایک واحد فوج ہے جس میں افیسرز کے زخمی یا شہید ہونے کا ریٹ سب سے زیادہ پایا جاتا ہے اور دنیا کی کسی ملک میں نہیں پایا جاتا ۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ ہمارے افیسرز آگے بڑھ کر خود لیڈیعنی رہنمائی کرتے ہیں ۔ اور اسی طرح نور خان صاحب اس پہلی فلائٹ میں جو سب سے خطرناک فلائٹ تھی جس میں وہ C1-30 ایئر کرافٹ میں بم رکھ کر لے کے گئے اور خود ایئر چیف نے فلائی کیا ۔ آج تک دنیا کی تاریخ میں نہیں ہوا کی ایئر چیف بمنگ مِشن لے کر جائے۔ اور افسوس کی بات ہے کہ یہ باتیں ہماری تاریخ میں آج بچوں کو نہیں پڑھائی جاتیں اور نہ ہی بتائی جاتی ہیں۔
Pakistan Air Force
پاک فضائیہ کے کانامے۔ پاکستان نیوی کے پاس اس وقت ایک سب مرین تھی جس کا نام غازی تھا اور اس سب مرین نے دشمن کا ناکچہ بند کیا ہوا تھا ۔ پاکستان نیوی نے سومنات پر اٹھارواں حملہ کیا جس کو مشن دوارکہ کہا جاتا ہے ۔ تاریخ میں وہ علاقہ سومنات کا کہلاتا تھا ۔ اور اسی لیئے اس زمانے میں تاریخی ناول اور کتابیں لکھی گئیں کہ سومنات پر محمود غزنوی کے 17 حملوں کے بعد یہ اٹھارواں حملہ کیا گیا تھا اور پاکستان کی نیوی آگے بڑھ کر سمندروں میں گئی، دوارکہ پہ گئی ، دوارکہ کے قلعے کو بمنگ کر کے تباہ کیا اور پھر نکل کر واپس آئی ۔ اور یاد رکھئیے گا کہ یہ سب کچھ اپنے سے پانچ گناہ بڑے دشمن کے خلاف کیا جا رہا تھااور اس وجہ سے جب آپ پاکستان کا دفاع کر سکیں اور دشمن کے دانت توڑ دئیے ہوں اور اس کی فضائیہ کو تباہ کر دیا ، دوارکہ تباہ کر دیا ، ان کے علاقے پر قبضہ کر لیا اور پاکستان کا دفاع کرسکیں تو یہ بہت بڑی کامیابی ہے ہماری۔ ہمارا کبھی بھی ارادہ نہیں تھا کہ ہم دہلی پر قبضہ کر لیں گے ۔ ہمارا مقصد تو اس وقت اپنا دفاع کرنا تھا اور وہ ہم نے اچھی طرح اﷲ کی مدد سے کیا ۔ اور 17 دن میں اﷲ کے فضل سے پوری دنیا نے پاکستانی فوج کا ، پاکستانی نیوی کا اور پاکستانی قوم کا لوہا مانا جو 17 دن تک سیسہ پلائی دیوار بنی رہی ۔ خاص طور پر جو پاکستانی قوم کی طرف سے اپنے ملک کیلئے دیکھنے میں آیا کہ پاکستان کی مائوں نے بہنوں نے اپنے جوان بھائی اور بیٹوں کوسینے پر بم باندھ کر پاکستان کا دفاع کرنے کیلئے بھیجا اور وہ جوان خوشی سے پاکستان کی خاطر اپنی جان کا نظرانہ پیش کرنے کیلئے نکل کھڑے ہوئے۔
1965 کی لڑائی میں ایسے ایسے معجزات دیکھنے کو ملے ہیں کہ ایک سیکٹر پر ہماری توپوں کی مدد کی ضرورت پڑی ۔ ہماری پیادہ فوج کے مورچے تھے جن پر دشمن کے ٹینکوں کا دبائو بہت شدید تھا ۔ اور ہماری توپوں کی آخری حد سے بھی 2 یا 3 کلومیٹر دور دشمن کے ٹینکوں کی پوزیشن تھی۔ جب مدد مانگی گئی تو حساب لگایا گیا کہ ہماری توپوں کے گولے دشمن تک نہیں پہنچ سکتے اور صورت حال یہ تھی کہ اگر اس وقت اپنی فرنٹ لائن کومدد نہ دی جاتی تو سیالکوٹ شہر کا ایک پورا سیکٹر دشمن کے قبضہ میں آ جاتا ۔ افسروں کی آنکھوں میں آنسو آ گئے جب انہوں نے اﷲ تعالیٰ پر بھروسہ اور توکل کر کے دشمن کی جانب توپوں کا منہ کر کے فائر کیا تو ناقابل یقین بات ہے کہ توپ کا گولہ فائر ہونے کے بعد اپنی منزل پر پہنچتے ہوئے تقریباً ڈھائی یا تین منٹ لیتا ہے۔ تین منٹ بعد وائرلیس پر ہماری جو آگے فوج تھی وہاں سے نعرہ تکبیر کی آواز آنے لگیں کے توپوں کے گولے اپنی آخری حد سے 2 یا 3 کلومیٹر دور عین دشمن کے ٹینکوں کے درمیان ٹھیک ٹھیک گر رہے تھے جو کہ ہماری توپوں کی آخری حد سے بھی کئی کلومیٹر آگے تھے ۔ نہ اس پہلے کسی کبھی توپ نے اتنا دور فائر کیا اور نہ ہی آج تک اس کے بعد کسی توپ نے اتنا دور فائر کیا ۔ اس موقع پر جب ضرورت تھی تو اﷲ کی طرف سے مدد آئی ۔ ہزاروں واقعات ایسے ہیں ۔ یہ باتیں بزرگوں نے کتابوں میں بھی لکھیں ہیں ۔ آپ ممتاز مفتی کی کتابیں اٹھا کر دیکھ لیں ۔ الگ نگری میں دیکھ لیں ، تلاش دیکھیں اس کے علاوہ اس زمانے کے اخبارات میں بھی یہ تمام واقعات چھپے ہیں ۔ ممتاز مفتی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ جب 1965 کی لڑائی شروع ہوئی تب مسجد نبویۖ میں اﷲ کے بندوں نے حضورۖ کی زیارت فرمائی اور دیکھا کہ حضورۖ جنگی لباس میں اصحابِ بدر کے شہدا کے ساتھ پاکستان کے دفاع کیلئے تشریف لے جا رہے ہیں کہ پاکستان پر حملہ ہوا ہے اور ہم نے اس کا دفاع کرنا ہے ۔ ( سبحان اﷲ )۔ یہ ساری باتیں کتابوں میں چھپی ہیں ، اخباروں میں چھپی ہیں۔ اپنی طرف سے نہیں بنائی گئی یہ باتیں ۔ تاریخ گواہ ہے ان سب واقعات کی ۔ اسی طرح دشمن کے طیارے کے پائلٹ کو کہا گیا کہ تم نے راوی کے پل پر بمباری کرنی ہے ۔ وہ پائلٹ پکڑا گیا ۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ پل تو تمہارے سامنے تھا تو تم نے فائرنگ کیوں نہیں کی تو اس نے کہا کہ مجھے ایک پل پر فائرنگ کیلئے کہا گیا لیکن مجھے 6 پل نظر آرہے تھے میں کس پر بمباری کرتا؟ یہ باتیں دشمن کے سپاہیوں نے کہی ہیں اور انہو ں نے سوال کیا کہ وہ آپ کی گھوڑوں والی فوج کون تھی جن کے سفید لباس تھے اور ان کی تلواروں میں سے شعلے نکل رہے تھے ۔ یہ باتیں دشمن کے پائلٹ نے کہی ہیں کہ ہم بم گراتے تھے لیکن بم پھٹتا نہیں تھا ۔ پنڈی پر 35 یا 40 بم پھینکے جن میں سے صرف 4 بم پھٹے اور وہ بھی ویرانے میں پھٹے ۔ اگر پاکستان میں فضائے بدر پیدا کریں تو ملائکہ آج بھی مدد کیلئے نازل ہونگے۔ جنگ بدر میں بھی ایسا ہی ہوا تھا کہ 313 مسلمانوں نے 1000 دشمن کی فوج کو مات دے دی تھی اور اﷲ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں کہ میں نے پھر ایک ہزار ملائکہ نازل کیئے ۔ یہ بات صرف 14 سو سال پہلے پر محدود نہیں ہے ۔ جب بھی مسلمان اﷲ اور اس کے رسول ۖ کے نام پر اس پاک سر زمین کیلئے کھڑے ہونگے تو اﷲ تعالیٰ کی تائید اور نصرت آئے گی ۔ 1965 سب سے خوبصور مثال ہے ہمارے لیئے ۔
ویسے تو 1947 سے آج تک اگر پاکستان قائم ہے تو وہ ہمارے شہدا اور ہمارے غازیوں کی وجہ سے ہے۔ آپ سیاچین کے مجاہدین سے پوچھیں تو وہ آپ کو ایسے ایسے معجزے سنائیں گے کہ کس طرح اﷲ تعالیٰ کی تائید ہوئی ۔ کارگل والوں سے پوچھیں وہ آپ کو ایسے معجزات بتائیں گے لیکن 1965 چونکہ ہماری تاریخ کا ایک خاص رومینٹک دن ہے تو اس دن کے واقعات میں سے ایک واقعہ بیان کرتاہوں جو ہمارے بچوں نے کسی کتاب میں نہیں پڑھا ہو گا ۔ جب انڈین ڈویژن نے لاہور پر حملہ کیا تو انڈین جرنیل اپنے سپاہیوں کا حوصلہ بڑھانے کیلئے یہ کہہ رہے تھے کہ لاہور اب صرف تین چار میل دور رہ گیا ہے ، بس تمہاری آنکھوں کے سامنے ہے ۔ تھوڑا سا آگے بڑھو اور لاہور تمہارے قبضہ میں ہو گا ۔ مذاہمت شدید ہو رہی تھی ۔ اور پاکستان کے جوانوں نے دشمن کو روکنے کیلئے اپنے آپ کو دشمن کے ٹینکوں کے سامنے ڈال دیا تھا ۔ اس کیفیت میں لاہور تقریباً 14 میل دور تھا ۔ اس زمانے میں وائرلیس انکرپٹڈ نہیں ہوا کرتے تھے ۔ جو بھی بات چیت ہوتی تھی وہ دونوں جانب سے سنی جاتی تھی ۔ تو جب ہمارے جوانوں نے یہ سنا کہ دشمن کا جنرل اپنی فوج سے کہہ رہا ہے کہ لاہور صرف تین یا چار میل دور رہ گیا ہے جبکہ لاہور اس وقت 14 میل دور تھا ۔ تو اس وقت ہمارا وہ زخمی افیسر اپنے مورچہ سے نکلتا ہے اور سڑک کے کنارے جو کتبہ لگا ہوا تھا جس پر لاہور 14 میل لکھا تھا اس کو اکھاڑ کر انڈیا کی جانب مزید دو فرلانگ اور لے کر گیا اور اس پر اپنے خون سے نقطہ لگا کر 2 لکھ کر لگا دیا جس کا مطلب تھا 14.2 بلڈی میل ۔ اور وہ جوان واپس آگیا ۔ جب دشمن کے ٹینک اس کتبے تک پہنچے اور انہوں نے دیکھا کہ لاہور تین یا چار نہیں بلکہ 14.2 بلڈی میل دور ہے تو دشمن اس کو پار نہیں کر سکا۔
یہ وہ جذبے تھے کہ جب شہدا CMH پہنچنا شروع ہوئے ۔ کچھ افیسرز اور کچھ جوان شہدا کو لے کر پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ کام کا اتنا پریشر تھا کہ سارے مرد کام میں لگے ہوئے تھے اور ان زخمیوں کو وصول کرنے کیلئے نرسز اپنی ڈیوٹی سر انجام دے رہی تھیں ۔ تمام ہسپتالوں کی نرسز تھیں جو زخمیوں کو وصول کر رہی تھیں ۔ تو ان افیسرز اور جوانوں نے شہدا کو نرسز کے حوالے کیا کہ بعد میں ان کو سپرد خاک کرنے کیلئے لے جایا جائے گا ۔ آنے والے جوانوں نے جب یہ دیکھا کہ بہنیں اور بیٹیاں شہدا کو وصول کر رہی ہیں تو ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔ انہوں نے واپس جا کر اپنی پوری یونٹ میں اعلان کیا کہ او شیرو ، دلیرو اپنے سینوں پر گولیاں کھانا ۔ پیچھے تمھاری بہنیں اور بیٹیاں تمہیں وصول کر رہی ہیں ۔ ایسا نہ ہو کہ وہ تمہاری پشت دیکھیں اور کہیں کہ یہ بے غیرت پشت پر گولی کھا کے آیا ہے ۔ یہ جذبہ تھا ہمارے جوانوں کا کہ ہمیں دفن کرنے کیلئے پیچھے ہماری بہنیں کھڑی ہیں اور سب نے قسمیں کھائی کہ ہم گولی سینوں پر کھائیں گے ۔ یہ وہ باتیں ہیں جو اُن یونٹوں میں ہوئیں تھی جو آج نہ کسی ٹکسٹ بک میں لکھی جاتیں ہیں اور نہ کسی کتابوں میں پرنٹ ہوتی ہیں ۔ یہ وہ باتیں ہیں جو فوجیوں کے سینوں میں دفن ہیں ۔ یعنی جو بات میں نے آپ کو بتائی کہ جس طرح معجزات وہاں پر ہو رہے تھے ۔ جس طرح کا دبائو دشمن کی طرف سے ہم پر پڑا ہوا تھا اور جس طرح پاک سر زمین کی خاطر قربانیاں دی جا رہی تھیں کہ سننے میں آج تک نہیں آیا کہ توپیں اپنی آخری حد سے زیادہ دور گولے مار رہی ہوں ۔ ایک وقت ایسا آیا کے چونکہ توپ خانہ ہمیشہ پیچھے ہوتا ہے اور توپ خانے کا کام یہ ہوتا ہے دور بیٹھ کر دشمن پر فائر کرے اور آگے مورچے ہوتے ہیں۔ ایسے بھی مواقع آگئے کہ جب دشمن کے ٹینک ہمارے توپ خانے کے اتنے قریب پہنچ گئے کہ براہ راست توپوں کی اور ٹینکوں کی لڑائی شروع ہونے والی تھی ۔ کہا جاتا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے بڑی ٹینکوں کی لڑائی بھی سیالکوٹ میں لڑی گئی تھی ۔ یہ ایسا موقع تھا کہ ایک افیسر نے کمانڈ دی کہ ہائی ایکپلوسو شیل نکال دو کیونکہ اب توپ اور ٹینک کی براہ راست لڑائی شروع ہونے والی ہے ۔ یہ ایسا موقع ہوتا ہے کی اس کے بعد آر یا پار ہوتا ہے ۔ ٹینک میں چونکہ بہت سی خصوصیات ہوتی ہیں ۔ مثلاً ٹینک میں موبائل ہوتا ہے ، وہ حرکت کر سکتا ہے اور توپ ایک جگہ پر رکی ہوتی ہے تو ایسے موقع پر اﷲ تعالیٰ نے دھند بھیج دی اور دھند کی وجہ سے دشمن کے ٹینک رک گئے اور جس طرح پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ پہلے اﷲ نے دشمن پر خوف طاری کر دیا تھا۔
یہ اﷲ کی اتنی بڑی تائید ، معجزہ ، کرم اور مہربانی تھی کہ پاکستان کا دو قومی نظریہ جس کی بنیاد پر پاکستان بنا تھا اﷲ کے فضل سے اس پر لوگ یقین رکھتے تھے ۔ ہم ایک قوم تھے ۔ ہم سندھی ، بلوچی ، پٹھان ، پنجابی یا مہاجر نہیں تھے بلکہ ہم صرف ایک قوم تھے جو تقسیم نہیں ہوئے تھے ۔ اور اُس وقت نہ انڈین میڈیا تھا ، نہ انڈیا کے چینلز ہم تک پہنچتے تھے ، نہ پاکستان میں اس بات پر شک ڈالا جاتا تھا کہ پاکستان کو ایک سیکلر ملک ہونا چاہئے یا اسلامی ملک ، نہ اس بات پر شک ڈالا جاتا تھا ک قائداعظم سیکلر تھے یا مسلمان ، نہ اس پر شک کیا جاتا تھا کہ علامہ اقبال کا کیا کردار تھا پاکستان بنانے میں اور ہر پاکستانی یہ جانتا تھا کہ ہمارا ازلی و ابدی دشمن انڈیا ہے اور کشمیر ہماری رگوں میں ہمارے خون میں ہماری دل کی دھڑکن کے ساتھ سراج کرتا تھا ۔ جب اسی وجہ سے کشمیر کو آزاد کروانے کو کوشش کی گئی تو پوری قوم ساتھ تھی اور جب انڈیا نے پاکستان پر حملہ کیا تو پوری قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئی تھی ۔ ہمیں متحد کرنے کیلئے ایک پلید دشمن کافی ہوتا ہے اور وہ بھی رات کی تاریکی میں کمینگی سے حملہ کرے اور یہ دعوے کرے کہ ہم لاہور میں جا کر شراب پئیں گے ۔ پورے پاکستان خصوصاً لاہور اور سیالکوٹ کے غیرت مند اور دلیر لوگ اپنے گھرو سے تلواریں ، ہاکیاں بندوقیں اور دیگر سامان لے کر نکل آئے اور سرحدوں پہنچنے لگ گئے ۔ پاکستانی فوج کو انہیں روکنا پڑا کہ آپ کے بیٹے آگے سرحد پر شہید ہونے کیلئے کافی ہیں ۔ آپ صرف پاکستان سنبھالیں۔
جب دشمن کے طیارے لاہور پر بمنگ کرنے آتے تھے اور ہمارے شاہین ان کا پیچھا کرتے تھے تو لوگ اپنے گھروں کی چھتوں پر چڑھ جاتے تھے اور دشمن کے طیاروں پر جوتے یا جو چیز اُن کے ہاتھ آتی تھی پھینکتے تھے ۔ پورے شہر میں میلہ لگا ہوتا تھا ۔ لوگ چھتوں پر چڑھ کر نعرہ تکبیر لگا رہے ہوتے تھے اور نیچے سے دشمن کے طیاروں پر لعنتیں اور گالیاں دے رہے ہوتے تھے اور ان کی آنکھوں کے سامنے جب دشمن کے طیارے کو گرایا جاتا تھا تو اس وقت لوگوں کا جوش کیا ہو گا؟ خود سوچئیے۔ آج ہم انڈیا اور پاکستان کا کرکٹ میچ دیکھتے ہیں تو ہمارے خون کھول اٹھتے ہیں تو وہ تو سچ مچ کی لڑائی تھی ۔ اس وقت جذبۂِ ایمانی کا عالم تھا کہ ایک موقع پر اعلان کیا گیا کہ دشمن نے شاید گوریلا فوج یا دہشتگرد داخل کر دئیے ہیں تو پورے لاہور کے شہری اپنے گلی اور محلوں میں پہرے دینے لگے اور پورا شہر نکل کر باہر آگیا۔
سب سے زیادہ جذباتی کردینے والی جو چیز تھی وہ تھی پاکستانی قوم کی اپنی فوج کے ساتھ شدید ترین محبت ۔ پیسے نہیں لئیے جاتے تھے فوجیوں سے کہ جب وہ بازار میں آتے تھے گاڑی کی بیٹری لینے ، کوئی راشن خریدنے یا کوئی اور سامان چاہئیے ہوتا تو دکاندار روتے تھے اور پیسے نہیں لیتے تھے ۔ اگر پاک فوج دکانداروں کو پیسے دیتی تو دکانداروں کی آنکھوں میں آنسو آجاتے تھے اور جب وہ شہروں میں آتے تھے تو شہزادوں کی طرح سپاہیوں کا استقبال کیا جاتا تھا ، ہار پہنائے جاتے تھے ۔ یہ محبت اور تعلق تھا اور جو کچھ ویسٹ پاکستان میں ہو رہا تھا وہی سب کچھ ایسٹ پاکستان میں بھی ہو رہا تھا ۔ بنگالی مسلمان بھی اسی طریقے سے کھڑے ہو کر پاکستان کے دفاع میں انڈیا کے خلاف نعرے لگا رہے تھے ۔ وہاں بھی چھوٹی موٹی جھڑپیں ہوئیں لیکن اصل جنگ اس طرف لڑی گئی۔
ایوب خان کی تقریر کو بار بار سنو ۔ ہماری تاریخ کی عظیم ترین تقریروں میں ایک تقریر ہے ۔ قائداعظم اور علامہ اقبال کی گفتگو ، تقریروں اور جوش کے بعد لیاقت علی خان نے وہ تقریر جو قراردادِ مقاصد پیش کرتے ہوئے کی تھی وہ ایک حیرت انگیز تقریر ہے اور اس کے بعد ایوب خان کی وہ تقریر جو انہوں نے 1965 میں 6 ستمبر کی صبح 9 یا 10 بجے ریڈیو پاکستان پہ کی اس نے پوری قوم کو کھڑا کر دیا ۔ اور لوگوں نے ریلوے اسٹیشنوں پر ، چائے خانوں پر ، بسوں کے اڈوں پر نیز ہر جگہ وہ تقریر سنی ہے اور سانس روک کے سنی ۔ پورے پاکستان میں ٹریفک رک گئی ، سکتہ طاری تھا جب وہ دس منٹ کی تقریر ہو رہی تھی۔ جب وہ تقریر ختم ہوئی تو پورے پاکستان میں نعرے تکبیر کی ایسی صدا بلند ہوئی اور لوگ اپنے ہتھیار نکال کر سرحدوں کی جانب دوڑے تا کہ وہ اپنے پیارے وطن پاکستا ن کا دفاع کر سکیں۔
بات یہی ہے کہ جب تک ہماری روحانی و نظریاتی اساس زندہ ہے پاکستانی قوم ایک ہے ۔ اُس وقت جس کے پاس جو تھا اس نے پیش کر دیا ۔ آج یہ جو ہمارے جذباتی ترین ترانے ہیں ۔ نورجہاں اس وقت معمولی سی گلوکارہ تھیں ۔ جب پاکستان پر حملہ ہوا تو انہوں نے ریڈیو پاکستان فون کیا اور کہا کہ میں نور جہاں ہوں اور میں پاکستانی فوج کیلئے کچھ ترانے ریکارڈ کروانا چاہتی ہوں ۔ ہماری قوم تیار ہی نہیں تھی ان حالات کیلئے ۔ نور جہاں کو وہاں بلا لیا گیا ۔ وہیں بیٹھے بیٹھے انہوں نے وہ ترانے ریکارڈ کروائے اور ان ترانوں نے پوری قوم میں آگ لگا دی ۔ دشمن آج بھی سوچتا ہے کہ وہ کیا چیز تھی جس نے پاکستانی قوم کو سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنایا۔ وہ یہی کلمہ تھا (لا الہ الا اﷲ محمد الرسول اﷲ) جو ہمارے دل کی دھڑکنوں میں گونج رہا ہے ۔ ایوب خان سے جس کو جو مرضی شکایت ہو لیکن اس موقع پر انہوں نے دل سے تقریر کی تھی ۔ اس موقع پر ان کی بھی آنکھوں میں آنسو تھے ۔ اس موقع پر وہ ایک مسلمان بن چکے تھے جو پاکستان کی عزت و آبرو کے ذمہ دار تھے اور انہوں نے قوم کو جس طرح پکارا تھا اور قوم کو اس جہاد کی پکار پر لبیک کہلوایا تھا اور پھر نور جہاں کے یہ ترانے ، پھر یہ جذبہ جہاد اور جذبہ شہادت ۔ جیل کے قیدیوں نے خون کا عطیہ دینا شروع کر دیا تھا ۔ اپنے گناہوں سے توبہ کر لی کہ آئندہ ہم پاکستان کے خلاف کوئی بات نہیں کریں گے۔
ہماری پاکستانی قوم کے خون میں عشقِ رسولۖ اور پاکستان سے محبت موجود ہے۔ ہماری قوم کے خوبصورت جوانوں نے شہادتیں دی ہیں اور خواہش کر کے شہادتیں دی ہیں۔ آخر میں ایم ایم عالم صاحب کا ایک واقعہ بیان کروں گا کہ رمضان کی دوپہر میں جب گرمی کے وقت تمام پائلٹ اپنے کمروں میں سو رہے ہوتے تھے تو اس وقت ایم ایم عالم صاحب اپنے جہاز پر بیٹھ کر اس کی گنز کو زیرو کر رہے ہوتے تھے۔ گنز کا نشانہ سیدھا کر رہے ہوتے تھے تاکہ کبھی فائر کرنے میں ان کی کوئی گولی ضائع نہ جائے۔ جب کوئی پاکستان سے عشق کرتا ہے ، اس کے دفاع کی تیاری کرتا ہے اور اپنے آپ کوڈیوٹی کیلئے ہمیشہ چوکنا رکھتا ہے تو پھر اﷲ اس کو عزت کے مواقع دیتا ہے ۔ ایسے بھی واقعات ہوئے 1965 کی لڑائی میں جب فضائیہ کے پائلٹ نے جہاز اڑایااور ساری گولیاں فائر کرنے کے باوجود دشمن کے جہاز کو ایک گولی بھی نہیں لگی اور ایم ایم عالم صاحب کے پاس صرف 15 سیکنڈ کا فائر پاور تھا ۔ ہمارے پاس F-86 Saber ایئر کرافٹ تھا اور اس میں سے جب فائر کیا جاتا ہے تو 15 سیکنڈ کی گولیاں ہوتی ہیں ۔ اور 15 سیکنڈ کی گولیوں میں پانچ جہاز مار کر گرانا اس وقت ممکن تھا جب آپ کی گن انتی ایکوریٹ ہوتی کہ جہاں پر آپ فائر کر رہے ہیں وہیں پر فائر ہو اور وہ اس وقت ہوتا ہے جب رمضان المبارک کی دوپہر میں آپ ایئرکنڈیشن کمرے چھوڑ کر دھوپ میں کھڑے ہو کر اپنی گن کو زیرو کر رہے ہوں ۔ جب یہ جنون اور عشق ہوتا ہے تو اﷲ ایسے مواقع عطاء کرتا ہے اور عزت دیتا ہے ۔ یہ ہماری تاریخ ہے کہ ہم خالد ، طارق بن زیاد ، صلاح الدین اور ٹیپو سلطان سے شروع ہوتے ہیں تو ماشاء اﷲ کاگل ، وزیرستان اور سوات تک پہنچتے ہیں ۔ ہماری تاریخ میں تسلسل ہے جو کبھی نہیں ٹوٹتا۔
ان سب چیزوں اور واقعات سے ایک سبق ملتا ہے کہ جب اﷲ ہمیں امن و امان اور عافیت کا وقت دیتا ہے تو اس میں تربیت کرنی چاہئے۔ عیاشی میں وقت ضایع نہ کرنی چاہئے۔ یہ امن کا وقت اﷲ کی طرف سے میدان جنگ کی تربیت کیلئے عطاء کیا جاتا ہے اور جنگ میں ہی کھرے اور کھوٹے کی پہچان ہو تی ہے۔ اور جو امن و امان کے وقت میں تیاری کرتا ہے وہ حالتِ جنگ میں عزت پاتا ہے ۔ میدانِ جنگ ٹریننگ کیلئے نہیں بلکہ اپنے آپ کو قربان کرنے کیلئے ہوتا ہے۔ ایک وقت میں ایئر کرافٹ نے ساری گولیاں فائر کیں اور دشمن کو ایک بھی نہ لگی جبکہ ایم ایم عالم صاحب نے 15 سیکنڈ میں 5 طیارے مار گرائے۔ اور یہ ورلڈ ریکارڈ ہے۔ ایک ناممکن ریکارڈ جسے کوئی نہیں توڑ سکتا۔
آخر میں تمام پاکستانیوں اور خاص طور پر پاکستان کے نوجونوں کو میرا پیغام ہے کہ اس پاکستان سے محبت کرو ۔ بہت بھاری قربانیوں کے بعد یہ پاکستان آپ کے حوالے کیا گیا ہے ۔ اس پرچم کو گرنے نہ دینا ۔ اس پر سب کچھ قربان کر دو ۔ یہ سوال نہ کرنا کہ اس نے ہمیں کیا دیا ہے ۔ بلکہ اپنے آپ سے سوال کرنا کہ ہم نے اس کو کیا دیا ہے۔ اس مٹی میں آپ کا خون شامل ہو گیا تو دونوں جہانوں میں خوش نصیب ہو جائو گے۔ جو پاکستان میں بستا ہے وہ سایہ خدائے ذالجلال میں ہے۔ میں تمام نوجوانوں سے یہی کہوں گا کہ پاکستان کو ہلکا نہ لینا۔ یہ اﷲ تعالیٰ کے رازوں میں سے ایک راز ہے اس پر قربان ہو جائو۔ سب سے سستا سودا ہے۔ آج پاکستان کو آپ کی ضرورت ہے۔ یہ پاکستان آپ کی بوڑھی ماں ہے۔ اس کو آپ کی ضرورت ہے ۔ بہت ہی بے رحم اور بد نصیب ہو گا جو بوڑھے ماں باپ کو اپنی جوانی میں چھوڑ دے گا۔ اس پاکستان کو آپ کی ضرورت ہے۔ پاکستان کیلئے متحد ہو جائو۔ پاکستان زندہ آباد ، پاکستان پائندہ آباد