تحریر : میر افسر امان مغربی ملکوں بشمول امریکا بہادر جو پاکستان کے ساتھ دوستی کا ڈینڈورا پیٹتا رہتا ہے جن کی اکثریت عیسائیوں پر مشتمل ہے نے اسلامی پاکستان کے لیے ایٹمی توانائی کو شجر منوعہ قرار دیا ہوا ہے۔وہ پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کو تو ایٹمی ملک دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس کو نیوکلئر سپلائرز گروپ کا ممبر بنانے کی سر توڑ کوشش کرتے رہتے ہیں۔صرف پاکستان پر پابندیاں لگائی جاتی ہیں۔جبکہ ایٹمی توانائی صرف ایٹم بم ہی بنانے کے کام نہیں آتی اس سے زراعت، صحت میں بھی مدد ملتی ہے اور بجلی بھی پیدا کی جاتی ہے۔
پاکستان میں تو بجلی کی اشحد ضرورت ہے۔گیس، تیل،سولر ،ونڈ اور کوئلہ سے مہنگی بجلی پیدا ہوتی ہے ۔ انسان ماحول بھی نہیں ہوتی ۔جبکہ ایٹمی توانائی سے سستی بجلی پیدا ہوتی ہے اور انسان دوست ماحول بھی ہوتی ہے۔ کینیڈا نے واحد کراچی کے بجلی گھر کے لیے بھاری پانی مہیا کرنا بند کر دیا تھا تو ہمارے ایٹمی سائنسدانوں دانوںنے دن رات انتھک محنت کر کے یہ کام مقامی طور پر کر لیا۔ دنیا میں صرف چین ہی ایک ایسا پاکستان دوست ملک ہے جس نے پاکستان میں ایٹمی بجلی گھر مہیا کیے ہیں۔مغربی ملکوں اور امریکا کی پابندیوں کے باوجود اللہ کے کرم سے پاکستان دنیا کا ساتواں ایٹمی ملک اور اسلامی دنیا کا پہلا ملک بنا جس پر اسلامی دنیا کو فخر ہے۔ان حالت میں پاکستان کے مشہور و معروف دانشور، دو قومی نظریہ اور اسلامی پاکستان کے محافظ،، سینئر صحافی،ملک کے ایک بڑے اخبا ر کے کالم نگار، دانشور،الیکٹرونک میڈیا چینلز پر اپنا نقطہ نظر پیش کرنے والے، انگریزی اور اردو میں دو رسالے نکالنے والے جناب نصرت مرزا پاکستانی قوم کی معلومات کے لیے ایٹمی طاقت کے پر امن استعمال اور اس کی زراعت، صحت اور سستی انرجی پیدا کرنے کے لیے سیمینار منعقد کراتے رہتے ہیں۔
اسی سلسلے کا ایک سیمینار ٢٤ مئی ٢٠١٧ء کورابطہ فورم انٹرنیشنل جو کہ ایک عالمی تھنک ٹینک ہے کی جانب سے کراچی کے مقامی ہوٹل میں” پاکستان کے پُرامن ایٹمی پروگرام اور نیوکلیئر سپلائرز گروپ کی سیاست” کے عنوان سے سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ اس سیمنار میں ملک سے مایا ناز شخصیات نے شرکت کر کے اس کو کامیاب بنایا۔سابق سفیر اور سیکریٹری خارجہ نجم الدین شیخ نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ پاکستان کے نیوکلیئر پاور بننے میں بڑی رکاوٹ پیدا کی گئی، 1974ء میں ہنری کسنجر نے بھارت کے دورے میں اندرا گاندھی سے ملاقات میں کہا تھا کہ پاکستان کو ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل نہیں کرنے دیں گے ۔ اسکے بعد ہنری کسنگر نے ذولفقارعلی بھٹو کے درمیان ملاقات ہوئی اس ملاقات میں کیا ہوا یہ تو نہیں معلوم مگر بھٹو صاحب نے یہ اعلان کیا تھا کہ چاہے ہمیں گھاس کھانا پڑے مگر ہم ایٹم بم بنائیں گے۔ بھارت کی سازشوں کے باوجود ہم ایٹمی طاقت بنے، عالمی طاقتوں نے اس میں رکاوٹ پیدا کی لیکن کامیاب نہ ہوسکے۔ سیمینار سے سابق چیئرمین PAEC ایڈوائزر نیوکلیئر کمانڈ ڈاکٹر انصر پرویز صاحب نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نیوکلیئر ٹیکنالوجی صرف حربی صلاحیت کے لئے استعمال نہیں ہوتی، اسے توانائی کے حصول، صحت اور زراعت کے شعبوں کو فروغ دینے کے لئے بھی استعمال کیا جارہا ہے۔
صاحبو! اگر بجلی کی ہی بات کی جائے توپاکستان اس وقت بہت خراب پوزیشن میںہے۔ شہروں میں چھ چھ گھنٹے بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے اور دیہاتوں میںبجلی آتی بھی کہ نہیں۔ غیر اعلانہ لوڈ شیڈنگ نے شہریوں کو پریشانیوں میں مبتلا کر رکھا ہے۔ ملک کے کارخانے بجلی کی وجہ سے بند بڑے ہیں۔اس پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے فرمایا کہ پاکستان میں لوڈشیڈنگ ایک بڑا مسئلہ ہے، شارٹ فال 3200 میگاواٹ تک پہنچ گیا ہے، جسے نیوکلیئر ذرائع سے پورا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، تیل، گیس، ونڈ اور سولر کے پلانٹس خاصے مہنگے ہوتے ہیں جبکہ نیوکلیئر پاور پلانٹ کی ایک کلو واٹ بجلی کا خرچ ایک سنیٹ تک آتا ہے، ہم 2020ء تک اپنی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے قابل ہوجائیں گے۔ یہ بات تو سہی ہے مگر ہمارے پہلے حکمرونوں اور ٢٠١٣ء سے اقتدار میں حکمرانوں نے بجلی کی پیداوار میں کوئی خاص اضافہ نہیں کیا۔اس کی وجہ بیڈ گورنر بتاہی جا رہی ہے۔ایک پلانٹ کا خرچہ کبھی کچھ ہوتا ہے کبھی بڑھ کر ڈبل ہو جاتا ہے۔ کبھی پلانٹ کو تیل پر چلانے کی کوشش کی جاتی ہے نہ چلنے پر گیس پر منتقل کرتے ہیں اس سے لاگت بڑھتی جاتی اور پاکستان کے لوگ پریشان ہیں۔ایئرکموڈور ریٹائرڈ خالد بنوری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کا غیرذمہ دارانہ رویہ خطے کے امن کو خطرے میں ڈال رہا ہے، بھارت کی خواہش ہے کہ اُسے NSG میں شامل کیا جائے لیکن اسکے جارحانہ اقدامات ہی اس کی راہ میں رکاوٹ ہیں، دُنیا کی سیاسی صورتِ حال بھی بھارت کے حق میں نہیں ہے، دُنیا یونی پولر سے ملٹی پولر ہورہی ہے جس کے اثرات نیوکلیئر سپلائرز گروپ پر بھی پڑیں گے اس لئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ NSG کا معیار اور ایجنڈا بھی سیاست کی نذر ہو گیا ہے۔ویسے بھی دنیا بھارت کی بڑی اقتصادی منڈی کی وجہ سے اس کے طرف دار ہیں۔
بھارت کا ایٹمی پروگرام پاکستان کے ایٹمی پرگرام کے مقابلے میںزیادہ محفوظ بھی نہیں پھر بھی دنیا کے ملک اس کونیو کلیئر سپلائر گروپ میں شامل کرنے کے لیے بے تاب ہیں۔ رکاوٹ ہے تو چین اور دوسرے پاکستان دوست ملکوں کی وجہ سے ہے۔پروفیسر ڈاکٹر طلعت اے وزارت نے کہا کہ نیوکلیئر ٹیکنالوجی کا جب ذکر ہوتا ہے تو صرف ہتھیاروں کی بات کی جاتی ہے جبکہ اس کی مدد سے صحت اور ایگری کلچر کے شعبے میں بھی مدد لی جارہی ہے، NSG کے ذریعے نیوکلیئر ٹیکنالوجی میں ایک دوسرے کے تجربات اور تحقیق سے استفادہ کیا جاسکتا ہے، ساتھ ہی ہتھیاروں کے عدم پھیلائو کے عمل کو آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔پروفیسر ڈاکٹر تنویر خالد نے کہا کہ بھارت نے ایٹمی صلاحیت خطے میں بالادستی حاصل کرنے کے لئے حاصل کی جبکہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام اس کی بقا کے لئے ہے ہم دُنیا اور اس خطے کو پُرامن رکھنا چاہتے ہیں، پاکستان ایک ذمہ دار ملک ہے اور NSG میں شامل ہونے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ڈائریکٹر جنرل اسٹرٹیجک ایکسپورٹ کنٹرول ڈویژن ظفر علی یوسفزئی نے کہا کہ بھارت کو عالمی طاقتوں کی حمایت حاصل رہی، 2008ء سے بھارت کو NSG میں شامل کروانے کی کوشش جاری ہے، اوبامہ نے بھارت کے دورے میں وعدہ کیا تھا کہ اس کی مدد کی جائے گی لیکن چین اور دیگر ملکوں کی مخالفت کی وجہ سے اُسے ممبر شپ نہیں مل سکی، پاکستان کا معاملہ بہت بہتر ہے ہم ایک ذمہ دار ایٹمی ملک ہیں۔
بھارت ایٹمی فیول کی پیداوار کو نہیں روک سکا اس کے جارحانہ عزائم ہیں۔نیو کلیئر سپلائر گروپ کے آئین میں لکھاہے کہ جب تک تمام ممبر ملک کسی نئے ملک کی شمولیت کے لیے ووٹ نہیں دیتے ،نیا ملک اس میں شامل نہیں ہو سکتا۔یہی وجہ ہے کہ بھارت ابھی تک اوباما کے وعدے کے باجود اس کا ممبر نہیں بن سکا۔ پروگرام کے آخر میں رابطہ فورم انٹرنیشنل کے چیئرمین نصرت مرزا نے کہا کہ پاکستان خطے کا اہم ایٹمی ملک ہے اور نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں شمولیت کی مکمل اہلیت رکھتا ہے، بھارت سی پیک کی وجہ سے خطے کی بدلتی ہوئی اسٹرٹیجک اہمیت کے پیش نظر تنہائی کا شکار ہورہا ہے، ہم اپنی خارجہ پالیسی کو بہتر انداز سے مرتب کریں تو مزید کامیابیاں ملیں گی۔پاکستان ایک ذمہ دار ایٹمی ملک ہے، نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں اس کی ٍشمو لیت کے سارے اسباب موجود ہیں۔سیمینار سے اسلام آبا د کی اسکالر حلیمہ سعدیہ، سابق سفیر ظفر نواز جسپال، ڈاکٹر رضوانہ عباسی نے بھی خطاب کیا جبکہ مختلف یونیورسٹیز کے پروفیسرز اور طلبا کی بڑی تعداد بھی شریک ہوئی۔
Mir Afsar Aman
تحریر : میر افسر امان کنوینر کالمسٹ کونسل آف پاکستان