وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف صاحب نے عمران خان کی طرف سے الیکشن میں دھاندلی کی تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ کا تین رکنی کمیشن تشکیل دینے کا اعلان کر دیا ہے ۔اگرچہ وزیر اعظم صاحب کو یہ اعلان کافی پہلے کر دینا چاہیے تھا کیونکہ اب کہا جا سکتا ہے (بہت دیر کر دی مہرباں آتے آتے ) لیکن دیر آئے درست آئے کے مصداق وزیراعظم صاحب کا یہ اعلان مدبرانہ ہے۔لیکن دوسری طرف عمران خان صاحب نے یہ تجویز یکسر مسترد کر تے ہوئے کہا ہے کہ پہلے وزیر اعظم مستعفی ہو ں اور اس کے بعد سپریم کورٹ ایک بورڈ تشکیل دے جو 2013 کے الیکشن میں ہونے والی دھاندلی کی تحقیقات کرے ،ان کا یہ مطالبہ بھی سامنے آیا ہے ملک میں ٹیکنوکریٹس کی حکومت قائم کر کے ملک میں دوبارہ الیکشن کروائے جائیں ۔خان صاحب کے اس مطالبے پر کہا جا سکتا ہے کہ بلی اب تھیلے سے باہر آ گئی ہے ۔اور خان صاحب کے اصل ارادے بھی سامنے آ گئے ہیں کے وہ دھاندلی کو جواز بنا کر حکومت کو گھر بھیجنا چاہتے ہیں۔
مشہور کہاوت ہے کہ ہاتھی کے دانت دیکھانے کے اور اور کھانے کے اور۔اسی طرح خان دکھانے کیلئے تو دھاندلی کا شور مچا رہے رہے تھے لیکن اب جب حکومت کی طرف سے اس پر آمادگی ظاہر کی جا رہی ہے تو وہ کسی اور ٹریک پر چل پڑے ہیں ۔اور ان کے ارادوں کو بھانپتے ہوئے پی ٹی آئی کے صدر جاوید حاشمی صاحب نے ایک بار پھر علم بغاوت بلند کر دیا ہے اور وہ آزادی مارچ کی تیاریاں ادھوری چھوڑ کر ملتان چلے گئے ہیں ۔خان صاحب کے کزن اور سابقہ پی ٹی آئی کے رہنما انعام اللہ نیازی نے ایک ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم کی پیشکش اور عمران خان کی طرف سے اس پیشکش کو مسترد کرنے کے بعد یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ خان صاحب کا ایجنڈہ کوئی اور ہے۔
حکومت کو بھی چاہیے تھا کہ وہ خان صاحب کے چار حلقے کھولنے کا مطالبہ پہلے ہی پورا کر دیا جاتا ،حالا نکہ چار حلقے کھول دینے سے بھی کوئی خاص فرق پڑنے والا نہیں تھا کیوں کہ خان صاحب کو نہ تو حکومت پر اعتماد ہے ،نہ الیکشن کمیشن پر ،اور نہ ہی عدالتوں پر، ایسی صورت حال میں خان صاحب نے چار حلقوں کے نتائج کو کسی بھی صورت تسلیم نہیں کرنا تھا ،اب خان صاحب یہ کہہ تو رہے ہیں کہ سپریم کورٹ ایک بورڈ تشکیل دے جو الیکشن میں دھاندلیوں کے حوالے سے تحقیقات کرے ،لیکن اگر اس بورڈکی رپوٹ بھی خان صاحب کی خوہش کے مطابق نہ آئی تو خان صاحب یہ کہنے میں ذرا برابر بھی دیر نہیں کریں گے کہ یہ بورڈ بھی شریف برادران کے ساتھ مل گیا ہے ۔بظاہر تو خان صاحب کہہ رہے ہیں کے وہ جمہوریت کو ڈی ریل نہیں کرنا چاہتے لیکن ہمارے سیاستدان جو کہتے ہیں حقیقت بالکل اس کے بر عکس ہوتی ہے۔
خان صاحب موجودہ حکومت کے خاتمے کیلئے کسی حد تک بھی جانے کیلئے تیا ر ہیں ۔کیوں کہ انہوں نے مذکرات کی ہر کوشش کو رد کر دیا ہے اور وہ بضد ہیں کہ وہ اسلام آباد لازمی جائیں گے اور وزیر اعظم کے استعفے تک وہاں سے نہیں اٹھیں گے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خان صاحب کے پاس کیا اخلاقی جواز ہے کہ وہ لانگ مارچ کر کے وزیر اعظم پر استعفی دینے کیلئے دبائو ڈالیں ؟حالانکہ پارلیمان میں وزیراعظم صاحب کو اکثریت حاصل ہے ۔قانونی طریقہ تو یہ ہے کہ پی ٹی آئی پارلیمنٹ میں وزیر اعظم صاحب کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائے لیکن خان صاحب وزیراعظم صاحب کو ہٹانے کی تحریک سڑکوں پر لے آئیں ہیں ۔ وافاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید صاحب نے گذشتہ روز احسن اقبال صاحب کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایک سابقہ سپائی ماسٹر آزادی مارچ اور انقلاب مارچ کی پشت پنائی کرر ہے ہیں ۔ اسطرح کی خبریں میڈیا پر بھی گردش کر رہی ہیں لیکن پی ٹی آئی کی جانب سے اس کی تردید کی جا رہی ہے ۔ جمہوریت میں احتجاج ہر جماعت کا حق ہوتا ہے لیکن ایسا احتجاج جس سے قوم کے تقسیم ہونے اور انتشار پھیلنے کا خدشہ ہو ایسے احتجاج سے گریز کیا جانا چاہیے۔دوسری طرف طاہر القادری صاحب نے بھی 14اگست کو انقلاب مارچ کا اعلان کر رکھا ہے۔
Tahir ul Qadri
اب قادری صاحب کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کسی آئین کو ماننے کی بجائے پورا سسٹم ختم کر کے انقلاب لانا چاہتے ہیں ،وہ انقلاب کیسا ہو گا ؟اس کے خدو خال کیا ہوں گے؟ اس کا تو قادری صاحب کے علاوہ کسی کو علم نہیں ہے۔قادری صاحب مسلسل کئی روز سے اشتعال انگیز تقریریں کر رہے ہیں ،یوم شہدا کے موقع پر تو انہوں نے یہاں تک کہہ دیا تھا کے جو اسلام آباد سے انقلاب کے بغیر واپس آئے اسے بھی قتل کر دیا جائے ۔البتہ اگلے دن انہوں نے اس بیان کی وضاحت فرماتے ہوئے کہا کہ میںنے یہ بات صرف مذاق میں کہی تھی ۔حکومت پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ وہ قادری صاحب سے انتظامی بنیادوں پر نمٹے گی ۔اب کچھ بات ہو جائے اس ساری صورت حال پر حکومتی اقدامات کی تو حکومت کی طرف سے اب تک لانگ مارچ اور انقلاب مارچ کو لے کر جو حکمت عملی وضع کی گئی ہے وہ حکومت کو غیر مقبولیت کی طرف لے جا سکتی ہے۔ حکومتی اقدامات کی وجہ سے عام آدمی کو انتہائی دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔پورے پنجاب کی اہم شاہرئوں کو کنٹینرز رکھ کر بند کر دیا گیا ،لوگ محصور ہو کر رہ گئے ہیں عام آدمی کی نقل حرکت بری طرح متاثر ہو رہی ہے ۔مریضوں ،ایمبولینس ،اور شادی کی باراتوں کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔پنجاب کے مختلف شہروں میں پٹرول کی بندش نے لوگوں کی پر یشانیوں میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔
ان حکومتی اقدامات کی وجہ سے وہ لوگ جو آزادی اور انقلاب مارچ کے مخالف ہیں وہ بھی ان حکومتی اقدامات کی وجہ سے حکومت سے نالاں نظر آتے ہیں ۔لاہور ہائی کو رٹ نے اپنے ایک فیصلے میں حکومت کو حکم دیا ہے کہ وہ فوری طور پر شاہرائوں پر لگائے گئے کنٹینر ز ہٹاے،آخری خبریں آنے تک حکومت نے ہائی کورٹ کے اس فیصلے پر نظر ثانی کی اپیل دائر کر دی ہے ۔آزادی مارچ اور انقلاب مارچ اب اپنے فائنل رونڈ میں پہنچ چکے ہیں،لگتا تو یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے خان صاحب کو لانگ مارچ کرنے کی اجازت دے دی جائے گی لیکن ہو سکتا ہے۔
ان کو اسلام آباد میں داخلے کی اجازت نہ ملے یا انہیں اسلام آباد میں داخل نہ ہونے دیا جائے ۔جبکہ قادری صاحب کے بارے میں حکومت کا موقف اس کے بر عکس ہے ،ہوسکتا ہے قادری صاحب کو تو ان کی رہائش گاہ سے ہی نہ نکلنے دیا جائے۔ مجھے لگتا ہے اس تمام صورت حال کے بعد بھی مارشل لا کا خطرہ نہیں ہے لگتا تو یہی ہے کہ اس بار جمہوریت ڈی ریل نہیں کی جائے گی بصورت دیگر حالات اس قدر خراب نہ کر دئیے جائیں کہ تیسری قوت کو معاملات اپنے ہاتھ میں لینے پڑیں۔ اور یہ بات تو تہہ ہے کہ خان صاحب کو وہاں پہنچ کر بھی معاملات مذکرات کے ذریعے ہی حل کرنا پڑیں گے ،کیا ہی اچھا ہوتا کہ معاملات لانگ مارچ کے بغیر ہی افہام و تفیہم سے حل کر لیے جاتے۔