تحریر : محمد شاہد محمود پروفیسر حافظ محمد سعید کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔پاکستان کے استحکام،نظریہ پاکستان کی سربلندی اورعالم اسلام کودرپیش مسائل کے حل کے لئے ان کی بے پناہ خدمات ہیں۔دنیامیں جہاں بھی مسلمانوں پرظلم ہوحافظ محمدسعیدہمیشہ اس ظلم کے خلاف آوازاٹھانے میں پیش پیش رہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ پاکستان اوراسلام کے دشمنوں کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتے ہیں۔امریکہ اوربھارت ہمیشہ حافظ محمدسعیدکے خلاف پروپیگنڈہ کرتے رہتے ہیں۔یہ بات معلوم ہے کہ امریکہ ہویابھارت دونوں پاکستان کے دشمن ہیںاس لئے ان سے کسی خیرکی توقع رکھناعبث ہے افسوس تواپنوں پرہے جوغیروں کی خوشنودی کی خاطرشعلہ وشررسے مل کرمحسن ملت حافظ محمدسعیدکے خلاف زبان طعن درازکررہے ہیں’ جیساخواجہ محمدآصف جوخیرسے پاکستان کے وزیرخارجہ بھی ہیں نے گذشتہ دنوں امریکہ اوربھارت کی زبان بولتے ہوئے کہاکہ حقانی نیٹ ورک اوحافظ محمدسعید جیسے عناصر پاکستان کے لئے ایک’لائبیلیٹی’ یا بوجھ ہیں ان سے جان چھڑانے کیلئے پاکستان کو وقت چاہئے۔
نیویارک میں ایشیا سوسائٹی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ایسے لوگ موجود ہیں جو بحران کی صورت میں پاکستان اور خطے کے لئے ایک لائبیلیٹی یا بوجھ ثابت ہو سکتے ہیں۔ تقریب کے میزبان امریکی صحافی سٹیو کول کے ایک سوال کے جواب میں خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ وہ اس خیال سے متفق ہیں کہ پاکستان کو شدت پسندی اور دہشت گردی کی باقیات کے خاتمے کیلئے اپنی کوششیں جاری رکھنی چاہئیں۔ جماعة الدعوةکے بانی حافظ محمدسعید کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کی تنظیم کالعدم ہے اور وہ نظربند ہیں مگر میں اس بات سے متفق ہوں کہ اس سلسلے میں ہمیں مزید اقدامات کرنے ہوں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ کہنا بہت آسان ہے کہ پاکستان حقانیوں اور حافظ محمدسعید اور لشکر طیبہ کی مدد کر رہا ہے۔ ان سے جان چھڑانے کے لئے ہمارے پاس سے وسائل نہیں ہیں۔خواجہ آصف کامزیدکہناتھا کہ 80 کی دہائی میں امریکہ کا آلہ کار بننا ایک ایسی غلطی تھی جس کا خمیازہ پاکستان آج تک بھگت رہا ہے۔ ہمیں استعمال کیا گیا اور پھر دھتکار دیا گیا۔بلاشبہ ہم نے غلطیاں کی ہیں لیکن ہم یہ غلطیاں کرنے میں اکیلے نہیں ہیں اور صرف ہمیں ہی مورد الزام ٹھہرانا ناانصافی ہے۔ امریکہ کو سوویت یونین کے خلاف جنگ جیتنے کے بعد خطے کو ایسے چھوڑ کر نہیں جانا چاہئے تھا۔ اس کے بعد سے ہم جہنم میں چلے گئے اور آج تک اسی جہنم میں جل رہے ہیں۔ خواجہ آصف نے اس موقع پرجہاں امریکہ کوخوش کرنے کے لئے بھرپوروکالت کی وہاں وہ بھارت کی تعریف کئے بغیربھی نہ رہ سکے۔ انہوں نے کہا کہ نوازشریف کو بھارت سے تعلقات بند کرنے کی سیاسی قیمت چکانا پڑی اور ان کے سیاسی حریفوں کی طرف سے اس پر انہیں مودی کا یار اور غدار تک کہا گیا۔
خواجہ آصف کے بیان سے واضح ہورہاہے کہ دورہ امریکہ کے دوران ان کااصل ٹارگٹ پروفیسرحافظ محمدسعیدہی تھے جنہیں گھر میں نظربندرکھا گیا ہے۔مجاہد اسلام حافظ محمد سعید کی غیر آئینی وغیر قانونی نظر بندی کو250دن ہو چکے ہیں افسوس کے ساتھ وہ وہ کون سا قومی مفاد تھا جس کے تحت حافظ محمد سعید کو نظر بند کیا گیا ابھی تک واضح نہیں ہو سکا یا کیا گیا کیونکہ حافظ محمد سعید کی نظر بندی کسی قو می مفاد کے تحت نہیں بلکہ امریکی ڈکٹیشن پر مودی کو خوش کرنے کے لیے کی گئی ہے اور ہماری حکومت نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ہم کل بھی غلام تھے اور آج بھی ہیں اور غلامی کو ہی پسند کرتے ہیں۔یہ واضح نہیں کہ وہ کون سا قومی مفاد تھا جس کے تحت ایسا اقدام اٹھایا گیا ۔ خواجہ آصف اس سے پہلے بھی بھارت کی زبان بولتے ہوئے کہہ چکے ہوئے ہیں کہ حافظ محمد سعید اور دیگر افراد معاشرے کے لیے خطرہ ہیں اس بیان سے ہمارے وزیرخارجہ نے خوب مودی اور ٹرمپ کو خوش کیا۔ ویسے آپ سے امید بھی یہی ہے اور تھی آئیے ذراحافظ محمدسعید کومعاشرے کے لئے خطرناک ہونے کے اسباب پر نظر ڈالتے ہیں ۔حافظ محمد سعید کا پہلا قصوریہ ہے کہ وہ پاکستان کوقائد اعظم اور اقبال کا خواب دیکھنا چاہتے ہیں جیسا کہ یہ اسلامی جمہوریہ ریاست ہے تو اس میں اسلام کہاں ہے ہم آزادی کے باوجود بھی غلام کیوں ہیں ؟پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے نظریات کہاں ہیں ؟ یہاں اسلام کا نام لیوائوں کو دہشت گرد کیوں کہا جاتا ہے ؟اسلامی اشعائر کا مذاق کیوں اڑیا جاتا ہے ؟ داڑھی والے افراد کیوں معیوب سمجھا جاتا ہے ؟ یہاں مسجد میں لائوڈ سپیکر پر تو پابندی لگ سکتی ہے کہ وہاں سے مذہبی دہشت گردی پروان چڑھتی ہے اور حکومتی لوگ جو ایوانوں کے اندر بیٹھ کر اغیار اور کفر کی زبان بولتے ہیں کیا یہ دہشت گردی نہیں ؟ خواجہ آصف کی دماغی حالت سے یہ لگتا ہے کہ وہ عمر کے اس حصے میں ہیں کہ جہاں بندہ بچپن والی حرکتیں کرتا ہے مگر بچے بھی کبھی اپنے گھر کا نقصان نہیں کرتے مگر وزیر دفاع نے تو بے وفائی کی حد کر دی۔جب قوم کے محسنوں کے خلاف زبانیں بے لگام ہوجائیں توپھرقانونی چارہ جوئی ضروری ہوجاتی ہے چنانچہ پروفیسر حافظ محمد سعید نے اپنے وکیل اے کے ڈوگرکے ذریعے خارجہ خواجہ آصف کی جانب سے دورہ امریکہ کے دوران متنازعہ بیان بازی کیخلاف قانونی نوٹس بھجوادیاہے۔ نوٹس میں کہا گیا ہے کہ خواجہ آصف14دن کے اندر وائٹ ہائوس میں شراب نوشی اور گلچھرے اڑانے کے حوالہ سے لگائے گئے بہتان اور ہرزہ سرائی پر معافی مانگیںوگرنہ 100ملین پاکستانی روپے ہرجانہ کی ادائیگی کیلئے تیار رہیں۔خواجہ آصف نے جس طرح کی زبان استعمال کی ہے یہ بہت بڑا جرم ہے اور اس پر انہیں پانچ سال کی سزاہو سکتی ہے۔ حافظ محمد سعید باکردار اور باعزت صلاحیتوں کی حامل شخصیت ہیں۔امریکہ میں دیے گئے۔ خواجہ آصف کے بیان نے ایک معزز پاکستانی شہری کے وقار کو شدید ٹھیس پہنچائی ہے۔اے کے ڈوگر ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ عدلیہ کی رو سے ایک وکیل ہونے کی حیثیت سے میرا فریضہ ہے کہ آپ تک آئین کے آرٹیکل 14 کے تحت بنیادی حقوق کی شق پہنچائوں۔ 2002کے سیکشن 8 کے تحت آپ کو 14 روزہ نوٹس ارسال کیا جا رہا ہے جس میں آپ اپنے بہتان اور ہرزہ سرائی کے وضاحت کریں گے۔
ایسے بیانات سے جہاں میرے موکل کے وقار کو نہ صرف پاکستان میں بلکہ بیرون ملک بھی ٹھیس پہنچی ہے، اس مد میں میرے موکل نے 100 ملین پاکستانی روپے کے ہرجانہ کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ کس قدر تعجب کی بات ہے کہ خواجہ آصف نے وزیر خارجہ کے منصب پر فائز ہوتے ہوئے بیرون ملک اپنے ہی ملک کے شہری کے متعلق ایسے الفاظ استعمال کئے جبکہ حافظ محمد سعید کا وائٹ ہائوس جا کر شراب نوشی کرنا یا دعوت اڑانا تو درکنار، وائٹ ہائوس کے قریب جانا بھی ثابت نہیں۔ وہ ایک محب وطن اور باوقار پاکستانی شہری ہیں جنہوں نے ہمیشہ نبی آخرالزماں حضرت محمد ۖ کے فرمودات اور ارشادات کا پرچار کیاہے۔ آپ کا بیان پاکستان پینل کوڈ پی پی پی کے سیکشن 500 کے تحت آپ کو 5 سال کی سزا کا مجاز ٹھہراتا ہے۔ پاکستانی وزیر خارجہ نے چند دن قبل نیو یارک میں ایشیا سوسائٹی فورم پر خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ‘ہمیں حافظ سعید اور حقانی جیسے افراد کی پرورش کا الزام نہ دیا جائے۔ 20 سے 30 سال پہلے یہی افراد وائٹ ہاوس دورہ جات پر شراب نوشی اور کھانا نوش کیا کرتے تھے۔یہ سراسر جھوٹ اور بہتان ہے۔ آئین کے آرٹیکل سیکشن 499میں درج ہے کہ جو شخص اپنے الفاظ میں، بول چال یا تحریر میں، کسی شخص کے وقار اور عزت کو باطل کرتا ہو، تو یہ عمل اس شخص کی عزت اور وقار پر ہرزہ سرائی ثابت ہو گا”لہٰذاپاکستان پینل کوڈ پی پی پی کے سیکشن 500کے تحت آئین میرے موکل کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ آپ کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ دائر کرا سکے۔ مقدمہ سازی کے تمام اخراجات میرے موکل پر نہیں بلکہ آپ کے ذمہ ہوں گے۔ایک سوال کے جواب میں انہوںنے کہاکہ حافظ محمد سعید اوران کی جماعت کی تھرپارکرسندھ اور بلوچستان میں ریلیف سرگرمیوں کی دنیا معترف ہے۔ وہ بھوکوں کو کھانا کھلاتے اور لوگوں کیلئے پانی کا بندوبست کرتے ہیں۔
ایسے محب وطن لوگ بہت کم پیدا ہوتے ہیں۔سیاسی و مذہبی جماعتوں کے قائدین نے شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ خواجہ آصف پاکستانی وزیر خارجہ ہوتے ہوئے بھارتی زبان بول رہے ہیں’اقامہ ہولڈر وزیر خارجہ کو فی الفور برطرف کر کے ان کیخلاف غداری کا مقدمہ درج ہو نا چاہیے۔ انڈیا کی خوشنودی کیلئے زہریلے پروپیگنڈا سے پوری پاکستانی قوم کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ حافظ محمد سعید محب وطن لیڈر ہیں’ عدالتوں میں ان کیخلاف کوئی الزام ثابت نہیں ہو سکا۔ وزیر خارجہ کا بیان توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے۔ حکومتی ذمہ داران بھارت و امریکہ کی کاسہ لیسی میں ملکی مفادات کو بھی داو پر لگا رہے ہیں۔ پاکستان کی مقتدر قوتوں کو خواجہ آصف کے بیانات کا نوٹس لینا چاہیے اورتحقیقات کرنی چاہیے کہ وہ کس کے کہنے پر ملکی سلامتی و استحکا م کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ خواجہ آصف کی غیر ذمہ دارانہ بیان بازی سے بین الاقوامی سطح پر نئے مسائل کھڑے ہو رہے ہیں۔ لیکن حکومت نے انہیں250 دن سے نظربند کر رکھا ہے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ انہیں فوری رہا کیا جائے اور پاکستان دشمنی پر مبنی بیانات دینے والے وزیروں کو برطرف کر کے ان کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کیا جائے۔خواجہ آصف کے بیان سے پوری پاکستانی قوم کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ حافظ محمد سعید محب وطن لیڈر ہیں جن کیخلاف کوئی الزام ثابت نہیں ہے۔۔ کلبھوشن جیسے ایجنٹ بلوچستان میں علیحدگی کی تحریکیں پروان چڑھا کر سی پیک منصوبہ کو نقصان پہنچانے کی سازشیں کر رہے ہیں۔نواز شریف عدلیہ اور پاک فوج کے خلاف سازشوں میں ملوث ہیں ،اب پاک فوج کے خلاف سازش عیاں ہو چکی ہے۔ خواجہ آصف کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنی زبان پر کنٹرول نہیں رکھتے۔ایسے شخص کو وزیر خارجہ کے منصب پر فائز نہیں ہونا چاہیے۔