پاکستان اِس وقت ایک عجیب اور ہیجانی کیفیت کا شکار ہے،ایک طرف نومولود جمہوریت ہے تو دوسری طرف انقلاب اور آزادی کے نام پر پاکستانی قوم کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو کہ ناکام نظر آ رہی ہے بلکہ ناکام ہو چکی ہے۔مطالبات جائز ہیں یا نا جائز ،اس بات پر بہت بحث ہو چکی ہے مگر کچھ سوالات ایسے ہیں جو اب بھی جواب طلب ہیں اور کچھ حقائق ایسے ہیں جِن پر سے ابھی تک پردہ نہیں اٹھایا جا سکالیکن اُن حقائق تک رسائی بہت ضروری ہے تا کہ عوام سکرین پر چلنے والے تمام مناظِر کے درِپردہ کرداروںاور اصل کہانی تک پہنچنے میں کامیاب ہو جائیںاور پھر کوئی اچھا اور بہتر فیصلہ کر سکیں۔عوامی حلقے اب اس سوال کے جواب کی تلاش میں ہیں کہ کیا دھرنوں کا سکرپٹ پہلے سے لکھا جا چکا تھا اور سب طے شدہ تھا یا روزانہ کے حالات کے مطابق حکمتِ عملی اختیار کی جاتی ہے۔چند حقائق پر نظر ڈالتے ہیں جو اِس معاملے کو بے آبرو کرنے میں مددگار ثابت ہونگے۔
خان صاحب اور قادری صاحب دھرنوں سے قبل لندن میں ملاقاتیں کر چکے تھے اب یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی اور اس ملاقات میں دو اینکرز بھی موجود تھے جنمیں سے ایک انتہائی کھرے قسم کے بدعنوان اور پلانٹڈ انٹرویوز کے ماہر بھی شامل ہیں۔پھر اس کے بعد بھی دونوں دھرنا رہنماؤں میں رابطہ رہا اور حکومت گرانے کی حکمت عملی تیار کیجاتی رہی۔دونوں کے مطالبات بھی باہمی مشاورت سے طے کئے گئے ۔ حکومت گرانے کی کوششوں میں چودھری برادران اور شیخ رشید بھی انکے معاون تھے اور لندن میں کی گئی ملاقاتوں میں شریک ہوتے رہے۔
بات یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کرالطاف بھائی نے بھی مکمل تعاون کا یقین دلا یا۔ن لیگ کے حکومت میں آنے کی وجہ سے عمران خان ،علامہ طاہرالقادری اورالطاف حسین پر مشتمل پاکستانی سیاست میں ایک نئی ”برمودا تکون” وجود میں آئی ۔ مجلسِ وحدالمسلمین جو کہ ایم۔کیو۔ایم کی ذیلی مذہبی جماعت ہے کا اتحاد اس بات کا واضح ثبوت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ الطاف بھائی ماڈل ٹاؤن میں کھانا ،ادویات اور دیگر ضروریات زندگی بہم پہنچاتے رہے اور تا حال اسلام آباد میں مکمل سہولیات فرا ہم کی جا رہی ہیں۔الطاف بھائی اور عشرت العباد کی مداخلت اور گارنٹر بننے کی وجہ سے ہی قادری صاحب کو اسلام آباد آنے کی اجازت دی گئی۔پھر ریڈ زون میں داخلہ بھی ممکن بنایا گیا۔قادری صاحب کو اسلام آباد لانا بہت ضروری تھا کیونکہ سب جانتے تھے۔
PM House
خان صاحب کے نوجوانوں کے جسم سریلی دھنوں پر تھرک تو سکتے ہیں لیکن حالات کا مقابلہ نہیں کر سکتے اور الطاف بھائی اور دیگر قوتیں اپنی اس انتہاء کی محنت کو کبھی بھی ضائع ہوتا نہیں دیکھنا چاہتی تھیں۔پھر سٹیج آمد پر عشرت العباد کو قادری نے بھائی قرار دیا اور انہوں نے وکٹری کا نشان بھی بنایا،پھر پہلی مذاکراتی ٹیم بھی حیدر عباس رضوی صاحب ہی کی بدولت آئی۔اگر ہم دھرنے سے پہلے کی صورتحال کا جائزہ لیں تو الطاف بھائی اور ایم۔کیو۔ایم جمہوریت کے نغمے گاتے اور جمہوریت کی بقاء کے لیے حکومت کا ساتھ دینے کے بیانات دیتے نظر آتے ہیں لیکن پھر عوام نے انکا حقیقی چہرہ بھی دیکھا کہ جب مظاہرین وزیراعظم ہاؤس کی جانب بڑھے اور حکومت کی جانب سے ایکشن لیا گیا۔
تو الطاف بھائی نے فوراً کہا کہ اگر کریک ڈاؤن نہ روکا گیا تو ایم۔کیو۔ایم عملی طور پر مداخلت کرے گی،پھر حکومت کے خلاف تمام محاذ کھول دئیے گئے۔ایم۔کیو۔ایم شاید اسی وقت کا انتظار کر رہی تھی ۔پھر وہ وقت بھی آیاکہ ایم کیو ایم نے بھی تحریکِ انصاف کے بعد اسمبلیوں سے استعفوں کا اعلان کر دیا جو کہ اب موخر کر دیا گیا۔یاد رکھیں کہ الطاف بھائی کی بدولت ہی یہ نعرہ ”عمران قادری بھائی بھائی”سننے میں آیا۔الطاف حسین کا حکومت مخالف ہونیکی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ الطاف بھائی ابھی میاں صاحب کے پچھلے دور میں کئے گئے آپریشن کے زخموں کو بھی بھلا نہیں پائے تھے کہ ایک دفعہ پھر میاں صاحب نے کراچی میں دہشتگردوں کے خلاف آپریشن شروع کر دیا اور یہ بات آرام سے ہضم نہیں کی جا سکی۔
خان صاحب کے بہاولپور جلسے سے قبل ہی تمام معاملات طے کئے جا چکے تھے جسکی وجہ سے وہ مکمل طور پر قابلِ اعتماد تھے اور اسی وجہ سے انہوں نے 10لاکھ افراد اور ایک لاکھ موٹر سائیکلز لانے کا بھی مذاق کیا تھا اور جس تھرڈ امپائر کی بات کی جاتی ہے وہ راحیل شریف تو کبھی بھی نہ تھے لیکن پاکستان کے خفیہ ادارے کے سربراہ کا تعا ون ضرور نظر آتا ہے ،جہاں ایک طرف انکو موجودہ حکومت سے جیو کے معاملات میں شکوہ ہے وہیں دوسری طرف انکی مدتِ ملازمت میں توسیع نہ کرنا بھی انکے قہر کی وجہ بنا۔انکا مکمل تعاون نہ ہونیکی وجہ سے ہی حکومت اس معاملے میںبے بس نظر آتی ہے،اور شاید انہوں نے ہی خان،قادری،شیخ،چودھری اور الطاف بھائی کو یقین دلایا تھا کہ انگلی اٹھے گی لیکن جس انگلی نے اٹھنا ہی نہیں تھا وہ نہیں اُٹھی اور کبھی اٹھے گی بھی نہیں۔
پھرموجودہ حکومت نے انتہائی صبر سے کام لیتے ہوئے اس معاملے کو انتہائی عمدہ طریقے سے اسکے منطقی انجام تک پہنچا یا اور انتشار پھیلائے بغیر انکو انکے اپنے رحم وکرم پر چھوڑ کر جہاں ایک طرف کسی تیسری قوت کی مداخلت کو روکا وہیں دوسری طرف دونوں تحریکیں اپنی موت آپ مرنے کے قریب ہیں۔تحریکِ انصاف سے جاوید ہاشمی کا چلے جانا بلکہ عمران خان کا انہیں بے دردی سے نکال دینا اور پھر ہاشمی صاحب کے انکشافات مندرجہ بالا حقائق کو تقویت دیتے ہیں۔خان صاحب جو خود کو وکٹیں گرانے کا ماہر سمجھتے ہیں ہاشمی صاحب کا ایک اوور بھی برداشت نہ کر سکے اور بظاہر خان صاحب کی سیاست کا جنازہ نکل چکا ہے۔
سکرپٹ میں موجودہ حکومت کا گرایا جانا شامل تھا اسی وجہ سے تو تمام مذاکرات ناکام ہو گئے،مطالبہ صرف ایک ہی تھا موجودہ حکومت کا خاتمہ باقی تو صرف ڈرامہ تھا یہی وجہ ہے کہ 5 مطالبات پورا ہونیکی باوجود مذاکرات ناکام رہے کیونکہ خان صاحب سکرپٹ سے آگے پیچھے نہیں ہونا چاہتے اور یہی وجہ ہے کہ جو کوئی اس رستے میں آنیکی کوشش کرتا ہے چاہے وہ پارٹی کاصدر ہی کیوں نہ ہو اسے رستے سے ہٹا دیا جاتا ہے۔
افسوس کے ساتھ مگر حقیقت یہی ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن بھی سکرپٹ کا حصہ تھا اور کارکنوں کے خون کے ذریعے اس تحریک کو جلا بخشی گئی لیکن وہ خان اور قادری صاحب کی بیوقوفیوں اور غلط فیصلوں کی نظر ہو گئی۔افرادی قوت کے کم ہونے،تحریکِ انصاف میں اختلافات ،حکومت اور آرمی کے اچھے تعلقات اور تمام جمہوری قوتوں کے متحد ہونیکی بدولت سکرپٹ بری طرح متا ثر ہوا۔”برمودا تکون” کا ڈرامہ بری طرح متاثر ہوا اور یہ تکون مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی۔
پنجاب میں مسلم لیگ ن کا زور توڑنا کوئی آسان کام نہیںاور صرف ن کی اجارہ داری ختم کرنے کے لئے سانحہ ماڈل ٹاؤن جیسی گھناؤنی سازش کی گئی۔الطاف حسین یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر ن لیگ کا گڑھ نہیں توڑا جاتا تو ایم کیو ایم کبھی بھی کراچی اور حیدرآباد سے باہر نہیں نکل پائیگی اور اب اس بات سے خان صاحب بھی اچھی طرح واقف ہو چکے ہیں۔در حقیقت یہ ایک سیاسی جوا تھا ،اگر خان ، قادری اور الطاف کامیاب ہو جاتے یعنی حکومت گھر کو لوٹ جاتی تو الطاف بھائی پاکستان واپس لوٹ آتے اور پاکستان پر قادری،خان اور الطاف کا سکہ چلتا۔مگر افسوس کہ یہ سیاسی تکون جوا ہار گئی اور جیسا کہ ہارنے والے کے ہاتھ کچھ نہیں رہتا ،خان صاحب کے پاس بھی کچھ نہیں رہا اور تحریک انصاف فیصلہ عوام کا ہے،کیا موجودہ سسٹم اور حکومت یا سب کے بھائی الطاف بھائی کا سکہ ؟؟؟
Saleem Tufani
تحریر : محمد سلیم طوفانی Contact : 0323-5700932 , sleemtufani@gmail.com