بیگم کلثوم نواز کی میت پاکستان آنے پر نواز شریف، مریم اور کیپٹن صفدر کو پیرول پر رہائی دی گئی اس پر کچھ لوگوں نے تنقید کی کہ پاکستان میں عام طور پر قیدیوں سے جو سلوک روا رکھا جاتا ہے وہ ان کے ساتھ کیوں نہیں ہوا عام قیدی تو اپنی ماں کے مرنے پر بھی ہتھکڑیوں سمیت چند گھنٹوں کے لیے پیرول پر رہا کیے جاتے ہیں لیکن ان کو نہ صرف خصوصی طیارے مہیا کیے گئے بلکہ مزید توسیع بھی دی گئی اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک بہت مربوط ڈرامہ تشکیل پا گیا سعودی سفیر کا ملنا اس میں رنگ بھر گیا اور سر شام ہی سوشل میڈیا پر ایک تحریر وائرل ہو گئی جس میں لکھا تھا۔
سعودی سفیر کی جاتی امرا میں نواز شریف سے ملاقات نواز شریف کی اگلی مستقل منزل اب اڈیالہ نہیں لندن ہے پیرول کے دوران ہی نواز شریف اور مریم کو عدالت ضمانت پر رہا کر دے گی جس کے نتیجے میں دونوں باپ بیٹی دس سال کے لیے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لیں گے اس دس سالہ ڈیل کے دوران نواز شریف اور مریم کو پاکستان میں کسی بھی قسم کا سیاسی تماشہ لگانے کی اجازت نہ ہوگی ورنہ نواز شریف کے اقبالی بیان کی وڈیو جاری کر دی جائے گی جس میں وہ کرپشن کا اعتراف کرتے پایا جائے گا یہ وڈیو بیان ادارے ریکارڈ کر چکے ہیں جبکہ شہباز شریف کے کیسز بدستور ایسے ہی چلتے رہیں گے۔
لیکن رکیں جناب یہ رہائی کوئی مفت میں نہیں ہو رہی بلکہ اس رہائی کی قیمت دس ارب ڈالر ہے جو کہ شریف خاندان کی لوٹی ہوئی دولت سے بذریعہ سعودی عرب پاکستان کے خزانے میں جمع کروائے جائیں گے اور نام لگایا جائے گا کہ سعودی بادشاہ سلمان نے پاکستانی قوم کو بیل آئوٹ پیکج سے نوازہ ہے جبکہ حقیقت میں یہ دس ارب ڈالر پاکستان کا ہی لوٹا گیا مال ہے جو ہمیں اس ذریعے سے واپس ملنا نصیب ہوگا اس طرح لوٹی ہوئی دولت واپس لینے کا عمران خان کا ایجنڈا بھی شریفوں کے دس ارب ڈالر واپس لے کر پورا ہو جائے گا اور اس کے بعد تسلی سے زرداری اور اسحاق ڈار پر ہاتھ ڈالا جائے گا دس ارب ڈالر کا مطلب ہے بارہ سو ارب روپیہ جو کہ اس وقت پاکستان کی اشد ضرورت ہے۔
کیونکہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے پاس جانے کا حکومت کا کوئی ارادہ نہیں اور نہ ہی وہ ہمیں قرضہ دینے کو تیار ہیں اللہ پاک نے پاکستانی قوم پر رحم فرما دیا ہے نواز شریف تمام عمر بھی جیل میں سڑتا رہے تو ایک روپیہ حاصل نہ ہوگا الٹا کروڑوں روپے ان پر خرچ ہو جائے گا بہتر یہی ہے اس قومی مجرم کو ملک سے نکال کر اپنی لوٹی گئی دولت واپس حاصل کی جائے۔
یہ تھی وہ تحریر جو سوشل میڈیا پر جنگل کی آگ کی طرح پھیلائی گئی حتی کہ بیرون ممالک سے میری کچھ دوستوں اور عزیز و اقارب نے بھی سینڈ کر کے مجھ سے تصدیق چاہی میں نے انہیں یہی جواب دیا کہ مجھے نہیں معلوم اس کا محرک کون ہے اور اس کا مقصد کیا ہے لیکن جس کو فائدہ ہوگا یہ اسی کی کارستانی ہو گی اور میں دیکھ رہی تھی کہ اس کا فائدہ نون لیگ کو ہو رہا تھا عام پاکستانی تو پہلے ہی مشرف این آر او کی وجہ سے ابھی تک متنفر ہے لوگ برملا کہتے ہیں نہ مشرف انہیں چھوڑتا نہ یہ پاکستان پر دوبارہ مسلط ہوتے گو ان عقل کے اندھوں کو یہ سمجھانے والا کوئی نہیں کہ مشرف نے یہ تو نہیں کہا تھا انہیں ووٹ دو لیکن اس کا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ ووٹ تو نون لیگ ہمیشہ دھاندلی سے لیتی ہے ہم تو نہیں دیتے۔
اور اس میں کوئی مبالغہ بھی نہیں بیورو کریسی ،الیکشن کمیشن ،نیب عدلیہ ہر جگہ انہوں نے اپنے بندے بٹھائے ہوئے ہیں تیس چالیس سال ملک کو لوٹنے اور اپنے ذاتی غلام بنانے کے سوا انہوں نے کیا ہی کیا ہے ایسے میں اس تحریر نے لوگوں کو ہیجان میں مبتلا کر دیا ابھی یہ آگ ٹھنڈی نہ ہوئی تھی کہ اڑتالیس گھنٹے کے اندر تینوں مجرموں کی رہائی کی خبر آ گئی گو سوشل میڈیا پر یہ افواہ بھی تین چار ہفتے قبل گردش کر رہی تھی کہ جسٹس اطہر من اللہ ان کو رہائی دینے والے ہیں لوگوں نے کڑی سے کڑی بھی جوڑ لی کہ اطہر من اللہ پیر صابر شاہ کے بھانجے ہیں جو نون لیگ کے بہت قریب سمجھے جاتے ہیں اور ساتھ ہی سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی باقیات بھی ہیں جن کو عام عوام سخت نا پسند کرتی ہے لہذا جہاں نواز شریف ،مریم اور صفدر کی رہائی پر کلثوم نواز کی تازہ تازہ فوتگی اور آٹھ محرم کے سوگ کو نظر انداز کر کے ڈھول تاشے اور بھنگڑوں کا اہتمام کیا وہاں دوسری طرف انصاف کی اس نا قدری پر صف ماتم بچھی ہوئی تھی یقنا لوگ اس بات سے پریشان تھے کہ پاکستان میں تبدیلی تو نہ آئی قانون آج بھی طاقتور کے لیے موم ہے جبکہ عام اور کمزور لوگوں کے لیے ویسا ہی سخت تو پھر فائدہ کس کو ہوا ؟ رہی سہی کسر ان تصویروں نے نکال دی جس میں جیل سپرنڈنٹ کے دفتر میں عمر قید کی سزا پانے والا ایفی ڈرین کیس کا مجرم بھی سفید لباس زیب تن کیے مٹھائیاں کھا رہا ہے رہائی پانے والے مجرموں کے ساتھ (اب سنا ہے کہ اس کے لیے ایک کمیٹی قائم کر دی گئی ہے جو اس لا قانونیت کا جائزہ لے گی جیل سپرنڈنٹ سے جواب طلب ہوگا )عمران خان کے دورے سے واپس آنے تک مخالفین جتنی گرد اڑا سکتے تھے۔
انہوں نے اڑائی اور زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا لیا یوں سمجھ لیں مردہ گھوڑے میں جان پڑ گئی ہم بھی منتظر تھے کہ دیکھیں کیا ظہور میں آتا ہے لیکن اب کہانی کچھ اور نکلی ہے کہ سی پیک کے لیے تیسرا پارٹنر سعودی عرب بننے کو تیار ہے بہت سی خوش خبریاں قوم کو سنائی گئی ہیں جس میں خارجہ پالیسی کی حد تک مثبت تبدیلیاں ہیں مثلا برطانیہ سے کرپشن اور قیدیوں کے تبادلے پر نیا معاہدہ،افغانستان کا خصوصی دورہ ،سعودی عرب اور عرب امارات کا اہم دورہ بڑی سرمایہ کاری متوقع ،انڈیا کو مذاکرات کی پیش کش ۔۔۔۔۔جو کام پچھلے دس سال سے نہیں ہوئے پچییس دنوں میں یہ پیش رفت بری نہیں اور اہم بات یہ ہے کہ یہ کام غلامی اختیار کیے بغیر کیے گئے ہیں اور سعودیہ نے اعلامیہ میں وزیر اعظم کی سادگی اور بناوٹ سے پاک شخصیت کی تعریف بھی کی ہے سعودیہ میں پرتپاک استقبال کے علاوہ وزیر اعظم عمران خان کے حصے میں کچھ سعادتیں بھی آئی ہیں جن میں کعبہ کے اندر اس جگہ پر نفل پڑھے جہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد نوافل ادا کیے تھے ننگے پائوں روضہ رسول کی حاضری بھی نصیب ہوئی بحرحال یہ چیزیں تو اللہ اور بندے کے درمیان ہوتی ہیں لیکن پاکستان کے لیے جو کوششیں عمران خان کر رہے ہیں اس پر قوم یقینا انکی شکر گذار ہوگی گو ان کے لیے مشکلات کے پہاڑ کھڑے کیے جا رہے ہیں پیسے سے خریدی گئی رکاوٹیں کس حد تک انہیں ثابت قدم رکھتی ہیں یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا ہم تو صرف دعا ہی کر سکتے ہیں !