تحریر : ایم پی خان عالمی سطح پر موسم میں غیرمعمولی تبدیلیاں رونماہورہی ہیں، جس کے اثرات ایشیائی ممالک میں بالعموم اورپاکستان میں بالخصوص بہت بڑے پیمانے پر ظہورپذیرہورہے ہیں۔گذشتہ کئی سال سے پاکستان میں گرمی اورسردی کی شدت میں غیرمعمولی اضافہ ہواہے۔امسال پورے ملک میں گرمی کاموسم شدیدتررہا۔وسائل کی عدم دستیابی اورگرمی کی شدت پوری قوم کے لئے ایک عذاب سے کم نہ تھی ، جس کی وجہ سے ہزاروں کی تعدادمیں لوگ موت کے منہ میں چلے گئے۔ابھی گرمی کی شدت کم ہوئی تھی نہ ہم گرمی سے مرنے والوں کاغم بھول گئے تھے کہ مون سون کی بارشوں کاسلسلہ شروع ہوا۔پنجاب اورخیبرپختونخواکے اکثرحصوں میں سیلاب کی وجہ سے بہت بڑے پیمانے پر تباہی پھیل گئی ۔ زمینی راستے کٹ گئے ۔کھڑی فصلیں تباہ ہوگئیں۔
مال مویشیاں سیلاب کی نذرہوگئیں ۔زرخیز اراضی سیلاب میں بہہ گئی لوگوں کے ہنستے بستے گھرانے بربادہوگئے۔جہاں کہیں کچی آبادی تھیں ، وہ یاتوسیلابی ریلے میں بہہ گئی یاگھروں کی چھتیں گرنے سے گھرکے افرادمنوں مٹی تلے دب گئے۔پوری پوری بستیاں بربادی کی تصویر پیش کررہی ہیں۔سڑکیں دریاکامنظربنی ہوئی ہیں اورآبادیوں کے بیچ میں سے بڑے بڑے جھیل بنے ہوئے ہیں۔ستم بالائے ستم یہ کہ ایسے حالات صرف ایک آدھ دفعہ نہیں آئے ہیں بلکہ گذشتہ کئی سال سے بدستورہم سیلابوں کی زد میں ہیں اوران سے متاثرہونے والے صرف اورصرف وہی لوگ ہوتے ہیں جومحنت مزدوری کرتے ہیں۔
جوکسان ہیں اوراس ملک کے لئے اناج ، پھل اورسبزیاں اگاتے ہیں اورجوغربت کی وجہ سے کسی اچھی جگہ میں مکان کے لئے زمین خریدنے کی اسطاعت نہیں رکھتے اورکسی ایسی جگہ میں گھرآبادکرتے ہیں ، جس کے لئے تھوڑاساپانی بھی طوفان نوح سے کم نہیں ہوتا۔جبکہ دوسری طرف ان حالات سے کچھ لوگ مختلف طریقوں سے استفادہ کرتے ہیں۔مختلف وزراء اورارباب اختیار سرکاری خرچے پر متاثرہ علاقوں کے دورے کرتے ہیں ۔ وہاں خوب تصاویربنابناکر دنیا کویہ باورکراناچاہتے ہیں کہ انکے دل میں عوام کے لئے کتنادردموجودہے۔کچھ سرکاری ہیلی کاپٹروں کے ذریعے ان غریب عوام کی بے بسی کاخوب نظارہ کرتے ہیں اورقوم وملک کے تباہی کے مناظرسے لطف اندوزہوتے ہیں۔
Flood Victims
یہی لوگ ان حالات کا بھی ایک تماشابناتے ہیں ۔متاثرین کی بحالی کے لئے زمین اورآسمان کے قلابے ملاتے ہیںلیکن کسی نے آج تک کوئی ایساعملی اقدام نہیں کیا ، جس سے مستقل طورپر پاکستان کے بے بس عوام کو قدرتی آفات سے محفوظ ہونے میں مددملے۔پاکستان میں مختلف ادارے موسمیات سے متعلق اورقدرتی آفات سے بچانے کے لئے کام کرتے ہیں لیکن وہ صرف نام کی حدتک موجودہیںاورایسے حالات میں عوام کو کسی قسم کی ریلیف دینے میں یکسرناکام رہتے ہیں۔جبکہ دوسری طرف پاکستان کے وہ عوام جو ان حالات سے محفوظ رہتے ہیں، وہ میڈیاکے ذریعے اپنے ملک کی تباہی کاحال تودیکھتے ہیں لیکن بے حسی کی انتہاہے کہ وہ اپنے ملک کے لوگوں کے دکھ دردمیںکسی طورپر بھی کرداراداکرنے کے لئے تیارنہیں ہیں۔
جبکہ متاثرین کے لئے جوامدادبیرونی ممالک سے آتی ہے، وہ ان تک پہنچ ہی نہیں پاتی ،کیونکہ اس کام کی نگرانی کرنیوالے مختلف سطحوں کرپٹ اہلکارہوتے ہیں اورانکی سرپرستی سیاسی شخصیات کرتے ہیں۔آج تک یہ پتہ نہیں چلاکہ سیلاب کی وجہ سے اتنی بڑی تباہی کے ذمہ دارکون ہیں۔پاکستان میں ہرسال اتنے زیادہ سیلاب کیوں آتے ہیں ، اگرآتے ہیں توسیلابی پانی کوذخیرہ کرکے کسی دوسرے مقصدکے لئے کیوں نہ استعمال کیاجائے۔حکومت عوام کی زرعی اراضی کو محفوظ بنانے کے لئے حفاظتی پشتے کیوں تعمیرنہیں کرتے۔میڈیاصرف حالات سے آگاہی کاکرداراداکرتے ہیں۔
حکومت کے لئے اورکتنے مسائل ہیں ، جن سے اسے فرصت نہیں ہے۔صدراوروزیراعظم کے بیانات بھی متاثرین کے زخموں کے لئے مرہم سے کم نہیںمگرذمہ داری قبول کرنے کیلئے کوئی تیارنہیں۔ ہرکوئی خود کو بری الذمہ قراردیکر دوسروں پر ذمہ داری ڈال دیتے ہیں۔اس ضمن میں متعلقہ محکمہ بھی غفلت کامظاہرہ کررہاہے۔آخرکب تک پاکستان کے معصوم عوام کایہی حال ہوگا۔کبھی غیرمتوقع بارشوں سے پورے ملک میں تباہی مچے گی اورکبھی ہندوستان والے دریاووں میں اتناپانی چھوڑدیتے ہیں کہ پوراپنجاب زیرآب آتاہے۔
Flood in Chitral
کبھی دریاکابل میں حد سے زیادہ سیلاب آتاہے توکبھی چترال کے چھوٹے چھوٹے ندیاں دریاووں میں تبدیل ہوکر تباہی مچادیتے ہیں۔سندھ اورپنجاب کے زیریں علاقے ہرسال زیرآب آتے ہیں اورکھڑی فصلیں ، سبزیاں اورپھل کے باغات تباہ ہوجاتے ہیں۔نتیجتاً پھل اورسبزیوں کی قلت کی وجہ سے انکی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں۔ایسے حالات میں حکومت وقت کی بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں کہ وہ متاثرہ لوگوں کے دکھ دردمیں عملی طورپر شریک ہو۔انکے نقصانات کاجلد ازجلد ازالہ کیاجائے۔ جن علاقوں میں سیلاب سے زرعی اراضی متاثرہونے کااندیشہ ہو، وہاں قبل ازوقت حفاظتی انتظامات کئے جائیں۔
سیلاب کے پانی کوذخیرہ کرنے کے لئے چھوٹے چھوٹے ڈیم بناکر اس پانی کو کسی دوسرے مقصدکے لئے استعمال میں لایاجائے۔اس مقصدکے لئے جومحکمے کام کرتے ہیں ، وہ بھی صحیح معنوں میں اپنی ذمہ داریاں پوری کریں اورایسے حالات میں نہ صرف خود چوکس رہے بلکہ ممکنہ خطرات سے متاثرہ علاقوں کے لوگوں کو بھی آگاہ رکھیں۔
انہیں ضروری تربیت بھی دے تاکہ وہ ممکنہ خطرات سے بچنے کے لئے ذہنی طورپر تیارہو۔اس ضمن میں میڈیا کابھی ایک اہم کردارہے کہ وہ سیلاب اوردوسری قدرتی آفات کی صرف سنسنی خیز مناظردکھانے پراکتفانہ کرے بلکہ عوام کے اندرایک شعوری مہم چلائے کہ پاکستان کے عوام ایسے حالات میں ایکدوسرے کی مدد کے لئے عملی اقدامات کرے۔