تحریر : قادر خان یوسف زئی لودھراں ضمنی انتخاب میں پاکستان مسلم لیگ ن کی کامیابی سے تحریک انصاف کو غیر متوقع جھٹکا لگا ہے۔ این اے 154 کے ضمنی انتخاب میں واضح طور پر دو جماعتوں کے درمیان کانٹے دار مقابلہ تھا۔ جہانگیر ترین کی نا اہلی کے بعد تحریک انصاف کیلئے اس نشست کو جیتنا عام انتخابات کے لئے اہم و ضروری تھا۔ دیگر سیاسی جماعتوں جن میں پاکستان پیپلز پارٹی جمعیت علما ء اسلام ف، پاکستان عوامی تحریک، عوامی نیشنل پارٹی سمیت آزاد امیدواروں کی بڑی تعداد بھی انتخابی دوڑ میں شامل تھی۔لیکن لودھراں میں ہونے والے ضمنی انتخاب کیلئے تحریک انصاف نے بھرپور تیاری کی تھی اور عمران خان سمیت تحریک انصاف کے صف اوّل کے رہنماؤں نے ضمنی انتخاب کے سیاسی ماحول کو گرما دیا تھا۔ عمران خان کو الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی میں نوٹس کا بھی سامنا ہے۔ ان کا حالیہ بیان بڑی اہمیت کا حامل ہے جس میں انہوں نے اپنے ایک ٹویٹ پیغام میں کہا کہ146ناکامی،غلطی کا تجزیہ کرکے اُسے ٹھیک کرنے اور مزید مضبوط بننے کا موقع فراہم کرتی ہے۔، کامیاب ادارے، ملک اور افراد اپنی ناکامیوں ہی سے سبق سیکھتے ہیں145۔عمران خان کے واضح پیغام کے بعد تاحال قیاس آرائی نہیں ہوئی کہ حلقے میں کوئی دھاندلی ہوئی ہے۔ لیکن عمران خان بہتر جانتے ہونگے کہ وہ کون سی غلطی تھی جس کا خمیازہ انہیں لودھراں میں غیر متوقع شکست کی صورت میں بھگتناپڑا۔اس حوالے سے کسی قسم کی خیال آرائی مناسب بھی نہیں ہے کیونکہ تحریک انصاف جان چکی ہے کہ عوامی جلسوں اور انتخابی میدان میں بڑا واضح فرق ہوتا ہے۔
اگر بڑے بڑے جلسوں سے عوامی مینڈیٹ کا تعین کیا جاتا تو مولانا فضل الرحمن کے بڑے بڑے جلسے انہیں پاکستان کا وزیر اعظم بنا چکے ہوتے اورسندھ کا وزیر اعلیٰ ایم کیو ایم کا ہوتا۔ تاہم یہاں اہم نکتے کا ذکر کرنا ضروری ہے۔ سب سے پہلے عمران خان نے ماضی میں کئے جانے والے اپنے دعوؤں کی نفی کرتے ہوئے مورثی سیاست کو ختم کرنے کے بجائے جہانگیر ترین کی نا اہلی کے بعد اسی نشست پر ان کے بیٹے علی ترین کو نا مزد کردیاتھا جبکہ عمران خان اپنی متعدد جلسوں میں یہ دعویٰ کرتے نظر آئے تھے کہ وہ مورثی سیاست کو ختم کردیں گے،لیکن ان کے متعدد دعوؤں کی طرح یہ اعلان بھی ریت کی دیوار ثابت ہوا۔ شائد انہیں اس بات کا خدشہ تھا کہ اگر اس حلقے سے کسی دوسرے امیدوار کو نامزد کیا جاتا ہے تو کامیابی مشکل ہوگی جبکہ جہانگیر ترین کے اثر رسوخ اور ضمنی نشست میں بڑے مارجن سے کامیابی کے بعد انہیں یقین تھا کہ تحریک انصاف یہ نشست با آسانی دوبارہ حاصل کرلے گی۔
لودھراں ضمنی انتخاب میں پاکستان پیپلز پارٹی جو پنجاب میں دوبارہ جگہ بنانے کے دعوی کررہی تھی انتہائی کم ووٹ حاصل کرسکی ہے۔ ضمنی انتخاب میں انہوں نے مضبوط حلقہ نہ ہونے کے سبب رابطوں میں سرگرمی کا مظاہرہ نہیں کیا، یہی وجہ ہے کہ انہیں کم و بیش صرف 3 ہزار ووٹ ملے۔ضمنی انتخاب کے حوالے سے یہ رجحان بھی تقویت پکڑ تا جارہا ہے کہ میاں نواز شریف کا مجھے کیوں نکالا، کا نعرہ انتخابی مہم میں موثر ہوتا جارہا ہے۔ کیونکہ این اے 154 میں عدلیہ کی جانب سے نا اہل قرار دیئے جانے والے دو رہنماؤں کے امیدواروں کے درمیان کانٹے کا مقابلہ تھا۔ عمومی رائے یہ بنتی جا رہی ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن اپنے انتخابی نعرے مجھے کیوں نکالا؟۔ کا بھرپور فائدہ اٹھانے میں کامیاب کی جانب گامزن ہے۔ لیکن بعض حلقے ضمنی انتخاب میں پاکستان مسلم لیگ ن کی کامیابی کو غیر متوقع بھی قرار دے رہے ہیں۔ تاہم دونوں جماعتوں کے لئے لودھراں کا ضمنی انتخاب، عام انتخابات کیلئے ایک ٹیسٹ بھی تھا۔ جس میں پاکستان مسلم لیگ ن کو ابتدائی طور پر کامیابی مل چکی ہے۔ جبکہ تحریک انصاف کو عام انتخابات میں من پسند کامیابی کے لئے مربوط منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تحریک انصاف اپنے جلسے جلوسوں میں اخلاقی اقدار کو مد نظر رکھتی تو اس کی پرواز مزید بلند ہوسکتی تھی۔ لیکن تحریک انصاف کے بعض رہنماؤں کے ایسے بیانات آجاتے ہیں جس میں مناسب لفظوں کا استعمال نہیں کیا جاتا۔ مثلاََ تحریک انصاف کے ایک مرکزی رہنما نے نجی چینل کے پروگرام میں مخالف جماعت پر تنقید کرتے ہوئے انتہائی نازیبا لفظوں کا استعمال کیا جیسے عوامی حلقوں میں پسند نہیں کیا گیا۔ اخلاقی شائستگی اور مدلل تنقید کے حق سے قطعی انکار نہیں ہے لیکن کسی بھی سیاسی رہنما کے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ جملوں یا مثالوں کے چناؤ میں خود کو 146منٹو145 ثابت کرنے کی کوشش کرے۔ مخصوص حلقے الزام لگاتے ہیں کہ تحریک انصا ف کے رہنما و کارکنان اپنے جلسوں و ٹاک شوز اور سوشل میڈیا میں جذباتی ہو جاتے ہیں،جس کا جواب بھی مخالف جماعت سے اسی انداز میں آنے سے اچھا تاثر نہیں جاتا۔
عام انتخابات میں ووٹرز اپنی پسندیدہ شخصیت یا جماعت کو ووٹ ڈالتا ہے۔ لیکن پارٹی قائدین اپنے موقف کو اخلاقی دائرے میں پیش کر کے ٹھوس موقف سے ووٹرکی رائے بھی تبدیل کرسکتا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کی سیاست و طرز حکمرانی کی اچھائیوں و برائیوں کا فیصلہ کرنا عوام کی عدالت میں ووٹ کی شکل میں سامنے آجائے گا۔ یہی معیار دیگر سیاسی جماعتوں کے لئے بھی مقرر ہے کہ انہوں نے عوام سے لئے گئے ووٹوں کے ساتھ کتنا انصاف کیا؟۔ پاکستانی سیاست کا اجمالی جائزہ لیا جائے توسمجھنے میں دشواری نہیں ہوگی کہ اقربا پروری، مورثی سوچ، جاگیردار، وڈیروں، ملَکوں، خوانین اور سرداروں کا اثر رسوخ اپنے ووٹرز پر بھرپور اثر رکھتا ہے۔ کسی متوسط طبقے کا عام انتخابات میں حصہ لینا ہی تقریباََ ناممکن ہوگیا ہے۔ اس کا اندازہ انتخابات میں خرچ ہونے والے اخراجات کو دیکھ کر کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں انتخابی سیاست صرف اشرافیہ تک ہی محدود ہوچکی ہے۔ پاکستان کی سیاست میں تبدیلی کے دعوے کرنا آسان لیکن اس پر عمل کرنا مشکل ہے۔
ہم اس مفروضے پر یہ سوچتے ہیں کہ اگر کاروبار میں باپ کا جانشین بیٹا بن سکتا ہے اور اپنے آبا کا وارث بن سکتا ہے جو کہ اس کا قانونی و اخلاقی حق بھی ہے تو پھر سیاست میں باپ کی جگہ اگر بیٹا یا کوئی اور رشتے دار لیتا ہے تو اس پر اعتراض کیوں کیا جاتا ہے؟۔ یہاں بات سمجھنے کی صرف یہ ہے کہ اگر سیاست کو صرف خدمت تک محدود رکھا جاتا تو اس قسم کی مورثی انتقال ِاقدار پر کسی کو اعتراض نہیں ہوتا لیکن سیاست ایک ایسا کاروبار بن چکا ہے جہاں ایک لگاؤ، ہزار پاؤ، کا کھاتہ چل رہا ہے۔ غریب اور متوسط طبقہ تو مہنگی سیاست کا متحمل ہی نہیں ہوسکتا۔ ان حالات میں جب کوئی خاندان کروڑوں روپیہ پانی کی طرح بہاتا ہے تو اس امید پر کہ اس کے 146ثمرات145سے اس سمیت خاندان بھی مستفید ہوگا۔ اگر انہیں خدمت کا واقعی شوق ہوتا تو امیدواران انتخابات میں جتنا خرچ کرتے ہیں اگر الیکشن لڑے بغیر عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کردیتے تو کم ازکم پاکستان کسی بنک، ملک کا قرض دار اور عوام مقروض نہ ہوتے۔ لودھراں ضمنی انتخاب تمام سیاسی جماعتوں کیلئے بھی ایک ٹیسٹ ہے کہ عوام کے ہجوم اور ووٹرز میں فرق کو روا رکھیں۔ یہ نہ سمجھا جائے کہ اگر پاکستان مسلم لیگ ن لودھراں کے ضمنی انتخاب کو جیت گئی ہے تو اس کا مطلب پاکستان کے تمام حلقوں سے بھی جیت جائے گی یقینی طور پر پاکستان میں دوسری جماعتوں کا اپنا ایک کردار ہے۔
گڈ گورنس اور بیڈ گورنس پر اتحادی و مخالفین اپنے اپنے کیمپوں سے رائے عامہ اپنے حق میں موافق کرنے کیلئے سعی کریں گے۔ لیکن یہاں سب سے اہم بات کا عوام کو جاننا اور سمجھنا ضروری ہے کہ ان کا ایک ووٹ صرف ایک ووٹ نہیں بلکہ اس کی حیثیت گواہی کی ہے جس کا حساب اسے رب کائنات کے سامنے بھی دینا ہے کہ جس کے لئے گواہی دی گئی کہ یہ امین، صادق اور عوامی معیار و توقعات پر پورا اترتا ہے یا نہیں۔ یا پھر تشہری پروپیگنڈے یا ذاتی مخالفت و انا کی وجہ سے گواہی دی۔ پاکستان میں اس وقت جس قسم کا جمہوری نظام قائم ہے کم ازکم اس کا تصور بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح ؒ نے نہیں کیا تھا۔ بقول عمران خان غلطیوں سے سبق ضرور حاصل کرنا چاہیے،کامیاب ادارے، ملک اور افراد اپنی ناکامیوں ہی سے سبق سیکھتے ہیں یہ کلیہ سب کیلئے ضروری ہے۔پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گذر رہا ہے۔ پڑوسی ممالک پاکستان کی بقا و سلامتی کے خلاف منظم و متحرک ہیں اور ان کا مقابلہ کرنے کے بجائے ہماری سیاسی جماعتیں کیا کررہی ہیں یہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اصل فیصلہ عوام کو ہی کرنا ہے کہ کس کو لانا ہے کیسے اور کیوں نکالنا ہے اور کون سی سیاسی جماعت ملک و قوم کی ترقی کیلئے زیادہ بہتر ہے اس کا فیصلہ ضمیر کی عدالت میں ایک بار ضرور کیجئے گا۔