ہمیں پاکستانی ڈریکولا بہت پسند ہیں

Budget

Budget

تحریر: سید انور محمود
یہ مضمون جولائی 2013 لکھا تھا، نواز شریف حکومت کا پہلا بجٹ آ چکا تھا، اب جب نواز شریف حکومت کا تیسرا بجٹ آیا تو سوچا کہ ایک مرتبہ پھر اپنے پڑھنے والوں کو یہ مضمون پڑھایا جائے، کرپشن تو پہلے بھی موجود تھا لیکن 2008ء کے بعد زرداری اور نواز شریف کی جمہوری حکومتوں نے صرف عوام کا خون چوسا ہے، یہ پاکستانی ڈریکولا ہیں انکو صرف ایک ہی کام ہے کہ کرپشن بڑھاوُ مال بناوُ، ان کے کرپشن ہی کی وجہ سے اسوقت 6 کروڑ پاکستانی غربت کے لکیر سے نیچے رہ رہے ہیں۔ ڈریکولا اور چڑیلوں کو سدا جوان رہنے کے لیے انسان کا خون درکار ہوتا ہے۔ ہمارے سیاست دانوں کی عمر کتنی بھی ہوجائے، وہ ہمیشہ جوان نظر آتے ہیں۔اس مضمون کے آخر میں ایک اضافہ یہ ہے کہ‘ڈریکولاکی اصل کہانی یہ ہے’ کے عنوان سے ڈریکولا کی اصل کہانی بیان کی گئی ہے۔

انٹرنیٹ پر چلنے والی ڈریکولا کی ایک کہانی کو میں نے کچھ تبدیل کیا ہے، اُن دوستوں سے معذرت جن کے فیس بک پر یہ کہانی چل رہی ہے۔ بدلی ہوئی کہانی کچھ یوں ہے۔ ایک بحری جہاز پر ایک ڈریکولا انسانی روپ میں سوار تھا۔ رات ہوتے ہی وہ جہاز پر سوار کسی انسان کا خون پیتا اور یوں اپنی پیاس بجھاتا۔ ایک روز یہ بحری جہاز بیچ سمند میں کسی چٹان سے ٹکرا گیا۔یہ ڈریکولا بھی ایک آدمی کی مدد سے ایک لائف بوٹ پر سوار ہو گیا۔ لائف بوٹ پر صرف ایک ہی شخص تھا اور یہ ہی وہ شخص تھا جس نے اسے بچایا اور بوٹ یا کشتی میں آنے میں مدد کی۔

رات ہوئی تو ڈریکولا کو انسانی خون پینے کی پیاس ہوئی مگر سوچا اگر میں نے ایک دن میں ہی ساراخون پی لیا تو یہ مرجائے گا اور کوئی اسکے علاوہ ہے بھی نہیں، لہذا صرف دو گھونٹ ہی پیوں گا اور وہ بھی اس وقت جب وہ نیند میں ہو گا۔ تاکہ اس کی صحت پر کوئی واضع فرق بھی نہ پڑے اور میری پیاس بھی تنگ نہ کرے۔ یہ سوچ کر روزانہ اس نے دو دو گھونٹ خون پینا شروع کر دیا۔ ایک رات کافی رات گذرنے کے باوجود جب ڈریکولا نے اُس شخص کا خون نہیں پیا تو وہ بے چینی سے اٹھا اور ڈریکولا سےبولا تم خون کیوں نہیں پیتے۔ ڈریکولا حیرت سے بولا کہ تمھیں پتہ ہے کہ میں ڈریکولا ہوں اور تمھارا خون پیتا ہوں۔ وہ شخص بولا ہاں میں جانتا ہوں کہ تم ڈریکولا ہوکیونکہ انسان کسی کا خون نہیں پیتے۔ تم میرا خون پیوکیونکہ اب مجھے خون پلانے کی عادت ہو گئی ہے۔

Dracula

Dracula

دوہزار آٹھ یعنی پانچ سال قبل پیپلز پارٹی نے جب حکومت سنبھالی تو غربت کیساتھ اندرونی و غیر ملکی قرضوں میں اضافہ ہوا ، مشرف دور کے 34 بلین ڈالر کے قرضے پانچ سال میں 66 بلین ہوگے، 62 روپے کا ڈالر اب 100 روپے سے زیادہ کا ہے۔ روٹی کپڑااور مکان کا نعرہ لگاکر پانچ سال پیپلز پارٹی مسلسل عوام کا خون پیتی رہی۔ 2008ء کے الیکشن جیتنے کے بعد پیپلز پارٹی نے صرف ایک منصوبہ پر کام کیا اور وہ تھا کہ زیادہ سے زیادہ لوٹ مار کرو اور عوام کا خون پیو۔ آصف زرداری، دو وزیراعظم ، وفاقی اور صوبائی وزرا نے ملکر کرپشن اور بری گورننس کے حوالے سے ماضی کے کرپشن کےتمام ریکارڈ توڑڈالے۔

اربوں روپے کی کرپشن کر کے قومی خزانے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا اورملکی معیشت کو مفلوج بناڈالا۔ آصف زرداری نے ایک کام یہ کیا کہ لوٹ مار میں دوسروں کوبھی شامل کرلیا تھا۔مسلم لیگ ق، اور ایم کیو ایم کو اپنے ساتھ ملالیا جبکہ خیبر پختوخواہ میں اے این پی اور پنجاب میں مسلم لیگ ن کو حکومت کرنے دی، آصف زرداری کو اتحادیوں اور فرینڈلی اپوزیشن کی ضرورت تھی کیونکہ اکیلے پانچ سال لوٹ مار کرنا مشکل تھا۔ بس پھر کیا تھا مغلوں کے رشتہ دار گیلانی، راجہ رینٹل اور باقی کوئی پیچھے نہ تھا، حتی کہ مولانا فضل الرحمان کوبھی انکا حصہ برابر ملتا رہا۔ خون پینے والوں کو اس بات کا قطعی احساس نہ تھا اور نہ ہے کہ ان حالات میں پاکستان کے عوام کا جینا دوبھر ہوگیا ہے یا پاکستان کسقدر پیچھے چلا گیا ہے۔

اب تھوڑا سا اس پاکستان کا حال بھی سن لیں جس کا مسلسل خون پیا جارہا ہے۔ آج پاکستان 18 کڑوڑ 35 لاکھ کی آبادی کے ساتھ دنیا میں چھٹے نمبر پر آتاہے۔ پاکستان کی 60 فیصد آبادی خط غربت کے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے،عالمی سطح پر خط غربت یومیہ دو ڈالر یا دو سو روپے آمدن کے برابر ہے۔ عالمی بینک کی رپورٹ ”ورلڈ ڈویلپمنٹ انڈیکیٹر“ کے مطابق پاکستان کے 60 فیصد افراد کی آمدن یومیہ دو ڈالر یا دو سو روپے سے بھی کم ہے، جبکہ اکیس فیصد آبادی انتہائی غربت کا شکار ہے۔ پانی جو انسان کی بنیادی ضرورت ہے ، مگر پاکستان میں 60 فیصد عوام پینے کے صاف پانی کی سہولت سے محروم ہیں۔ پانی میں آلودگی بڑھ رہی ہے جسکی وجہ سے کئی امراض میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جن میں ڈائریا، ٹائیفائڈ اور ہیپا ٹائٹس شامل ہیں۔ تعلیم کے شعبے پر ہماری حکومتیں کوئی توجہ نہیں دئے رہی ہیں بلکہ تعلیمی بجٹ میں مسلسل کٹوتی کی جارہی ہے۔

گزشتہ ایک دہائی میں پاکستان میں تعلیم کا بجٹ 2.6 فیصد سے کم ہو کر 2.3 فیصد پر آگیا ہے اور یوں دنیا کی تعلیمی انڈیکس میں 120 ممالک میں سے پاکستان 113 نمبر پر ہے۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں اسکول میں داخل نہ کروائے جانے والے بچوں کی شرح سب سے زیاہ 61 فیصد ہےجبکہ سندھ میں یہ شرح 53 فیصد، خیبر پختونخواہ میں 51 فیصد اور بلوچستان میں 47 فیصد ہے۔ صحت کے شعبےکا حال یہ ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں اگرڈاکٹرمل بھی جایں تو دوا ملنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ملک میں لوگوں کی اکثریت کو صحت کی سہولتیں دستیاب نہیں۔ اٹھارویں ترمیم کے تحت وفاق کی سطح پر وزارت صحت کا خاتمہ کر دیا گیا تاہم عوام کو صحت کی بہتر سہولیات کی فراہمی کے لیے کوئی بڑا منصوبہ شروع نہ کیا جا سکا ، پاکستان کوپولیو فری ملک بنانے کاخواب بھی پورا نہ ہو سکا۔

Pakistan

Pakistan

بجلی کی عدم دستیابی نے پورئے ملک کو ایک اذیت میں مبتلا کیا ہوا ہے، ہمارئے نئے وزیربجلی فرمارہے ہیں کہ بجلی تو تین سال بعد ملے گی مگر 300 یونٹ سے جو زیادہ استمال کرئے گا اُسکو دیکھیں گے کھائے کہاں سے کیونکہ حکومت میں آنے سے پہلے ہمارا وعدہ تھا کہ عوام کو سہولت دینگے مگر حکومت میں آنے کے بعد ہماری پارٹی کی اکثریت کا فیصلہ ہے کہ جو قوم زرداری کی لوٹ مار اور غربت کو بڑھانے کے باوجود اسکو پانچ سال بغیر کسی چیخ و پکار کے برداشت کرسکتی ہے وہ بجلی کی قیمت کے اضافے کو بھی برداشت کرسکتی ہے، عوام کی اکثریت کے فیصلے کو تسلیم کرکے ہی ہم حکومت میں آئے ہیں ۔ اب پارٹی کے فیصلے پر عمل کرنے کا وقت ہے لہذا اسکی ایک جھلک بجٹ میں عوام کو دکھادی ہے۔باقی اور بھی بہت کچھ ہے اس 18 کڑوڑ سے زیادہ آبادی کےلیے، کہاں تک سنوگے ، کہاں تک سناوں۔

ڈریکولا کا جب بھی تصور کرو تو سامنے یہ ہی نظر آتا ہے کہ مظلوم انسان کا خون پیاجارہا ہے پاکستان میں اس خیالی کردار کو حقیقت کا روپ ملا اور ایک ڈریکولا سسٹم یعنی خون پینے والا سسٹم ، اور اس سسٹم کے زریعے ہی گذشتہ 65 سال سے پاکستان کے عوام کا خون پیا جارہا ہے۔ ملک کے جاگیردار، سرمایہ دار، بیوروکریسی ، جنرل اور سیاستدان سب ملکر عوام کا خون پیتے رہے ہیں اور پی رہے ہیں۔ مگر لگتا ہے بحیثیت پاکستانی قوم ہمیں بھی خون پلانے کی عادت ہو چکی ہے، ہم اپنی خوشی اور مرضی سے خون پینے والوں کو منتخب کرتے ہیں اور پھر اپنا خون پلا پلا کر انہیں پالتے ہیں ، تاکہ اگلی دفعہ بھی انہیں خون پینے والوں کو منتخب کر سکیں ۔لگتا ہے ہمیں پاکستانی ڈریکولا بہت پسند ہیں۔

ڈریکولاکی اصل کہانی یہ ہے۔برطانیہ کے ایک مصنف نے 1897 میں ’’ڈریکولا‘‘ کے نام سے ایک ناول لکھا اور 1950 میں اس ناول پر ڈریکولا کے نام سے ہی ایک فلم بنائی گئی۔ غالبا 1960 کی دہائی میں یہ فلم پاکستان میں بھی ریلیز ہوئی، یہ فلم ایک دہشت ناک فلم کے طور مشہور ہوئی، اس فلم کی دہشت کا حال یہ تھا کہ جس نے بھی اس فلم کو دیکھا وہ ایک دو دن لازمی خوف کے عالم میں ضرور رہتا تھا اور خاص طور پر ان جگہوں پر جانے سے کتراتا تھا جہاں اندھیرا ہوتا تھا۔ ’’ڈریکولا‘‘ ایک ایسا کردار تھا جو رات کے اندھیرے میں چادر اوڑھ کر نکلتا تھا اپنا شکار ڈھونڈتا اورپھر اس کی گردن میں اپنے دو لمبے دانت گاڑ کراپنے شکار کا خون پیتا تھا۔ وہ جب منہ کھولتا تھا تو اس کے دو لمبے دانت فلم بینوں کو دہشت زدہ کردیتے تھے۔ ڈریکولا کے کردار کو لوگ “خون آشام بھڑیئے” سے مشابہ کرتے ہیں۔ یہ کردار ہالی وڈ کے معروف اداکارکرسٹوفرلی نے اداکیا تھا۔ بعد میں ’’ڈریکولا‘‘ کے نام سے کچھ اور فلمیں بھی بنیں اور ان سب نے کامیابی حاصل کی۔

کرسٹوفرلی نے ’’ڈریکولا‘‘ کے علاوہ کئی اور کردار ادا کیے لیکن لوگ ابھی تک اُسے ’’ڈریکولا‘‘ کے حوالے سے ہی جانتے ہیں۔ اُس نے جیمزبونڈ فلم ”دی مین ووتھ گولڈن گن“ میں بھی راجر مور کے مقابل ولن کا کردارادا کیا تھا۔ تقریبا 14 سال قبل قائداعظم محمد علی جناح کے حوالے سے”جناح” کے نام سےایک فلم بنائی گئی اس میں کئی بین الاقوامی اداکاروں نے کام کیا جس میں کرسٹوفرلی نے قائداعظم کا مرکزی کردار ادا کیا۔ جب پاکستان میں یہ فلم ریلیز ہوئی تو مختلف حلقوں نے اس بات پر بھرپور احتجاج کیا کہ ’’ڈریکولا‘‘ کا کردار ادا کرنے والے کرسٹوفرلی کوقائداعظم کا کردار ادا کرنے کیلئے کیوں منتخب کیا گیا کیونکہ کرسٹوفرلی کاامیج ایک خون آشام شخص کے حوالے سے پہچانا جاتا ہے۔ معاملہ جب زیادہ بڑھا تو کرسٹوفرلی خود پاکستان آیا اوراس نے وضاحت کی کہ وہ ایک اداکار ہے اور اس حوالے سے ہرقسم کے کردار ادا کرنا اس کی پیشہ وارانہ زندگی کا حصہ ہے۔ اس نے پاکستانی فلم شائقین سے درخواست کی کہ اسے ’’خون آشام بھیڑیا‘‘ نہ سمجھا جائے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان میں بھی ساٹھ کی دہائی میں “زندہ لاش” کے نام سے ایک فلم بنائی گئی۔ جو ’’ڈریکولا‘‘ سے متاثر ہو کر بنائی گئی تھی۔ اس میں اداکار ریحان نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ ایک بات نوٹ کرلیں کہ ’’ڈریکولا‘‘ نام کا کوئی شخص دنیا میں موجود نہیں یہ صرف ایک خیالی کردار تھا جسکا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں۔

Syed Anwer Mahmood

Syed Anwer Mahmood

تحریر: سید انور محمود