تحریر : شیخ خالد زاہد پروفیسر اصغر سودائی صاحب کے نام سے شائد بہت کم لوگ ہی واقف ہوں، آپ تحریک پاکستان کے اہم ترین لوگوں میں سے ایک تھے۔ آپ ۶۲ ستمبر۶۲۹۱ کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے، آپ شاعر ی کیساتھ استاد جیسے معتبر پیشے سے وابستہ رہے اور بطور ماہر تعلیم بھی اخدمات سرانجام دیں۔ آپ نے پاکستان میں تعلیم کے فروغ کیلئے گراں قدر خدمات پیش کیں اور ڈائریکٹر کالج پنجاب کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ ۸۱ مئی ۸۰۰۲ میں سیالکوٹ میں ہی دار فانی سے کوچ کیا۔ پروفیسر صاحب کا تحریک پاکستان میں حصے کے متعلق قائد اعظم محمد علی جناح نے کہا تھا کہ ۵۲ فیصد تحریک پروفیسر اصغر سودائی صاحب ہیں۔ آخر سودائی صاحب نے ایسا کیا کیا تھا کہ قائد اعظم نے پوری تحریک کا جوتھائی حصہ آپ سے وابسطہ کردیا جبکہ کبھی کسی اور کیلئے تو ایسا نہیں کہا اس کی ایک انتہائی اہم وجہ پاکستان کے ہر بچے کی زبان سے ادا ہونے والا وہ تاریخی نعرہ جو کسی سیاسی یا مذہبی جماعت کیلئے وقف نہیں بلکہ حصول پاکستان کا نعرہ پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اللہ سنتے آئے ہیں اس نعرے کے موجد جناب پروفیسر اصغر سودائی صاحب ہیں، آپ نے یہ نعرہ تحریک کو ۴۴۹۱ میں یہ نعرہ ہی نہیں دیا بلکہ درحقیقت تحریک میں روح پھونک دی، جیسے کسی اندھیرے میں بھٹکتے ہوئے کو روشنی کا اشارہ مل جائے۔ اس بات کی گواہی آج ۱۷ سال گزرنے کے بعد بھی پاکستانیوں کی روح کو گرمانے میں یہ نعرہ اپنی پہلے دن سی افادیت اور اہمیت رکھے ہوئے ہے۔ ایسے بہت سے تحریک کے سپاہی ہیں جن کے کارنامے ہمارے آنکھوں سے آج تک اوجھل ہیں۔
تحریک پاکستان میں شامل ہر فرد کا ایک ہی تکازہ تھا اور وہ تھا ایک الگ خطہ زمین جسے بعد میں پاکستان کے نام سے پکارا جانے لگا۔ پاکستان کا حصول کیلئے، یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ ان لاکھوں افراد میں اکثریت یا تمام کے تمام ہی مسلمان رہے ہونگے کیونکہ حقیقی مصیبت میں مسلمان ہی مبتلاء تھے، دوقومی نظریہ مسلمانوں نے ہی اخذ کیا تھا۔ جب تحریک سو فیصد مسلمانوں نے ہی چلائی تھی اور اس تحریک کے مرہون منت قدرت نے پاکستان کی صورت میں قائد اعظم محمد علی جناح کی انتھک محنت کے طفیل اورانگنت قربانیوں کی بدولت پاکستان حاصل کر لیا اور دنیا کو حیرت میں مبتلا کردیا۔ پاکستان بننے کے بعد یہ کون لوگ تھے جنہوں نے پہلے تعصب کی داغ بیل ڈالی، علاقائی منافرت کی بنیادیں رکھیں اور پھر مذہبی انتشار کا بیج بویا۔ کچھ باتیں ایسی بھی تھیں جن پر اس وقت دھیان دینا وقت کے ضائع کرنے کے مترادف قرار پایا ہوگا جس میں سے ایک یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تقسیم در تقسیم سے کس طرح سے بچا جائے۔ کام بہت تھا اور لوگ بہت کم تھے، مسائل بہت تھے اور وسائل نا ہونے کے برابر۔اوپر سے دشمن اپنی ہر چال میں کامیاب ہوتا گیا مگر کوئی دائمی نتیجہ اخذ کرنے سے قاصر رہا (سوائے سقوطِ ڈھاکہ)۔ ملک خداداد پاکستان دہشت گردی کی ذد میں آیا اور لہولہان ہو کر رہ گیامگر کوئی طاقت ہم پاکستانیوں کو پاکستان سے محبت میں کمی پیدا نہیں کرسکات۔ لیکن ایک طاقت ہے جو ہمیں بکھرنے نہیں دے رہی۔ اگر حالات و واقعات اور ملک میں رہنے والے دشمنوں کا تجزیہ کریں تو کیسے کیسے حالات پیدا کئے گئے مگر پاکستانی پاکستان پر آنچ نا آنے دینے کیلئے اپنی جانوں کے نظرانے پیش کرنے سے دریغ نہیں کر رہے۔
دشمن نے ناصرف پاکستان کی سرزمین کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا بلکہ دشمن کے ناپاک عزائم پاکستان بنانے والے تحریک پاکستان کے رہنماؤں پر بھی طرح طرح کے الزامات لگاتے آئے ہیں خصوصی طور پر انکے عقائد کو لیکر آج تک موضوع بحث بنانے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔ جن میں سرفہرست قائد اعظم محمد علی جناح ہیں جن سے مختلف قسم کی باتیں یا نظریات وابسطہ کئے جاتے ہیں جن میں سب سے پہلے کہ وہ ایک لیبرل انسان تھے اور انہوں نے کبھی نہیں چاہ کے پاکستان ایک اسلامی فلاحی ریاست بنے یاپھر مفکر پاکستان ڈاکٹر علامہ اقبال پر تہمات کی بوچھاڑ چلتی رہتی ہے۔ اس طرح کی بہت ساری باتیں سماجی میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہیں اور اب تو سماجی میڈیا کی مرہون منت ایسے لوگ کھل کر اپنے نظریات کو وضاحتوں کے ساتھ منظر عام پر پیش کر رہے ہیں۔ جس کا سب سے زیادہ نقصان نئی نسل کو ہورہا ہے جو شائد ایسے مزاج سے ہم آہنگ ہونے میں ترقی یافتہ کہلوانا پسند کر رہے ہیں مگر بلکل یا حتمی طور پر بھی ایسا نہیں ہے کیونکہ اس نئی نسل کا ایک حصہ پاکستان اور پاکستانی نظریات کی بھرپور حفاظت کے ساتھ ساتھ ترجمانی کے بھی فرائض سرانجام دے رہے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جو پاکستان کی آساس پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اللہ کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔
گزشتہ دنوں جمہوریت کے نام لیواؤں اور علم برداروں نے ایک انتہائی ناپاک کام کرنے کی کوشش کی، میں یہ قطعی نہیں لکھونگا کا کہ یہ غیر دانستہ طور پر ہوا یا پھر کسی کلرک کی غلطی کا نتیجہ تھا کیونکہ ساری دینا جانتی ہے کہ پاکستانی وہ ہیں جو ہر دکھ تکلیف برداشت کرلیتے ہیں، دھماکے گولیاں برداشت کرلیتے ہیں، نواجوان لاشے اٹھالیتے ہیں مگر اپنے پیارے نبی ﷺ کی شان میں زرہ برابر بھی گستاخی برداشت نہیں کرتے۔ ختم نبوت کے آئین میں ترمیم ایک سوچی سمجھی سازش تھی۔ جسکی دو وجوہات تو بہت واضح ہے کہ ہم پاکستانیوں کا مزاج ہے کہ ہم بھول بہت جلدی جاتے ہیں تو بدعنوان وزیر اعظم کیساتھ جو کچھ چل رہا ہے اس پر سے دھیان ہٹانے کیلئے ایسا بھیانک کام کیا گیا کہ سب کا دھیان ہٹایا جائے دوسرا یہ کہ کیا واقعی پاکستان میں اعلی عہدوں پر فائز لوگ قادیانی یا پھر ایسے ہی کسی کفریہ فرقے سے تعلق رکھنے والے ہیں جنہوں نے اس ترمیم کے بدلے بدعنوانوں کو بچانے کی پیشکش کر رکھی ہو۔تحریک لبیک یا رسول ﷺ نے پاکستان کی آساس کو بچایا ہی نہیں بلکہ دوبارہ سے زندہ کیا ہے، اس بات سے قطہ نظر کہ یہ سب کس کے ایماء پر ہوا۔ آج تنقیید اس بات پر تو کی جارہی ہے کہ مولویوں نے یہ کیا اور وہ کیا اور اسلام اس بات درس دیتا اور اس بات کا نہیں دیتا تو میری ان تمام مسلمانوں سے گزارش ہے کہ ذرا ان پر تنقید ی نظر ڈالئے جو اس کالے قانون کے پاس کرنے والے ہیں اور اس میں وہ تمام پارلیمان شامل ہیں جنہوں نے اس بل پر دستخظ کئے ہیں۔ یہ طے ہے کہ دنیا میں نا صحیح مگر اللہ کے یہاں اس کی پکڑ سے نہیں بچ سکینگے۔ اللہ نے اپنے دین کی حفاظت کا ذمہ خود ہی لے رکھا ہے اور اس سے بڑاتو کوئی ہوہی نہیں سکتا۔ اس ناپاک ترمیم کے کرنے والوں کو کیفر کردار پہنچانے کیلئے ایک ایک تحریک جس کا نام، تحریک لبیک یا رسول ﷺ کے نام سے شروع کی گئی اور تقریباً بائیس دن اس تحریک میں شامل لوگوں نے ناصرف اسلام آباد اور راولپنڈی میں دھرنا دیا بلکہ ملک کے دوسرے شہروں بلخصوص کراچی اور لاہور میں بھی دھرنوں کا اہتمام کیا گیا۔ گزشتہ روز عدالت اور فوج کے زور دینے پر حکومت نے مذاکرات کئے اور ایک لکھے گئے معاہدے کے تحت یہ دھرنا بظاہر اپنے منطقی انجام کو پہنچا۔ اس دھرنے پر مختلف مکتبہ فکرسے تعلق رکھنے والوں نے تنقید جاری رکھی مگر کوئی بھی کھل کر مخالفت نہیں کرسکتا تھا کیونکہ معاملہ بہت ہی حساس نوعیت کا جو تھا۔ اس ترمیم کے کرنے والوں کو عوام کے سامنے پیش کرنا چاہئے اور جو عزائم پوشیدہ تھے ان پر سے بھی پردہ اٹھانا چاہئے اور تنقید کرنے والوں سے درخواست ہے اپنے اداروں کا احترام مقدم رکھیں۔
ایک رمضان المبارک میں خود بخود ہی ہر طرف رونق کا سا سما ء بندھا رہتا ہے جیسے ماحول پر نور کی چادر تنی رہتی ہو اور دوسرے ربیع الاول کے ماہ مبارک بھی اپنے ساتھ خوب رونقیں لے کر آتا ہے۔ حالات و واقعات اور موقع کی مناسبت اس بات کا تقاضہ کررہا ہے کہ اب سے اگلے ربیع الاول تک کیلئے اور پھر اس سے اگلے ربیع الاول تک اور پھر جب تک ہماری زندگیوں میں ربیع الاول آتا رہے تب تک کیلئے ہم نجی سطح پر ایک تحریک کی داغ بیل ڈال لیتے ہیں اور اس کا نام تحریک اتباع ِ رسول ﷺ رکھ لیتے ہیں اور اپنی زندگیاں اپنے پیارے نبی ﷺ کے اخلاقیات کو اپنانے کی کوشش کرتے ہوئے سنتوں کے مطابق اپنی زندگیوں کی ترتیب دینا شروع کردیتے ہیں تاکہ آنے والی نسلیں کسی بھی شک و شبے سے آزاد ایک مسلم معاشرے کا حصہ بن کر اپنی اپنی زندگیاں گزاریں اور امت کیلئے پریشان رہنے والے اور آسانیاں در آسانیاں تقسیم کرنے والے نبی ﷺ سے سچی محبت سے اپنے دلوں کو روشن کرسکیں، اللہ نے اپنے نبی ﷺ کی محبت کا ذکر قران میں اس طرح کیا ہے کہ اطیعواللہ و اطیعور رسول ۔ عہد حاضر میں کسی مسلم مملکت نہیں بلکہ پوری امت کو تحریک اتباع ِ رسول ﷺ کی بھرپور ضرورت ہے۔