تحریر : صباء نعیم پاکستان نے اپنے جوہری اثاثوں کے تحفظ کے لئے نمایاں اقدامات کئے ہیں، بھارت سے درپیش مسلسل خطرات کی وجہ سے جوہری طاقت کو برقرار رکھنا پاکستان کے قومی مفاد کا تقاضا ہے۔ نیو کلیئر سپلائرز گروپ (این ایس جی) کی رکنیت کے حصول کے لئے امریکہ کی بھارت کے لئے حمایت ٹھیک نہیں، پاکستان کو ایٹمی طاقت بڑھانے کے لئے مجبور کرنے کے ذمہ دار امریکہ اور بھارت ہیں اِس بات کا اظہار امریکی سینیٹ کی کمیٹی برائے خارجہ تعلقات کے اجلاس میں امریکی ماہرین نے کیا۔ امریکی ماہرین نے جوہری اثاثوں کے تحفظ کے لئے پاکستان کے اقدامات کی تعریف کی، جن سے پاکستان کے متعلق ابھرنے والا منفی تاثر ختم ہو گیا۔کمیٹی کی سماعت میں کارنیگی اینڈومنٹ فار پیس کے شعبہ نیو کلیئر پالیسی پروگرام کے معاون ڈائریکٹر ڈاکٹر ٹوبی ڈلٹن، سی آئی اے کے کاؤنٹر ٹیررازم سنٹر کے سابق سربراہ اور سیکیورٹی فرم ای آر جی پارٹنرز کے رابرٹ ایل گرنیئر اور جان ہوپکنز یونیورسٹی کے سینئر ریسرچ فیلو ڈاکٹر ڈینئل مرکے نے بطور گواہ شرکت کی اور بیان ریکارڈ کرائے۔
ڈاکٹر ٹوبی ڈِلٹن نے کہا کہ پاکستان میں جوہری استعداد رکھنے پر مکمل اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ پاکستانی انتظامیہ اپنے جوہری اثاثوں کو محفوظ بنانے کے لئے یقینی اور نمایاں اقدامات کر رہی ہے۔ پاکستان نے اِس بات کو یقینی بنایا ہے کہ اس کی جوہری ریسرچ لیبارٹریوں میں کوئی ایسا شخص نہ ہو، جس کی ہمدردیاں غیر ریاستی گروہوں سے ہوں۔ رابرٹ ایل گرنیئر نے کمیٹی کو بتایا کہ1990ء میں امریکہ کی طرف سے سخت پابندیوں کی وجہ سے پاکستان بھارت سے درپیش خطرات سے نپٹنے کے لئے کسی بھی دوسرے مْلک سے مدد لینے کے لئے مجبور تھا۔ یہ سمجھنا ہو گا کہ بھارت سے درپیش مسلسل خطرات کی وجہ سے اپنے قومی مفاد کی خاطر پاکستان کے پاس اپنی جوہری قوت برقرار رکھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ امریکہ کے لئے یہ بہت ضروری تھا کہ وہ پاکستان کے ساتھ کسی نہ کسی سطح پر رابطہ برقرار رکھتا۔ اگر ہم کسی کے ساتھ کسی ناپسندیدہ کی طرح سلوک کرتے ہیں اور اس کو ناپسندیدہ جگہ پر دھکیل دیتے ہیں تو وہ وہی کرتا ہے جو آپ کو پسند نہیں آتا۔
امریکی ماہرین نے سینیٹ کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی میں پاکستان کے جوہری پروگرام کے متعلق جو باتیں کی ہیں وہ عین ممکن ہے امریکہ کے اندر بعض حلقوں کو پسند نہ آئیں جو بھارتی پروپیگنڈے کے زیر اثر پاکستان کے خلاف بے پرکی اڑانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے حتیٰ کہ اگر اسلام آباد سے دو چار سو کلو میٹر دور کِسی جگہ دہشت گردی کی کوئی واردات ہو جائے تو وہ یہ بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ یہ جگہ اسلام آباد سے اتنے کلو میٹر دور ہے اور پاکستانی جوہری اثاثے دہشت گردوں کے ہاتھ لگنے کا خدشہ ہے گویا ان کے خیال میں دہشت گرد برق رفتاری سے اسلام آباد کی جانب رواں دواں ہیں۔ اِدھر انہوں نے واردات کی اور اْدھر وہ اسلام آباد جاپہنچے، حالانکہ امریکہ کے محکمہ دفاع(پینٹاگون) کے ایک حصے پر غیر ملکی دہشت گردوں کا حملہ ہو چکا ہے، پاکستان پر تو ایسا حملہ نہ کبھی ہوا ہے اور نہ ایسا کوئی امکان ہے۔ ایک خودکش حملہ آور نے جی ایچ کیو پر حملے کی کوشش کی تھی اور تلاشی کے دوران گیٹ پر خود کو اڑالیا تھا، جس پر فسانے گھڑے گئے۔ پاکستان کی جوہری تنصیبات جتنی محفوظ ہیں اس کے بارے میں امریکی ماہرین کی تازہ ترین گواہی کے علاوہ پہلے بھی بہت سی شہادتیں منظر عام پر آ چکی ہے، جن میں واضح کر دیا گیا ہے کہ پاکستان کی جوہری تنصیبات محفوظ ہیں، لیکن یہ پروپیگنڈہ ختم نہیں ہوا، چونکہ اس کے پس منظر میں وہ عناصر ہیں جو نہیں چاہتے کہ پاکستان نیو کلیئر سپلائرز گروپ کا رْکن بنے اور جب کبھی ایسی کوئی تحریک یا کوشش ہوتی ہے یہ پروپیگنڈہ تیز کر دیا جاتا ہے۔
American Congress
امریکی ماہرین نے سینیٹ کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی کو یہ بھی بتایا کہ امریکہ کی جانب سے بھارت کو این ایس جی کی رکنیت دِلانے کے لئے مسلسل جو کوشش کی جا رہی ہے وہ ٹھیک نہیں امریکی ماہرین نے جو بات اب کہی ہے پاکستان اور چین مسلسل یہ بات کہہ رہے ہیں کہ این ایس جی کی رکنیت کے لئے بھارت کے ساتھ امتیازی سلوک نہ کیا جائے اور اِس معاملے میں دونوں مْلکوں کے ساتھ ایک ہی طرح کا رویہ رکھا جائے، پاکستان کی مخالفت تو اِس لئے کی جاتی ہے کہ اْس نے این پی ٹی پر دستخط نہیں کئے اِس لئے وہ رکن نہیں بن سکتا، لیکن یہ اگر کوئی گناہ ہے تو بھارت نے بھی کِیا ہوا ہے پھر وہ گروپ کی رکنیت کا اہل کیونکر ہو گیا؟ لیکن امریکہ اس کھلی اور بین حقیقت کو نظر انداز کر کے بھارت کی تو حمایت کئے جا رہا ہے، لیکن پاکستان کی مخالفت کرتا رہتا ہے اور عموماً امریکہ کی طرف سے یہ مشورہ بھی دیا جاتا ہے کہ پاکستان اپنا جوہری پروگرام محدود کرے، جبکہ پاکستان کا موقف ہے کہ اپنی خود مختاری کے تحفظ کی خاطر پاکستان کے لئے ایسا کرنا ممکن نہیں۔
پاکستان کا جوہری اور میزائل پروگرام اپنے تحفظ کے لئے ہے اس کے کسی کے خلاف نہ تو جارحانہ عزائم ہیں اور نہ وہ نیو کلیئر ہتھیاروں کے پھیلاؤ پر یقین رکھتا ہے۔ امریکی ماہرین نے جوہری پھیلاؤ کے سلسلے میں بھی پاکستان پر لگنے والے الزامات کو غلط قرار دے دیا ہے اور اس سلسلے میں امریکی انتظامیہ کے رویئے کو درست قرار نہیں دیا۔ امریکہ اس وقت جنوبی ایشیا میں بھارت کو بالادست قوت بنانے کے لئے پوری توجہ مرکوز رکھے ہوئے ہے،بھارت کے ساتھ دفاعی معاہدہ کیا گیا ہے، جس کے تحت دونوں مْلک ایک دوسرے کی دفاعی تنصیبات کا استعمال کر سکیں گے۔ بظاہر اس کا مقصد تو بھارت کو چین کے مقابلے میں کھڑا کرنا ہے، لیکن سب جانتے ہیں کہ چین تیزی سے آگے بڑھنے والی بڑی طاقت کا روپ دھار چکا ہے اور سپر طاقت بھی اس سے زیادہ دور نہیں۔
معاشی طاقت تو چین پہلے ہی بن چکا ہے اور امریکہ جیسا مْلک اس کا سب سے زیادہ مقروض ہے۔ ایسے میں بھارت چین کا کیا مقابلہ کر سکتا ہے البتہ امریکہ کے ساتھ دفاعی معاہدے کا فائدہ اْٹھا کر بھارت، خطے میں اسلحے کی ایک نئی دوڑ شروع کر سکتا ہے، جس کا ہدف پاکستان ہو سکتا ہے پاکستان بھارت کے اِن عزائم سے باخبر ہے اِس لئے وہ اپنی جوہری قوت کو وقت کے ساتھ ساتھ اپ ڈیٹ بھی کرتا رہتا ہے اور اِس ضمن میں امریکی ناراضگی کی بھی پروا نہیں۔اب امریکی ماہرین نے پاکستان کے جوہری اثاثوں کے محفوظ ہونے کے متعلق جو شہادت سینیٹ کمیٹی کو فراہم کر دی اس کی روشنی میں امریکی انتظامیہ کو اپنے ذہن سے ہر قسم کے خدشات جھٹک دینے چاہئیں اور پاکستان کے جوہری پروگرام کے بارے میں تحفظات ختم کر کے یکسو ہو جانا چاہئے اور این ایس جی کی رکنیت کے لئے پاکستان کے راستے کی دیوار نہیں بننا چاہئے۔ امریکی ماہرین نے زمینی حقائق کے مطابق شہادت دی ہے جسے امریکہ کے لئے حرفِ آخر ہونا چاہئے۔