تحریر: نوید پردیسی غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہویٔ قوم کو آزادی سے ہمکنار کرانے میں اور خواب غفلت سے بیدار کرکے جذبہ حُریت سینوں میں جگانے والے قائداعظم محمد علی جناح کا آج ٢٥ دسمبر یوم ولادت ہے۔ جیسے ملک بھر میں قومی سطح پر منایا جاتا ہے۔ ہم قائداعظم محمدعلی جناح سے محبت اور عقیدت تو رکھتے ہیں أن کا دن بھی مانتے ہیں لیکن ہم ان کی حقیقی تعلیمات کو بھولا چکے ہیں کہ وہ کیسا پاکستان دیکھنا چاہتے تھے، وہ پاکستان میں کس طرح کا نطام دیکھنا چاہتے تھے اگر تاریخ کے اوراق کو آپ ذہن میں رکھ کر اتنا سوچھے کہ قائداعظم جو مغربی تہذیب کو اپنا زیور سمھجاتے ، جن کا رہنا سہنا انگریزوں کی طرح، ان کا کھانا بھی انگریزوں کی طرح،وہ زبان بھی انگریزی استعمال کرتے، ان کے زندگی کے زیادہ ترامور میں آپ کو مغربی جھلک نطرآے گی لیکن کیا وجہ ہے ایک کلین شیو انسان کو لوگوں نے اپنا قائدمان لیا اس کے آگے تمام لوگوں نے اپنی انکھوں کو پیچھا دیا ، یہاں تک کے آج بھی لوگ آپکی مزار پر ہاتھ باندھ کر سلام پیش کرتے ہے۔
آخر وجہ کیا ہے ؟ پہلی وجہ قانون کی پاسداری ہے آزادی کے دور میں بھی آپ کبھی جیل نہیں گٔیا ،آپکا ہر اقدام عین قانون کے مطابق ہوتا ، خود بھی قانون پرعمل کرتے اور دوسروں کو بھی اس پر عمل کرنے کا کہتے یہاں ایک واقعہ زیر غورہے۔ آزادی سے پہلے قائداعظم محمدعلی جناح پشاور یونیورسٹی میں ایک جلسے میں مہمان خصوصی کے طور پر موجود تھے جلسے کے اختتام پر کچھ اسٹودنٹ أن کی خدمت میں حاضر ہوے، جناح نے سوال پوچھا: آپ لوگوں میں کتنوں کے پا س سایٔکل موجود ہے۔
Quaid e Azam
دس کے قریب لوگوں نے ہاتھ بلند کیے، پھرجناح نے پوچھا: کتنوں کے سایٔکل میں لایٔٹ لگی ہویٔ ہیں، صرف ایک نے ہاں میں جواب دیا ( اس وقت قانون تھاسایٔکل میں لایٔٹ لگانے کا )جناح نے جواب دیا: تم میں سے کویٔ بھی میرے ملک میں رہنے کے قابل نہیں، یہ سن کر اسٹودنٹ نے کہا : مسٹر جناح یہ قانون تو انگریزوں کا ہے، جناح نے جواب دیا: قانون ،قانون ہوتا ہے لیکن ہم نے اس ملک میں امیروں کے لیے کویٔ اور قانون دیکھا ہے اور غریبوں کے لیے کویٔ اور ، یہاں ہمارے حکمرانوں کا حال کسے سے پوشیدہ نہیںپاکستان کا اتنا قرض نہیں ہوگا۔
جتنی أن کی باہر ملکوں میں جایٔداد ہے، جبکہ قائداعظم محمدعلی جناح کا آخری وقت تک کویٔ فارن اکائوٹ نہیں تھا اور نہ ہی کویٔ فارن پراپرٹی تھی ،یہ اپنی ساری جایٔدادبھی تین تعلیمی اداروں کے لیے وقف کر گئے اور حیر ان کن بات یہ ہے کہ ان میں سے ایک ادارہ بھارت میں تھا ،آزادی کے بعد کسی نے قائداعظم محمدعلی جناح کو مشورہ دیا کہ آپ اس تعلیمی ادارہ سے اپنی جایٔداد نکال دے لیکن آپ نے یہ کہے کر منع کردیا :میں ایک بار فیصلہ کرلیتا ہو پھر اس پر نظر ثانی نہیں کرتا، قائداعظم محمدعلی جناح اپنے آخری دور تک اپنے بنائے ہوئے اصول پر قائم رہے۔
جب آخری علالت کے وقت پاکستان کے ا مریکہ میں سفیراصفہانی صاحب بھی قائداعظم محمدعلی جناح کی مزاج پرستی کے لیے آئے اور انہوں نے امریکہ سے ماہر ڈاکٹر بھجوانے کی بات کی تو أس وقت بھی قائداعظم محمدعلی جناح کا کہنا تھا میرے غریب ملک کا خرانہ ایسے اخراجات برداشت نہیں کر سکتا ، آپ اس با ت کو ذہن میں رکھ کر آج کے حکمرانوں کا موازنہ کرے جو ذرا سی تکلیف میں باہر علاج کو روانہ ہو جاتے ہے۔
ہمارے لیے قائداعظم محمدعلی جناح صرف بابائے قوم نہیں تھے بلکہ در حقیقت ہماری کامیابی اور کامرانی کا راز ان کی شخصیت میں پوشیدہ ہے ۔اگر ہم سیاسی انداز فکراور کردار میں قائداعظم محمدعلی جناح کو اپنا مقلید مان لے تو ہم وہ قوم بن سکتے ہے جس کو حکیم الامت علامہ اقبال نے مرد مومن کہا جس کو قائداعظم محمدعلی جناح نے مستقبل کل شاہکار کہا۔۔۔۔۔۔