پاکستان کے سابق تا حیات نا اہل وزیر اعظم جناب نواز شریف کا کہنا ہے کہ نیب کے چیئرمین جاوید اقبال معافی مانگیں یا استعفی دیں۔پنجابی میں بلے اوئے ایسے ہی موقعوں پر کہا جاتا ہے۔یعنی بات کو بتنگڑ بنانا کوئی ان سے سیکیکھے پہلی بات یہ تو بتائیے کہ آپ کی صاحبزادی جو خیر سے اب نانی بھی بن چکی ہیں ان کے میڈیا سیل کی جانب سے یہ دھماکہ کیز مہم کیوں چلائی جا رہی ہے کیا ایک کالم کی بنیاد پر حجور کا مطالبہ جائیز ہے۔ہمیں سب سے سپلے یہ سوچنا ہو گا کہ کیا یہ اربوں ڈالر بھارت منتقل ہوئے ہیں یا نہیں۔اس سے پہلے تو سارے یہی شور کرتے رہے کہ اقامہ کی بنیاد پر نا اہل شریف نے صرف لندن ہی رقوم منتقل کیں ۔کیا اقامہ اس کام کے لئے بھی استعمال ہوا کیا متحدہ عرب امارات سے اربوں ڈالر کی رقوم بھارت بھی جاتی رہیں؟ان سوالات کے پیچھے لٹھ لے کے پڑنا ہو گا۔بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے۔
پاکستان کے سو فی صد لوگ جانتے ہیں کہ اس ملک نے ہمارے قیام سے لے کر اب تک ہمیں تسلیم نہیں کیا ہاں چند لوگ جنہیں کالی بھیڑوں کے زمرے میں لکھا جا سکتا ہے وہ اس ملک کے آلو گوشت کو اپنے والا سمجھتے رہے ہیں اور یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ بھارت جا کر بھارت کی سر زمین پر اس لکیر کو جس کے لئے لاکھوں جانیں قربان ہوئیں اسے بس ایسے ہی اک لکیر گردان لیا گیا۔اسی رب کو جسے بھارتی مانتے ہیں اپنا رب کس نے قرار دیا۔حضور جاوید اقبال صاحب کس بات کی معافی مانگیں۔یہ سوال تو ہر پاکستانی اٹھا رہا ہے کہ بھارت دوستی میں آپ میاں صاحب سب سے نمبر لے گئے ہیں آپ تو سندھ کے قوم پرستوں کراچی کے لسانیت پرست سنپولیوں اور بلوچستان کے پی کے پختون خواہوں سے آگے بڑھ گئے ہیں۔آج ولی خان عبدالصمد اچکزئی اور غفار خان اگر زندہ ہوتے تو آپ کا ماتھا چوم لیتے۔جو بات ان کی زندگی میں پنجاب سے کسی نے نہیں کی وہ اب لاہور سے کی جا رہی ہے۔
میاں صاحب کو کسی زمانے میں بھولا کہا گیا تھا کہتے ہیں خلائی مخلوق(بقول میاں صاحب) کے ایک اہم فرد جو اس وقت پنجاب کے گورنر تھے انہوں نے جب مرسیڈیز کی چابی وصول کی تو کہا میاں شریف صاحب اپنے بیٹوں میں سے کسی ایک کو ہمارے حوالے کریں۔ان کا جواب اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے بڑے میاں صاحب کا کہنا تھا چھوٹا کام کا ہے اسے رہنے دیں بڑا بھولا ہے اسے لے جائیے ۔اور یار لوگ ابھی تک انہیں بھولا سمجھتے ہیں جب کے نوابزادہ نصراللہ خان جیسے جہاندیدہ سیاست دان کو بھی چکمہ دے کر سو بکسوں سمیت جدہ پہنچنے والے میاں جی کو بھولی کی طرح اتنا بھی بھولا نہیں سمجھنا چاہیے کہ ان کے ان سو گناہوں کو معاف کر دیا جائے۔پاکستان کے اربوں ڈالر ایک مدت سے انڈیا جا رہے ہیں۔اگر نیب کے چیئرمین نے یہ سوال اٹھایا بھی تو نون لیگ ہی کو اپنی داڑھی میں تنکا کیوں نظر آیا۔حضور سیدھی سی بات ہے یہ ملکی دولت کوئی آج کی نہیں جا رہی لیکن حیرت یہ ہے کہ بھارت جانے والی یہ رقوم میاں نواز شریف کے دور اقتتدار میں ہی گئی ہیں۔عالمی بینک سے رجوع کیا جا سکتا ہے کیا جناب شاہد خاقان عباسی عالمی بینک کو خط لکھنا گوارا کریں گے؟خط کیا لکھیں گے پانی کے مسئلے پر تو عالمی بینک کا سربراہ ہمارے وزیر اعظم کو وقت نہیں دے رہا۔میاں نواز شریف صاحب سے بھارت دوستی کے ڈانڈے مری جندال ملاقات سے ہوتے ہوئے مریم صاحبہ کی بیٹی کی شادی تک دیکھنے کو ملتے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ اربوں ڈالر پاکستان کے چوری ہوئے ہیں انہیں بھارت بھیجا گیا ہے قارئین دل پر ہاتھ رکھ کر کہئے یہ رقوم اس فرد کے نام ہوں گی جس کے بارے میں خود بھارت کے ذمہ داران کہہ رہے ہیں کہ ہم نے نواز شریف پر بہت خرچ کیا ہے۔
گزشتہ رات ایک نجی چینیل کے پروگرام میں ایک ذمہ دار دوست کا بجا فرمایا تھا کہ جو شخص اپنے منہ سے آج تک کل بوشن کی گرفتاری اس کی شر انگیزی پر بات نہیں کر سکا رقم تو پھر اسی نے بھیجی ہو گی۔اور مزید سچ یہ ہے کہ میں نے بھی لقمہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ سراج الحق قاضی حسین عمران خان پر تو شک نہیں کیا جا سکتا کہ ان کے کارخانے بھارت میں لگے ہوں گے۔یہ بات اپنے دوستوں کی نظر کرنا چاہتا ہوں کہ کہ میاں فیملی کے بھارت سے دوستی محبت کی بات کوئی سال دو کا قصہ نہیں ہے ۔میں واحد سیاست دان ہوں جو میاں برادران کو جدہ میں بھی دیکھ چکا ہوں عزیزیزیہ سٹیل مل جو بعد میں الطویرجی گروپ کو بیچ دی گئی اس کے ملازمین کی اکثریت بھارت سے تھی۔میں ذات مذہب کی بنیاد کی بنیاد پر ہندوئوں کی بات نہیں کر رہا اس لئے کہ وہ پاکستان میں بھی رہتے ہیں اور ہو سکتا ہے ہم سے بہتر پاکستانی ہوں مگر بھارت کے متشدد ہندوئوں کی حمائت کیسے کی جا سکتی ہے۔انہی لوگوں میں سے ایک گروہ میرے ایک دوست کے توسط سے ملا ان کا کہنا تھا کہ ہم تو دبئی میں بھی انہی لوگوں کی مل میں کام کرتے تھے ہمیں تو اس فیملی سے دلی پیار ہے اور ان کا مزید کہنا تھا کہ میاں شریف کی تو ہم نے مورتیاں بنا کر رکھی ہوئی ہیں وہ ہمارے بھگوان ہیں۔اگر اتنا پیار ہو گا تو پھر یہ تو کہا ہی جائے گا کہ ہم ایک ہی خطے کے لوگ ایک جیسے ہیں ۔کاش آج مشکور حسین یاد زندہ ہوتے تو ان سے ضرور پوچھتا کہ اپنے شاگرد کو مطالعہ پاکستان پڑھایا تھا؟اسی میاں جی کے شہر لاہور میں ہندو پانی اور مسلم پانی ملتا تھا اور تو اور مسلم کمرشل بینک مسلم ہوٹل الگ سے تھے۔
قدرت اللہ شہاب انڈین سول سروس میں معدودے چند مسلمانوں میں سے ایک تھے کہتے ہیں ایک متعصب بنئے نے میرا کھانا کیا تو مجھے برتن پچھلے سال والی دعوت والے دیکھے بھالے نظر آئے استفسار پر بتایا گیا کہ جی ہاں جب آپ پچھلے سال آئے تھے تو ہم نے آپ ہی کے لئے سنبھال رکھے تھے۔اس سادہ سی بات کو اگر میاں صاحب نہیں سمجھے تو انہیں پھر اللہ ہی سمجھے۔ہم تو کچھ نہیں کر سکتے۔پاکستان کا قیام دو قومی نظریے پر ہوا جسے رمیش کمار ایم این اے تو تسلیم کر لیا مگر میاں صاحب دل سے نہیں تسلیم کر پائے۔
رقوم گئی ہیں یا نہیں؟ یہ تو واضح ہے کے گئی ہیں۔اگر گئی ہیں تو کس نے بھیجی ہیں ۔نیب کا حق بنتا ہے کہ وہ اس پر تفتیش کرے۔بلے اوئے اس لیا کہا کہ حضور کاش آپ نے کوئی ایسے معیار ایسے نمونے پیش کئے ہوتے کہ آج کوئی بھی کسی پر انگلی اٹھاتا تو ہر کوئی اس سے مستفی ہونے کا مطالبہ کرتا۔پاکستان کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا ۔ہوا بھی تو ایک ڈسٹرکٹ کونسل کے چیئرمین نے استعفی دیا جس کا نام فخر امام ہے۔باقی تو ماڈل ٹائون میں خون کی ندیاں بہہ گئیں میاں شہباز شریف تو کیا رانا ثنا اللہ تک نے استعفی نہیں دیا۔استعفی مانگنے کی بات جب کنٹینر سے کی گئی تو اس کے جواب میں کیا کیا کہا گیا ایک صاحب جو بزرگ تاجر مسلم لیگی ہیں جن کا تعلق فیصل آباد سے ہے انہوں نے تو پقری قوم کے سامنے استعفے کے جواب میں شرمناک جواب دیا۔
میاں صاحب ایسی باتیں آپ کو نہیں زیب دیتیں۔قوم نے آپپ کے بیانیے کو یک دم مسترد کر دیا ہے۔ذرا سی بات ہوتی ہے مریم صاحبہ کا سوشل میڈیا جو تنخوا دار میڈیا ہے وہاں سے شیل برسائے جاتے ہیں۔جناب جاوید اقبال جس ایمان داری اور دیانت سے کام کر رہے ہیں ان کے راستے میں دیواریں کھڑی کی جا رہی ہیں۔کبھی ملک کے وزیر اعظم انہیں اسمبلی میں طلب کرنے کی بات کرتے ہیں اور کبھی میاں ںواز شریف۔ایسا نہیں ہو گا اب اس بار اور اس سمے پاکستان بدل چکا ہے اب ان عدالتوں کے پیچھے کروڑوں عوام کھڑے ہیں چیف جسٹس ہوں یا نیب کے چیئرمین یہ سب قوم کی امید بن چکے ہیں۔نیب کو ڈرانا دھمکانا چھوڑیے اور جو کچھ اس ملک کے ساتھ میاں صاحب آپ نے کیا ہے اس کا جواب دینے کے لئے تیار رہئے قوم چاہتی ہے بے رحم احتساب ہو۔اس میں اگر کوئی پی ٹی آئی کا ہے تو اسے بھی گھسیٹا جائے اور اگر ق لیگ پیپلز پارٹی اور نون لیگ کا اسے بھی اور اسے بھی جو سالوں سے کشمیر کمیٹی کے اوپر تھانس لگا کے بیٹھا انہیں بھی کٹہرے میں لائیں۔
پاکستان نکو نک ہو چکا ہے اسے کسی چور اور لٹیرے سے پیار نہیں ہے۔میاں صاحب یہ مکافات عمل ہے اسے بھگتئیے اس بار تو کلنٹن بھی نہیں اور نہ ہی کنگ عبداللہ اب تو وہاں بھی تبدیلی کی لہر آ چکی ہے اب سرور پیلیس محمدیہ پلازہ قصر الضیافہ وآپ کو قبول نہیں کریں گے۔اڈیالہ آپ کا منتظر ہے تیاری پکڑیں۔میں آنے والے دنوں میں پاکستان کے دن بدلتے دیکھ رہا ہوں۔انتحابات میں اب خلیل خان کی فاختہ اڑتی نظر نہیں آتی۔حضور سوا تین سو ارب کی چوری پکڑی جا چکی ہے اور اب آپ کا نام ان اربوں ڈالر سے جڑا ہے تو چیخ پکار کیوں اور معافی کس بات کی۔