یوم قائد اور ہم پاکستانی

Quaid e Azam

Quaid e Azam

تحریر : عتیق الرحمن
گزشتہ سترسالوں سے ہم بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا یوم پیدائش مناتے ہیں کہ ان کا احسان عظیم ہے کہ مسلمانان برصغیر کو انگریز و ہندودونوں سے نجات دلائی اور مسلمانوں کیلئے ایک الگ ریاست حاصل کرکے اس پر سبزہلالی پرچم لہرایا ۔کراچی میں مولانا شبیر احمد عثمانی اور ڈھاکہ میں مولانا ظفر احمد عثمانی نے قائد کے حکم پر پرچم کشائی کی ۔علامہ اقبال نے پاکستان کے قیام کا نظریہ صرف ایک زمین کے ٹکڑا کرنے کیلئے نہیں پیش کیا اور نہ ہی قائد اعظم محمد علی جناح نے ہزاروں نہیں لاکھوں نفوس کی قربانی صرف زمین کی ایک پالشت حاصل کرنے کیلئے پیش کی بلکہ ان کے مطمع نظر تو یہ تھا کہ پاکستان کو ہم عالم اسلام کا رہبر و رہنما بنائیں گے۔

سیکولرازم، کیمیونز م اور کیپیٹل ازم کے بر خلاف اسلام کا ہمہ جہتی عالمی و آفاقی نظام اس خطہ ارض پر نافذ کرکے جس میں افراط و تفریط سے احترا زکرتے ہوئے خالص اسلامی نظام سیاست و معیشت اور معاشرت کو بالادستی دی جائے گی۔ مگر ہوا سب اس کے برعکس ۔جناب قائد کے انتقال کے بعد لیاقت علی خان کو لیاقت باغ میں شہید کردیا گیا اور یہ سلسلہ ایسا بڑھا کہ ملک میں کشت وخون کا ناختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا یہاں تک کہ باہمی الفت و محبت ،اتحاد و اتفاق، رواداری و برداشت کی تہی دامنی کے نتیجہ میں بنگلہ دیش قائم ہوا۔

اسی پر بس نہیں کی گئی ملک کے اندر امریکہ و یورپ کے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے اپنے وطن عزیز کو لاغر و نحیف جسم بنانے کی سعی کی گئی جس کی ہرآن اور ہر کھڑی یہ کوشش و تمنا رہی ہے کہ اس کے سرپر دست شفقت رکھا جائے مگرہم مسلمان ہوتے ہوئے قرآن حکیم کی بات کو نہ سمجھ سکے کہ ”یہود و نصاریٰ تم سے ہرگز خوش نہیں ہوسکتے یہاں تک کے ان کی ہمہ جہتی زندگی میں پیروری نہ کرلی جائے”اور پھر قرآن نے یہ بھی بتادیا کہ ”یہود و نصاریٰ کو اپنا دوست نہ بنائو”مگر مسلمانان پاکستان نے چند ڈالروں کے عوض اپنا دین ،اپنا ملک اغیار کے سپرد کردیا یہی وجہ ہے کہ آج ملک میں شمال و جنوب، شرق و غرب میں لاقانونیت و بدامنی کا راج جاری و ساری ہے،کوئی مسلم و غیر مسلم شہری خود کو محفوظ نہیں سمجھتا،غربت و افلاس کی بھٹی میں قوم پس رہی ہے،تعلیم یافتہ نوجوان بھاری بھر ڈگریوں کو لے کر بھی چوری و رہزنی کی راہ پر چل پڑے ہیںکہ انہیں باعزت روزگار میسر نہیں۔

سیاسی و مذہبی،علاقائی و لسانی عصبیت کا درخت اس قدر تناور ہوچکا ہے کہ ہرکس و ناکس کو اتنا خوف آتاہے کہ کس لمحہ اس کی جان کسی کی گولی سے چلی جائے یا اس کی کردار کشی کا طوفان بدتمیزی اور فتوئوں کی برسات جاری ہوجائے اس پر۔ہم پاکستانیوں پر ضروری ہے کہ اگر ہم واقعی اپنے وطن ،اپنی ملت، اور دوقومی نظریہ پر ایمان رکھتے ہیں تو لازمی ہے ہم پر کہ ہم قرآن و سنت اور سلف صالحین کی تعلیمات و سیرت کا بغور مطالعہ کریں کیونکہ ہماری نجات و فلاح اسی طورپر ممکن ہے جس کی بنیاد پر سابقون الاولون کی اصلاح ہوئی اور ان کو اقبال مندی حاصل ہوئی۔

اس کے ساتھ بحیثیت پاکستانی ہمیں مصور پاکستان علامہ اقبال اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے افکار و نظریات اور ان کی مجہودات عالیہ کا بھی وسیع مطالعہ کرنا ہوگا کہ انہوں نے کیسے پاکستان کا تصور قائم کیا تھا؟کس پاکستان کیلئے لاکھوں انسانوں نے جانی و مالی اور وقتی قربانیاں پیش کی تھیں؟کیا آج کا پاکستان وہی ہے یا اس سے کوسوں دور ظلمت و تاریکی میں بھٹک چکا ہے؟جس کو اصل خط مستقیم پر لانے کی ضرورت ہے اور اس کیلئے ہم سب نے ملک کر سعی و کوشش کرنی ہو گی۔

Atiq ur Rehman

Atiq ur Rehman

تحریر : عتیق الرحمن
03135265617
atiqurrehman001@gmail.com