اس بات سے قطع نظر کہ عوام کو کیا ملا ؟ ملک نے کیا کھویا ؟ عام آدمی کن مسائل و مصائب سے دوچار ہے؟ آج ہم اقوام عالم میں کس مقام پر کھڑے ہیں؟ حکمرانوں کے لئے گئے قرضے ہماری کتنی نسلیں اورکس طرح سے چکا پائیں گی ؟ ہم بیرونی اداروں اور قوتوں کے کس حد تک محتاج و غلام بن چکے ہی؟ حکمرانوں نے ہمیں کہاں پہنچا دیا ہے اور ہمارا مستقبل کیا ہوگا ؟
یہ ایک حقیقت ہے کہ تمام تر دانشوروں کی دانشمندی ‘ تجزیہ نگاروں کی فہم و فراست اور پیشنگوئی کرنے والوں کے مؤکلوں کو شکست فاش ہوچکی ہے اور پاکستان میں تقریباً ہر شعبے میں ریکارڈ ز قائم کرنے والی حکومت آئینی مدت کی تکمیل کے حوالے سے بھی ریکارڈ قائم کرنے میں کامیاب ہوکر اپنی آئینی مدت کی تکمیل کے بعد آئینی طریق کار جے تحت تحلیل ہوچکی ہے …نگراں سیٹ اپ کے قیام کیلئے اتفاق رائے کے نام پر جوڑ توڑ اور لین دین کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔
حکومت کی کوشش ہے کہ اس سے محبت کرنے والے افراد پر مشتمل نگراں حکومت تشکیل پائے جبکہ اپوزیشن کی خواہش ہے کہ اسے فائدہ پہنچانے والے اقتدار میں آئیں تاکہ پانچ سالہ انتظار اور آٹھ سالہ جلاوطنی کا کچھ تو ازالہ ممکن ہو ۔یہی وجہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے مابین ”انڈر دی ٹیبل ” والا جو رشتہ قائم تھا اب وہ ختم ہے اور لین دین کے معاملات مفادات کے تنازعات کا شکارہوچکے ہیں یہی وجہ ہے کہ اسمبلیاں تحلیل ہونے کے باوجود ابھی تک نگراں وزیراعظم کے حوالے سے کسی نام پر اتفاق نہیں ہوسکا ہے۔
حکومت و اپوزیشن کی رسہ کشی کے باعث نگراں وزیراعظم کے تقرر کا ”وقت و اختیار”حسب اقتدار اور حزب اختلاف کے ہاتھ سے پھسلتا ہوا الیکشن کمیشن کے ہاتھ میں جارہا ہے اور اگر الیکشن کمیشن آئینی اختیارات کے تحت نگراں وزیراعظم کا نام خود تجویز کرنے پر مجبور ہوئی تو پھر یہ نام تجربہ کار و کہنہ مشق اور دیانتدار و غیر جانبدار سیاستدان معراج محمد خان کا ہی ہوگا کیونکہ معراج محمد خان کی کبھی بھی فوج یا فوجی حکمرانوں سے بنی نہیں اور سیاستدانوں کی سودے بازی سے وہ ہمیشہ سے نالاں و خائف ہیں اسلئے اگر معراج محمد خان کی سربراہی میں نگراں حکومت تشکیل دی گئی توانتخابات کی شفافیت اور انتخابات کے بعد انتقال اقتدار ہر قسم کی الزام تراشی اور تحفظات سے محفوظ ہوگا۔
Army
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک جانب معراج محمد خان سیاست میں فوجی مداخلت کے مخالف ہیں وہیںوہ فوج کی ہمدردیوں سے بھی محروم ہیں جبکہ تیرہ سال سے اقتدار کی بھوک سے بلکنے اور پانچ سال سے لاٹری میں ملنے والے اقتدار کے مزے لوٹنے والے دونوں ہی ملک میں شفاف انتخابات نہیں چاہتے اسلئے معراج محمد خان کا نام بطور نگراں وزیراعظم تب ہی سامنے آئے گا جب الیکشن کمیشن اپنی آئینی ذمہ داری نبھائے گا۔
سیاسی جماعتوں نے انتخابات کی تیاریاں شروع کردی ہیں ایک جانب سیاستدانوں کی ”لوٹا مشق ” شروع ہوچکی ہے تو دوسرے جانب ”گھوڑے خریدنے ” اور ”ضمیر بیچنے والے ” بھی اپنی اپنی چھابڑیاں لگاچکے ہیں ۔ علیحدہ علیحدہ مزاج ‘ خصوصیات ‘ خصلیات ‘مفادات کے حامل سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کو ایک ڈرائنگ روم میں جمع کرنے کا کارنامہ انجام دینے والے میاں صاحب اس اجتماع کو اپنے حق میں کامیابی سے استعمال کرنے کے بعد سندھ اور بلوچستان میں اپنا حق نمک تلاش کرنے نکلے تو انہیںسندھ میں قوم پرست حق نمک کی ادائیگی کیلئے کمربستہ و تیارنظر آئے ہیں جبکہ بلوچستان میں پانچ سال تک عوام کو لوٹنے اور سرکاری مال پر عیش کرنے والے اب رائے ونڈ فارم میں آرام کرنے کے خواہشمند دکھائی دے رہے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ میاں صاحب کو توقع ہے کہ پیپلز پارٹی انتخابات میں ان کا کچھ بگاڑنے کی پوزیشن میں نہیں ہے مگر متحدہ قومی موومنٹ کے حوالے سے میاں صاحب کا سخت رویہ اس بات کا مظہر ہے کہ متحدہ کی سندھ کے بعد کشمیر ‘ گلگت بلتستان اور اب پنجاب کی جانب پرواز انہیں ایک آنکھ نہیں بھائی ہے۔
اسلئے قرائن بتارہے ہیں کہ پنجاب میں متحدہ کا راستہ روکنے اور سندھ میں قوم پرستوں کے ساتھ متحدہ کے معاملات کو مزید بگاڑنے کیلئے ”اردو صوبہ تحریک ” کو ایک بار پھر جلا بخشی جائے گی یا پھرماضی کی طرح ایک بار پھر مہاجر و سندھی یا مہاجر و پنجابی محاذ آرائی بھی دکھائی دے سکتی ہے جبکہ12مئی سازش کے ذریعے پشتون و مہاجروں کے درمیان جو حد فاصل کھیچی گئی تھی دونوں جانب سے بھرپور کوششوں اور نیک نیتی کے باجود وہ بھی اب تک نہیں مٹ پائی ہے۔
سابق صدر پاکستان پرویز مشرف کئی بار کی وعدہ خلافیوں کے بعد اس بار اپنے وعدے کے مطابق 24مارچ کو ہی ارض پاک پر اترنے پر مصر دکھائی دے رہے ہیں ‘ ان کے اس اصرا پر بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ پرویز مشرف کے معاملات مقتدر حلقوں کے ساتھ سیٹل ہوچکے ہیں اور وہ قومی سیاست یا دوسرے لفظوں میں” نگراں حکومت” میں اہم اورکلیدی کردار ادا کرنے پاکستان تشریف لارہے ہیںکیونکہ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ قومی انتخابات نہیں ہونگے بلکہ نگراں حکومت کی مدت میں 3سے 5سال کی توسیع ممکن ہے اور اسی توسیع شدہ نگراں حکومت میں پرویز مشرف کو بھی پھر سے اقتدار مل جائے گا۔
Musharraf
بعض صحافتی حلقے ان اطلاعات پر بھی قلم نگاری کررہے ہیں کہ دبئی میں عربوں کی مہربانی سے مشرف اور میاں صاحب کی ملاقات ہوچکی ہے اور وسیع تر مفاد میں دونوں صاحبان ضامنوں کی ضمانت پر وقتی طور پر گلے شکوے بھلانے اور ایک دوسرے کی مخالفت سے اجتناب کا وعدہ بھی کرچکے ہیں اسی لئے مشرف کی وطن واپسی کے اعلان کے بعد میاں صاحب کی جانب سے وہ سخت رد عمل و رجحان سامنے نہیں آرہا جس کی توقع کی جارہی تھی۔
کچھ حلقے مشرف کی واپسی کے فیصلے کو خود کشی سے تعبیر کررہے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں سابق آرمی چیف کی حیثیت سے مشرف کا عوام میں رہنا ‘ عوام سے رابطہ رکھنا ‘ میڈیا کے سوالات کی نوک پر رہنا اور بیرون ممالک وسیع تعلقات رکھتے ہوئے بیرون ملک طویل قیام پاکستان کیلئے سیکورٹی رسک ثابت ہوسکتا تھا کیونکہ بحیثیت سابق آرمی چیف وہ ایسے بہت سے رازوں کے امین ہیں جن کی نقاب کشائی مسائل و مصائب میں اضافے کا باعث بن سکتی ہے اسلئے منظم منصوبے کے تحت انہیں پاکستان لایا جارہا ہے اور ان کے پاکستان پہنچتے ہی وہ تمام معاملات شروع ہوجائیں گے جن کی وجہ سے مشرف طویل عرصہ سے کئی وعدوں کے باجود پاکستان واپسی سے گریزاں رہے ہیں۔
اس بات سے قطع نظر کہ مشرف کو واپسی کیلئے کس نے اور کیا ضمانت دی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ سیاست کی بساط پر آل پاکستان مسلم لیگ کی حیثیت اس پیادے سے زیادہ نہیں جو بہ مشکل دو تین گھر ہی چل پاتا ہے اور اس کے بعد پٹ جاتا ہے کیونکہ آل پاکستان مسلم لیگ کے عہدوں پر ناتجربہ کار و غیر سیاسی افراد جو کل تک سائیکل کی سواری سے محروم تھے اور آج جدیدماڈل کی پرتعیش و مہنگی ترین گاڑیوں کے مالک بنے بیٹھے ہیں مشرف کی زندگی بھر کی جمع پونجی کو بنا عقل و دانش جس طرح تلف کرارہے ہیں۔
وہ اس بات کو ثابت کررہا ہے کہ آل پاکستان مسلم لیگ کی سیاسی زندگی بہت زیادہ طویل نہیں ہے۔ اربوں روپے کے مفادات اٹھانے والے آل پاکستان مسلم لیگ کے” آج کے وفادار عہدیدار” پارٹی پر معمولی سا براوقت آتے ہی اپنے اپنے گاؤں کو لوٹ جائیں گے اور تمام پریشانیوں سے پرویز مشرف اکیلے ہی لڑتے نظرآئیں گے۔
اس بات کی حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پرویز مشرف کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی اور کوشش کرنے والے مشرف مخالفوں کا اثرو رسوخ پاکستان میں پہلے کی نسبت بہت بڑھ چکا ہے اور وہ پہلے سے کہیں طاقتور ‘ فعال ‘ منظم اور جدید سہولیات سے مسلح و مزین ہیں اسلئے ان کیلئے مشرف کو نشانہ بنانا کوئی بہت مشکل کام نہیں ہوگا جبکہ کبر بگٹی کے ورثاء مشرف کو ان کا قاتل ہی قرار نہیں دے رہے بلکہ ان کی جانب سے بھی مشرف کے سر کی قیمت بھی لگائی جاچکی ہے۔
Armey Chief
ان حالات میں وطن واپسی سے قبل مشرف کو اس بات پر ضرور غور کرلینا چاہئے کہ اب نہ تو وہ پاکستان کی مسلح افواج کے سربراہ ہیں ‘ نہ صدر پاکستان کے عہدے پر متمکن ہیں اور نہ ہی ان کے پاس وہ سرکاری وسائل اور فول پروف سیکورٹی موجود ہے جس کی مدد سے وہ دوبار اپنے اوپر ہونے والے قاتلانہ حملوں میں محفوظ رہے ہیں ۔ یہ ٹھیک ہے کہ اپنے دور اقتدار میں عوام کو ریلیف کی فراہمی کے ذریعے انہوں نے عوا م میں مقبولیت و مقام تو ضرور حاصل کرلیا ہے مگر ”ابھی ” عوام کے دلوں میں مشرف کیلئے وہ جگہ نہیں ہے کہ لوگ انہیں بچانے کیلئے اپنی جانیں قربان کرنے نکل آئیں۔
اسلئے اب پرویز مشرف کو ہر قدم سوچ ‘ سمجھ کر ‘ عقل و دانش سے اور پھونک پھونک کر رکھنا ہوگا ! وطن واپسی سے قبل پرویز مشرف کو یہ ضرور سوچ لینا چاہئے کہ آل پاکستان مسلم لیگ جن لوگوں پر مشتمل ہے ان میں نہ تو کوئی اتفاق ہے اور کسی قسم کا اتحاد اور سیاسی جماعت کیلئے جس ”تنظیم” یعنی…” ڈسپلن ” …کی ضرورت ہوتی ہے مشرف اب تک آل پاکستان مسلم لیگ میں اس کا بیج بونے تک میں ناکام رہے ہیں اور وہ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ آل پاکستان مسلم لیگ انہیں ایوان اقتدار میں پہنچانا تو کجا ان کی اپنی سیٹ پر انہیں فاتح بنانے کی حیثیت و اہلیت سے بھی محروم ہے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی یقینی کامیابی کیلئے کراچی میں کسی اور سے ”راہداری” اور” انتخاب لڑنے” اور” یقینی کامیابی” کیلئے ایک ”سیٹ ” مانگی ہے۔ ایسی صورتحال میں محض وعدوں اور ضمانتوں پر سر کٹانے اور جان گنوانے کیلئے پاکستا ن واپسی کا فیصلہ ہوشمندی کی علامت کسی طور نہیں کہلایا جاسکتا اور جو فیصلے ہوش سے نہیں جوش کئے جاتے ہیں ان کے نتائج بہت کم فائدہ مند ثابت ہوتے ہیں بصورت دیگر جوش کے فیصلوں کے مضمرات کے باعث ہی یہ مقولہ عرف عام ہے کہ ” جوش کی بجائے ہوش سے کام لینا چاہئے ”۔ تحریر : عمران چنگیزی