پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خالق ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہمیں داغ مفارقت دے گئے افسوس کہ ہمارے حکمرانوں نے ان پر پابندیاں لگانے کے علاوہ ان سے کوئی کام نہ لیا وہ پاکستان اور پاکستانی عوام کی دل وجان سے خدمت کرنا چاہتے تھے جب ملک میں بجلی کا شارٹ فال حد سے زیادہ بڑھ گیا تو انہوں نے حکومت کو آفر کی کہ میں سستی اور وافر بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہوں حکومت موقعہ دے تو میں یہ کام بھی کر سکتا ہوں مگر کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی انہیں کسی حکمران نے اپنی ٹیم میں شامل نہ کیا حکمرانوں سے مایوس ہوکر انہوں نے عوام کے پاس جانے کا فیصلہ کیا 17جولائی 2012 کو تحریک تحفظ پاکستان کے نام سے ایک سیاسی جماعت بنا کر سیاست میں باقاعدہ آنے کا اعلان کردیا اس وقت انکے قریبی ساتھی اور تحریک تحفظ پاکستان کے مرکزی سیکریٹری جنرل جناب خورشید زمان خان کی دعوت پر میں بھی ٹی ٹی پی میں شامل ہوگیا یہ وہ والی ٹی ٹی پی نہیں بلکہ تحریک تحفظ پاکستان تھی ڈاکٹرصاحب کی مشاورت سے مجھے پارٹی کا مرکزی جوائنٹ سیکریٹری اطلاعات اور انچارج میڈیا سیل پنجاب بنا دیا گیا ڈاکٹر صاحب سے عقید ت تو بہت پرانی تھی مگرمحبت،پیار اور خلوص کا رشتہ ان سے ملاقاتوں کے بعد پیدا ہوا۔
ڈاکٹر صاحب انتہائی نفیس اور خوبصورت انسان تھے پاکستان سے محبت اور وفاداری انکے خون میں رچی بسی ہوئی تھی جسکا اظہار وہ کبھی کبھی یوں بھی فرماتے تھے کہ جب پاکستان بنا تو ہم ننگے پاؤں پیدل چل کر پاکستان پہنچے اور اس وقت سے لیکر آج تک وطن کی مٹی کا حق ادا کررہے ہیں جس کا لمس انہوں نے پہلی بار اپنے ننگے پاؤں میں محسوس کیا تھا اسی مٹی کی محبت کا اثر تھا کہ انہوں نے بیرون ملک اپنا شاندار مستقبل داؤ پر لگاتے ہوئے اس وقت پاکستان کے سفیر میاں عبدالوحید کو خط لکھ دیا اس خط کی تفصیل میاں عبدالوحید صاحب نے بعد میں مجھے ڈاکٹر صاحب کے سامنے بتائی میاں عبدالوحید سابق سفارتکار اور لاہور سے دو مرتبہ ایم این اے رہے جسکے بعد وہ سیاست سے کنارہ کش ہوکر اپنا بزنس چلا رہے تھے میں نے انہیں دوبارہ سیاست میں گھسیٹتے ہوئے تحریک تحفظ پاکستان میں شامل کروادیا اور پھر جب بھی ڈاکٹر صاحب لاہور تشریف لاتے تو سیاسی بیٹھک میاں عبدالوحید صاحب کے دفتر میں ہی ہوتی اور میاں صاحب نے اپنا وہی دفتر تحریک تحفظ پاکستان کے لیے وقف کر دیا۔
ایک بار ہم تینوں بیٹھے ہوئے تھے تو ڈاکٹر صاحب نے اپنے خط کا ذکر چھیڑ دیا جس پر میاں صاحب نے بتایاکہ ہمیں ایسے بہت سے خط ملتے رہتے تھے جو اکثر ردی کی ٹوکری کی نظر ہوجاتے مگر آپ کا خط پڑھ کر میں نے فیصلہ کیا کہ اسے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو تک ضرور پہنچاؤں اور جب میں نے اس خط کا ذکر بھٹو صاحب سے کیا تو انہوں نے فورا ڈاکٹر صاحب سے ملنے کا فیصلہ کیا جسکے نتیجہ میں پاکستان ایٹمی طاقت بن گیا اسی دوران کیا کیا ہوتا رہااور کن کن مشکلات سے پالا پڑتا رہا یہ ایک لمبی داستان ہے۔ڈاکٹر صاحب نے 11مئی 2013 کے الیکشن میں خودحصہ نہ لینے کا فیصلہ کرتے ہوئے پڑھے لکھے افراد کو آگے لانے کا فیصلہ کیا اور ملک بھر میں تحریک تحفظ پاکستان کیلیے امیدواروں کو ٹکٹ جاری کیے مگر بدقسمتی سے عوام نے حکمرانوں کی طرح ڈاکٹر صاحب کو نظر انداز کیا اور ہم ایک بھی سیٹ نہ جیت سکے جسکے بعد ڈاکٹر صاحب سیاست سے دلبرداشتہ ہوگئے الیکشن کمیشن میں درخواست دیکر پارٹی کو ختم کردیا اور پھر گوشہ نشین ہو گئے۔
اسکے بعد جب بھی میری ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ہوتی تو وہ بڑے پیار اور محبت سے مجھے اپنے گھر کے برآمدے میں بٹھاتے اور پھر بڑے دکھ سے ایک بات ضرور کہتے کہ ویسے تو لوگ مجھے محسن پاکستان کہتے ہیں میرے ہاتھ چومتے ہیں اپنی جان تک نچھاور کرنے کو تیار ہیں مگر ووٹ نہیں دیتے اس قوم کی حالت کیسے سدھرے گی ڈاکٹر صاحب کے ساتھ میرا جتنا بھی وقت گذرا وہ ہمیشہ پاکستانیوں کے لیے فکر مند رہے ہم نے انہیں محسن پاکستان کا خطاب تو ضرور دے رکھا تھا مگرالیکشن میں ہماری ہمدردیاں انکے ساتھ تھیں جو کرپٹ تھے کروڑوں روپے الیکشن میں جھونک دیتے تھے جن کو پاکستان کی فکر تھی نہ پاکستانی قوم کی افسوس ہم اپنے محسن کی قدر نہ کرسکے اور آج وہ منوں مٹی تلے جا سویا۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان 1936 میں بھارت کے شہر بھوپال میں پیدا ہوئے اور بھوپال کبھی بھی انکے ذہن سے نہیں اترا انکا کہنا تھا کہ بھوپال نے آج تک نہ کوئی غدار پیدا کیا اور نہ ہی وہاں کوئی قادیانی پیدا ہوا وہ سچے عاشق رسول تھے اور محب وطن پاکستانی تھے انہوں نہ صرف ایٹم بم بنایا بلکہ پاکستان کیلئے ایک ہزار کلومیٹر دور تک مار کرنے والے غوری میزائیل سمیت چھوٹی اور درمیانی رینج تک مارکرنے والے متعدد میزائیل تیار کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔
25 کلو میٹر تک مار کرنے والے ملٹی بیرل راکٹ لانچرز، لیزر رینج فائنڈر، لیزر تھریٹ سینسر، ڈیجیٹل گونیومیٹر، ریموٹ کنٹرول مائن ایکسپلوڈر، ٹینک شکن گن سمیت پاک فوج کے لئے جدید دفاعی آلات کے علاوہ ٹیکسٹائل اور دیگر صنعتوں کیلئے متعدد آلات بھی بنائے ڈاکٹر قدیر خان کو 13 طلائی تمغے ملے انہوں نے ایک سو پچاس سے زائد سائنسی تحقیقاتی مضامین بھی لکھے ہیں انیس سو ترانوے میں کراچی یونیورسٹی نے ڈاکٹر خان کو ڈاکٹر آف سائنس کی اعزازی سند دی تھی۔ چودہ اگست 1996 میں صدر فاروق لغاری نے ان کو پاکستان کا سب سے بڑا سِول اعزاز نشانِ امتیاز دیا جبکہ 1989 میں ہلال امتیاز کا تمغہ بھی انکو عطا کیا گیا تھاڈاکٹر صاحب انتہائی سادہ اور شریف النفس انسان تھے ہم بطور انسان ان سے محبت اور عقیدت تو رکھتے ہی تھے جانوروں کو بھی میں نے انکے پاؤں چومتے دیکھا میں اور ڈاکٹر صاحب جب بھی انکے گھر کے برآمدے میں کرسیوں پر بیٹھتے تو دیوار پھلانگ کر بہت سے بندر آجاتے جو ڈاکٹر صاحب کے پاس آکر بیٹھ جاتے اور انہیں دیکھتے رہتے کچھ بندروں کو میں نے انکے پاؤں چومتے ہوئے بھی دیکھا کیا خوبصورت درد دل والے انسان تھے ایک اور بات جب الیکشن کی گہما گہمی تھی تو اس وقت کسی میڈیا ہاؤس نے انہیں بلانے کی زحمت گوارا نہیں کی اخبار وں میں خبریں منتیں کرکرکے لگوایا کرتے تھے وہ بھی سنگل اور ڈبل کالم اور جب وہ دنیا سے چلے گئے تو اخبارات نے اپنے صفحے کالے کر دیے اور چینلز نے سارا دن انکی ہی خبریں چلائیں آخر میں تحریک تحفظ پاکستان کے پرانے ساتھی عبدالقیوم باجوہ کی وال سے صرف ایک شعر۔
عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن یہ الگ بات ہے دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ