تحریر : سید سبطین شاہ گذشتہ روز پاکستان کے دورافتادہ علاقے گلگت ۔بلتستان سے افسوس ناک خبر موصول ہوئی کہ ناروے اور فلپائن کے سفراء سمیت چھ افراد ایک ہلی کوپٹر حادثے میں وفات پاگئے۔ انسانی ہمدردی کے علاوہ یہ خبراس لئے بھی انتہائی افسوس ناک تھی کہ ناروے ایک ایسے سفیر سے محروم ہوگیا جو واقعاً دوطرفہ تعلقات کو فروغ دیناچاہتاتھے اورگلگت کا دورہ بھی ان کی اس طرح کی کوششوں کا ثبوت تھا آنجہانی نارویجن سفیر کے نام کا اگرنارویجن زبان میں تلفظ کیاجائے تو یہ دوالفاظ ’’لائف لارشن ‘‘ پر مشتمل ہے لیکن انگریزی اسے ’’لیف لارسن‘‘ کہیں گے۔ بہرحال ان کی موت ناروے اور پاکستان دونوں کے لیے ایک بڑانقصان ہے۔ان کی موت کی خبرمجھے ناروے سے ملی۔ راقم کے دوست نوردادخان جو ایک کاروباری شخصیت ہیں ، نے اوسلوسے فون کرکے بتایاکہ گلگت میں ایک ہیلی کوپٹر حادثے میں پاکستان میں نارویجن سفیر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
مسٹر لیف لارشن جس تیزی سے دوطرفہ تعلقات کو فروغ دے رہے تھے ، ان کی موت سے اس کام میں یقیناًکمی واقع ہوجائے گی لیکن وہ پاکستان میں ناروے کے دیگر سفارتکاروں کے لیے اپنی کارکردگی کا نمونہ چھوڑگئے ہیں تاکہ وہ بھی انہی کی طرح اس کام کو آگے بڑھاسکیں۔ نارویجن سفارتخانے کی ویب سائیٹ پر آنجہانی سفیر کی طرف سے دئیے ناروے اور پاکستان کے تعلقات کے بارے میں موجود تاثرات انتہائی متاثرکن ہیں۔ ان کلمات سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ وہ اپنے کام میں کتنے سنجیدہ اور پرعزم تھے اور انھوں نے کون سے رہنماء اصول اپنے پیچھے چھوڑے ہیں؟ ان کا کہناتھا، ’’میں اور سٹاف دونوں ملکوں کے تعلقات کو فروغ دینے اوران نارویجن اور پاکستانی لوگوں کی خدمت کے لیے یہاں موجودہیں جنہیں ہماری مدد کی ضرورت ہے۔میرے لیے شرف کی بات ہے کہ میں آپ کے خوبصورت ملک (پاکستان) میں خدمات انجام دے رہاہوں
جہاں میں بہت سے لوگوں سے ملاہوں جو میرے ملک میں بہت دلچسپی لے رہے ہیں ناروے اورپاکستان کے تعلقات اس وقت سے مضبوط ہوناشروع ہوئے جب ستر کی دہائی میں پہلے پہلے پاکستانیوں نے ناروے کو اپنا گھربنانے کا فیصلہ کیا۔‘‘ ان تاثرات سے پتہ چلتاہے کہ وہ ایک کہنہ مشق سفارتکار تھے ۔ ان کے کوائف کے مطابق، وہ مختلف ممالک میں تعینات رہے اورپاکستان میں سفارتی خدمات انجام دینے کے لیے وہ پچھلے سال ستمبرمیں تشریف لائے۔
Pakistan
پاکستان آنے سے قبل اکسٹھ سالہ لائف لارشن نارویجن وزارت خارجہ میں خصوصی نمائندہ برائے پاکستان اور افغانستان تھے۔ راقم کو آنجہانی سفیرکے بارے میں اس سال مارچ کے وسط میں پاکستان یونین ناروے کے چیئرمین چوہدری قمراقبال نے بتایاتھا۔ ہوا یوں کہ چوہدری قمراقبال اسلام آباد نادرا کے ہیڈکوارٹر میں اعلیٰ عہدے پر تعینات اپنے ایک دوست سے ملاقات کے لیے اسلام آباد آئے تو انھوں نے کہاکہ چند دن قبل ان کی گجرات میں نارویجن سفیر سے ایک تقریب کے دوران ملاقات ہوئی ہے اور آپ بھی ان سے ضرورملیں کیونکہ وہ ایک اچھے سفارتکار اور ایک ملنسار انسان بھی ہیں۔راقم نے ناروے میں اپنے چارپانچ سال کے قیام کے دوران بذات خود مشاہدہ کیاکہ ناروے کے اکثر لوگ ملنسار ہیں اور وہ نارویجن پاکستانیوں کی ناروے کی ترقی میں خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
چوہدری قمراقبال نے نارویجن سفیر کا بزنس کارڈ بھی مجھے دیا اور کہاکہ سفیر موصوف دونوں ملکوں کے مابین تعلقات کو فروغ دینے میں سنجیدگی سے کوشاں ہیں۔درایں اثناء جب راقم نے سفیر موصوف کے دورہ گجرات کے بارے میں گجرات لینک کے چیف ایڈیٹر امجدفاروق سے بات کی تو انھوں نے بتایاکہ نارویجن سفیر کا دورہ گجرات بہت ہی کامیاب تھا اور اس دوران سفیر موصوف نے کہاکہ وہ بار بار گجرات آنا چاہتے ہیں۔’’انہیں پہلے ہی گجرات آنا چاہیے تھا‘‘۔ گجرات کے دورے کے دوران آنجہانی سفیر نے سابق صوبائی وزیرتعلیم میاں عمران مسعود استقبالیہ کے استبالیے میں شرکت کی۔ وہ نارویجن پاکستانی سیاستدان اسلم احسن کے گھر بھی گئے اور گجرات یونیورسٹی اورچمبرآف کامرس کا دورہ کی۔
امجدفاروق کاکہناتھا کہ انھوں نے لائف لارشن کو ایک اچھاانسان اور ایک اچھاسفارتکار پایا۔ واقعاً وہ ایک اچھے انسان اور منجھے ہوئے سفارتکار تھے ان کی اچھی یادیں لمبے عرصے تک پاکستان میں رہیں گی۔ اللہ تعالیٰ نارویجن قوم اور ان کے خاندان کو صبردے۔ ہم نارویجن حکومت، قوم اور سفارتخانے کے اس غم میں پوری طرح شریک ہیں ۔امیدہے کہ پاکستان میں نارویجن سفارتخانہ آنجہانی سفیر کے کام کو آگے بڑھائے گا اور دونوں ملکوں کے مابین تعلقات کو فروغ دینے کے لیے سفیر لائف لارشن کے رہنماء اصولوں سے استفادہ کیا جائے گا۔