ایک طرف عوام بے روزگاری اور غربت سے پریشان ہے تو دوسری طرف حکومت عوام کے خون پسینے سے جمع کیا ہوا ٹیکسوں کا پیسہ اپنی مشہوری میں اڑا رہی ہے ابھی کچھ دن قبل پیٹرول کی قیمتیں عالمی منڈی میں اچھی خاصی کم ہوئی تو بے پناہ عوامی شور کے بعد حکمرانوں نے پیٹرول کی قیمت کم کر دی اور پھر دوسرے دن ہی لاکھوں روپے کے بڑے بڑے اشتہارات دے دیے گئے جس میں یہ بتایا گیا کہ موجودہ حکومت کی وجہ سے پیٹرول کی قیمتیں کم ہوئی ہیں حالانکہ اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلز کے زریعے ہر شخص کو معلوم ہوچکا ہے کہ عالمی منڈی میں جتنی قیمت پیٹرول کی کم ہوئی ہے
حکومت نے اتنی نہیں کی بلکہ اس سے آدھی قیمت کم کی ہے اور اس کمی کو حکومت نے اپنی خامی چھپانے کے لیے اشتہار بازی کی مہم شروع کردی اس سے ثابت ہوتا ہے کے پچھلے تقریبا پونے دو سال کے عرصہ میں حکومت کے کھاتہ میں کوئی کامیابی نہیں آئی صرف راہ چلتے چلتے یہی ایک بٹیرہ پائوں تلے آگیا جسے حکومت کے اندھوں نے چومنا شروع کر دیا ہے موجودہ حکومت جب سے بنی ہے اس وقت سے اگر حساب لگایا جائے تو اربوں روپے بنتے ہیں جو حکومت نے ناجائز استعمال کرتے ہوئے کھوہ کھاتے میں ڈال دیے اگر انہی پیسوں سے حکومت تعلیمی اداروں کی طرف توجہ دیتی تو پاکستان اپنے روشن مستقبل کی طرف گامزن ہو سکتا تھا مگر حکومت نے قسم کھائی ہوئی ہے کہ وہ عوامی فلاحی منصوبوں پر کام کرنے کی بجائے ایسے کاموں میں پیسے خرچ کریگی جہاں پر بیٹھے ہوئے انکے کمیشن خور ایجنٹ اپنے پیٹ کو دوزخ کی آگ سے بھر سکیں پاکستان میں ایک بار جو وزارت اطلاعات کی کرسی پر بیٹھ جائے تو پھر اسے دولت کمانے کی ہوس تقریبا ختم ہوجاتی ہے
باقی زندگی یا تو اللہ اللہ کرتے ہوئے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہوئے گذار دیتا ہے یا پھر گوشہ گمنامی میں جا کر آرام آرام اور مزے لیکر اس جمع کی ہوئی دولت کو کترتا رہتا ہے یہ حال صرف ایک وزارت کا ہی نہی ہے بلکہ پاکستان کے ہر محکمے کو جونکیں چمٹی ہوئی ہیں جو پاکستانیوں کے خون پسینے سے جمع کی ہوئی رقم کو ہڑپ کرنے میں مصروف ہیں انہی لوٹ مار کرنے والوں کی وجہ سے آج پاکستان کے بچے اور بچیاں انتہائی مہنگی تعلیم حاصل کرنے کے یے داخلوں کے لیے بھی سفارش ڈھونڈ رہے ہیں ایک طرف حکومت ملک میں تعلیم عام کرنے کا ٹوپی ڈرامہ رچا رہی ہے تو دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ حکومت نے تعلیم کو کاروباری افراد کے ہاتھوں فروخت کر رکھا ہے
جو غریب عوام کو دنوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں ہم بچپن سے ہی اپنے بچوں کو ڈاکٹر، انجینئر اور فوجی بنانا شروع کر دیتے ہیں یہی بچے وقت کے ساتھ ساتھ جب جوان ہوتے ہیں تو انہیں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے لیے سرکاری تعلیمی اداروں میں داخلہ ہی نہیں ملتا اور رہی سہی کسر ہمارے پرائیویٹ تعلیمی اداروں نے پوری کر رکھی ہے جو غریب ملک کے غریب شہریوں کی امیدوں پر پانی پھیر کر امیروں سے جھاڑوں کے زریعے دولت اکٹھی کر رہے ہیں انہیں ہی میڈیکل اور انجینئرنگ کے شعبہ میں داخلہ ملتا ہے جنہوں نے لوٹ مار کرکے اچھی خاصی دولت اکھٹی کررکھی ہو اور وہ بھاری فیسوں کے زریعے ان پرائیوٹ تعلیمی اداروں کے مالکان کا پیٹ بھر سکیں کیونکہ جس ملک کی حکومت اور اسکے حواری لوٹ مار میں مصروف ہوں تو پھر نیچے والے اپنے کھانے پینے کے راستے خود ہی ڈھونڈ لیا کرتے ہیں اسی لیے تو یہاں بڑی نوکریاں بڑے لوگوں کے حصے میں آتی ہیں اور چھوٹی نوکریاں اسے ملتی ہیں
Justice
جو بڑے لوگوں کی غلامی کرسکیں اور غلامی کا طوق ہر انسان برداشت نہیں کرستا مجبوری میں تو کچھ وقت کے گلے میں پہنا جاسکتا ہے مگر مستقل نہیں اور اسی طوق سے جب آزادی حاصل کرنے کے لیے غلام حرکت کرتے ہیں تو امن تہس نہس ہوجاتا ہے کیونکہ جہاں انصاف صرف کتابوں میں پڑھنے کے لیے اور قانون حکمرانوں کی حفاظت کے لیے ہو تو وہاں کبھی بھی امن نہیں ہوسکتا کیونکہ جس کے ساتھ ناانصافی ہوگی اس نے اپنا بدلہ تو پھر کسی نہ کسی سے لینا ہے ہی ہے یہی بدلے کا غصہ انسان کو اندر ہی اندر سے ہر وہ کام کرنے کے لیے اکساتا رہتا ہے جسکے بعد اسکی اور بہت سارے لوگوں کی زندگی جہنم بن جاتی ہے اسی لیے تو آج کے اس ترقی یافتہ دور میں ہر محب وطن پاکستانی کو ڈر اور خوف لگا رہتا ہے
ہمارے ملا اور مولوی بھی اب بغیر گن مین کے باہر نہیں نکلتے، ہمارے محافظ پولیس والے بھی اکیلے باہر نہیں نکلتے، ہمارے ووٹوں سے ہمارا مستقبل سنوارنے والے سیاستدان بھی اکیلے باہر نہیں نکلتے، ہر وہ ایماندار شخص جس نے ٹیکس چوری سے لیکر پیسہ اکٹھا کرنے کے لیے ہر وہ غیر قانونی کام کیا ہو جو ایک سلجھے ہوئے معاشرہ میں بہت بڑی برائی سمجھا جاتا ہو وہ بھی کبھی اکیلا باہر نہیں نکلے گا ہر وہ سیکیورٹی کے حصار میں رکھنے والا معزز اور شریف شہری پاکستان اور پاکستانیوں کو اس نہج پر لانے میں برابر کا حصہ دار ہے جتنا ہمارا دشمن ملک ابھی کل ہی تو واہگہ بارڈر پر قیامت صغری کا عالم تھا کیسے بچے، جوان، بوڑھے اور عورتیں خا ک وخون میں لت پت تھے
یہ وہ معصوم اور بے گناہ شہری تھے جنہوں نے اپنے خون پسینے کی کمائی ملک کی بہتری کے لیے ٹیکسوں کی صورت میں جمع کروائی تاکہ انکے پیسوں سے حکمران اپنی سیکیورٹی کا بندوبست کرلیں اور اپنی نام نہاد کا میابیوں کو اشتہاروں کے زریعے تشہیر کر سکیں پاکستان کے ساتھ جو ابھی تک اپنی وفائیں نبھا رہا ہے وہ مڈل کلاس طبقہ ہے اگر حکمرانوں نے اس سفید پوش کو مارنے کا بندوبست کر لیا ہے تو پھر کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا نہ سیکیورٹی کے حصار میں کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیے بیٹھا حکمران اور نہ ہی ٹیکس چور ڈاکو بچے گا کیونکہ خون بھی اپنا حساب مانگتا ہے اور خون کسی کا بھی ہو رائیگان نہیں جاتا۔