اسلامی جمہوریہ پاکستان میںآخر مارشل لاء ہی کیوں لگنا چاہیے۔پیپلز پارٹی کی شہلا رضا صاحبہ اور اس سے قبل پیپلز پارٹی کے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی صاحب کے بیانا ت سے ہمارے اسلامی جمہوریہ پاکستان کا وقار دنیا میں خراب نہیں ہو رہا؟۔ کیا ہم اتنے بودے ہو گئے ہیں کہ اپنے معمول کے معاملات بھی نہیں چلا سکتے۔ سابق وزیر اعظم گیلانی صاحب کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، عوامی نیشنل پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے رہنمائوں سے مشاورت کر کے ڈکٹیٹر مشرف کومحفوظ راستہ دیا گیا تھا۔ نواز لیگ نے معاہدے کی خلاف درزی کر کے ڈکٹیٹر مشرف کو مقدمات میں پھنسایا ہوا ہے۔
قربان جائیں ان کے بیان پر ڈکٹیٹر نے نواب اکبر خان بگٹی کو اعلان کر کے قتل کیا۔ لال مسجد اور مدرسہ جامعہ حفصہ پر فاسفورس بم مار کر قوم کی بے گناہ بچیوں کو موت کی نیندسلا دیا گیا انکے ورثہ کو انصاف ملنے کے بغیر جناب کے فارمولے پر ڈکٹیٹر مشرف کو چھوڑ دینا چاہے۔شہلا رضا صاحبہ فرماتی ہیں کہ بیرونی قوتوں اور ہماری فوج نے اس بات کی ضمانت دی تھی کہ تیں جمہوری ٹرم تک مارشل لاء نہیں لگایا جائے گا۔ ایک یہ بھی خبر گردش کرتی رہی ہے کہ ڈکٹیٹر مشرف نے ٨٠ سیٹیں تحریک انصاف کو دینے کا کہا تھا مگر وہ کچھ زیادہ کہتے تھے۔ نجم سیٹھی کی نواز شریف کے حق میں اور عمران خان کے خلاف٣٥ پنچرز لگانے کی باتیں اخبارات کی زینت بنتی رہی ہے۔
اس بات پر عمران خان نجم سیٹھی کے خلاف بھی ہو گئے ہیں عمران خان صاحب سابق چیف جسٹس جناب افتخار احمد چوہدری پر بھی نواز شریف کی الیکشن میں مدد کی باتوںپر پریس بھرا پڑا ہے۔ اس پر سابق چیف جسٹس صاحب نے عمران خان کو ٢٠ ارب روپے ہر جانے کا نوٹس جاری کیا ہے اور کہا ہے کہ انتخابات میں دھاندلی سے متعلق الزامات غلط اور ناقابل یقین ہیںکپتان کے طرز عمل سے دوغلے پن اور منافقت کی بو آتی ہے عمران نے ہتک آمیز زبان استعمال کی ہے ١٤ روزمیں معافی نہ مانگی یا ہرجانہ ادا نہ کیا تو مقدمہ دائر کیا جائے گا قانونی نوٹس بھی جاری کیا ہوا ہے۔
اُدھر تحریک انصاف کی مرکزی سیکر ٹیری اطلاعات شریں مزاری نے کہا ہے کہ ن لیگ اور افتخار چوہدری کا کٹھ جوڑ بے نقاب کرینگے افتخار چوہدری ن لیگ کے اشتراک سے جمہوریت کو حقیقی معنوں میں نقصان پہنچا رہے ہیں۔عمران خان کو ہتک عزت کا نوٹس موصول نہیں ہوا ہم اپنے مو قف سے پسپائی اختیار نہیں کریں گے۔ڈکٹیٹر مشرف کو وردی میں١٠ بار منتخب کرونے والے چوہدری برادران کو ڈکٹیٹر مشرف کے حوالے سے یہ بات بھی اس سے قبل اخبارات میں آئی تھی کہ چوہدری برادران کو بتا دیا گیاتھا کہ تم کو اتنی سیٹیں مل جائیں گی ۔اس طرح سابق الیکشن کمشنر جناب فخرالدین جی ابراہیم پر بھی الیکشن میں دھاندلی کا الزام لگتا رہا اور بلا آخر اس نے اپنے عہدے سے استفیٰ دے دیا تھا۔
کراچی میں تمام سیاسی جما عتیں صوبائی الیکشن کمیشن کے دفتر کے سامنے احتجاج کرتی رہیں کہ کراچی میں فوج کی نگرانی میں الیکشن کے لیے نئی لسٹیں بنائی جائیں اور حلقہ بندیاں بھی نئی کی جائیں۔ ڈکٹیٹر مشرف نے ایک لسانی جماعت کے کہنے پر پسند کی حلقہ بندیاں کیں تھیں لسٹوں میں غلط نام درج ہیںان کو ختم کر کے حقیقت پرمبنی نئی حلقہ بندیاں اور لسٹیں تیارکی جائیں۔ اس بات کو عدالت نے بھی مانا تھا اور آڈر بھی پاس کیا تھا۔الیکشن کمیشن نے نمائشی طور پر فوج کو لگا کر کہا تھا کہ مطالبہ پورا ہو گیا ہے مگر عوام کی صحیح ڈیمانڈ پوری نہیں کی گئی تھی۔ سیاسی جماعتوں نے احتجاج کو آگے بڑھاتے ہوئے کراچی سے اسلام آباد تک ٹرین مارچ کر کے مرکزی الیکشن آفس اسلام آ باد کے سامنے اپنے مطالبات رکھے تھے۔
Election
مگر کچھ نہ ہوا تھا اور ایسے تیسے ہی الیکشن ہو گئے کراچی میں لسانی تنظیم کی طرف سے الیکشن میں دھاندلی پر کراچی کی ایک موثر سیاسی جماعت جو تین بار کراچی میں اقتدار پر رہ چکی ہے یعنی جماعت اسلامی نے الیکشن میں دھاندلی کے خلاف الیکشن کا بائی کاٹ بھی کیا تھا ۔ بلا آخر نادیدہ قوتوں نے الیکشن میں نواز شریف کو پارلیمنٹ میں اکثریت دلا دی گئی الیکشن کے آخری لمحہ پر نواز شریف سے ایک بیان بھی غلطی سے نکل گیاتھا کہ مجھے پارلیمنٹ میں اکثریت چاہیے۔ عوام اسی وقت شک میں پڑ گئے تھے کہ نواز شریف کس سے پارلریمنٹ میں اکثریت مانگ رہا ہے۔
ایک سال بعد عمران خان کو اس کاپتہ چلا اور شاید جو لوگ ہمارے ملک میں افراتفری چاہتے ہیں انہوں نے عمران خان کو بتایا کہ الیکشن میں جھرلو پھیرا گیا ہے اب نادیدہ ذرائع کی نشان دہی پر عمران خان شکایت کر رہے ہیں۔ چار حلقوں کے بجائے نئے الیکشن کی بات ہو رہی ہے۔ عمران خان حکومت پر الزام لگا رہا ہے اور احتجاج کرتے کرتے ١٤ اگست جس دن قوم نے اپنی آزادی کا دن منانا ہے اسی دن اسلام آباد میں اکھاڑا لگانے کی بھر پور تیاری کر رہا ہے۔ عمران خان نے کہا۔
ہے عوام سڑکوں پر نکل آئیں ۔١٤ اگست کو فیصلہ کن جنگ ہو گی لاکھوں افراد مارچ میں شامل ہونگے ١٤ ماہ سے انصاف کی تلاش میں ہیں اسلام آباد صرف جلسہ کر کے واپس نہیں آئیں گے۔ اسمبلی میں موجود لوگ سسٹم بدلنا نہیں چاہتے۔ کرپٹ نظام سے ٢ نمبر لوگوں کو ہرایا نہیں جا سکتا ۔ حکومت نے یکم اگست سے اسلام آباد میں فوج بلا لی ہے۔ تحریک انصاف کی کور کمیٹی اس اقدام کو عدالت میں چلینج کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اُدھر سے کینیڈین شہری ان ہی دنوں میں موجودہ سیٹ اپ تبدیل کر کے دودھ کی نہریں جاری کرنے کی جادوئی چھڑی گھمانے کا فلسفہ لیکران دنوںکینیڈا سے تشریف لائے ہوئے ہیں۔
آنے سے پہلے حکم دیا تھا کہ ایئر پورٹ کا انتظام فوج سنبھال لے۔ انقلاب لانے کے فلسفے پر میدان میں اترے ہوئے ہیں لاہور میںجہاز سے خوف کے مارے اکیلے نہیں اتر رہے تھے ساتھ میں پنجاب کے گورنر کو رکھ کر جہاز سے اترے۔ لاہور میں اس کے کارکنوں کو پولیس نے بے دردی سے قتل کیا جس سے ان کی تحریک کوجلا ملی ہے۔ عمران خان اور طاہرالقادری صاحب کو ایک مستقل براتی بھی ملا ہوا ہے جو ایم کیوایم، عمران خان اورکینینڈین شہری اورخود ساختہ شیخ الاسلام کی بارات میں شامل ہونے کو ہر وقت تیار بیٹھا ہے۔
ٹرین مارچ کا اعلان کر کے بزدلی کا مظا ہرہ کرتے ہوئے خود ہی ختم کر دیا اور کہا کہ اس سے میرے کارکنوں کی زندگیوں کو خطرہ ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ چوہدری برادران جو ڈکٹیٹر مشرف کو وردی میں ١٠ بار منتخب کرنے کا اعلان کر چکے ہیں بھی کینیڈین شہری کی مدد کو ہر وقت تیار بیٹھے ہیں۔
قارئین یہ سارا نقشہ اس غرض کے لیے کھینچا ہے کہ بے بس عوام کو کچھ معلومات ملیں کہ کس طرح نادیدہ قوتیں ان کے رائے حق دہی پر مل جل کے ڈاکے ڈالتی رہی ہیں اور ان کے حقیقی نمائندوں کو آگے نہیں آنے دیا جاتا ہے۔ اس لیے آزاد الیکشن کمیشن بننا چاہیے اور ہمارے پڑوسی ملک کی طرح الیکشن کا طریقہ اختیار کرنا چاہیے تاکہ عوام اپنے حقیقی نمائندوں کا شفاف طریقے سے انتخاب کریں احتجاج کی سیاست سے عوام کی جان چھوٹے اور جو بھی حکومت منتخب ہو وہ ترقی کے راستے پر گامزن ہو۔ لیکن اس وقت ملک جن حالات پر جا رہا ہے کیا نادیدہ قوتیں سیاست دانوں کو نااہل ثابت کر کے مارشل لاء کے لیے راستہ ہموار تو نہیں کر رہیں؟ آخر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بار بار ماشل لاء ہی کیوں؟