پاکستان میں اپوزیشن کی حکومت مخالف تحریک کی تیاریاں عروج پر

Opposition

Opposition

اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) پاکستان میں اپوزیشن کی حکومت مخالف احتجاجی تحریک کی تیاریاں اپنے عروج پر ہیں۔ سیاسی حلقوں میں اس سوال پر غور کیا جا رہا ہے کہ کیا اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی کے بغیر چلنے والی یہ مزاحمتی تحریک نتیجہ خیز ثابت ہو سکے گی۔

ایک طرف اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے پاکستان بھر میں احتجاجی مظاہروں اور مزاحمتی جلسوں کے پروگرام کو حتمی شکل دی جا رہی ہے تو دوسری طرف سرکاری ایجنسیاں اپوزیشن کے سرگرم کارکنوں کے ناموں کی فہرستیں بنانے، احتجاجی جلوسوں میں متوقع عوامی شرکت کا اندازہ لگانے اور ان جلسوں سے ‘نمٹنے‘ کے منصوبے بنا رہی ہیں۔

ان حالات میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے لاہور کے نواحی علاقے جاتی عمرہ میں پاکستان مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز شریف سے ایک اہم ملاقات کی ہے۔ کئی گھنٹے جاری رہنے والی اس ملاقات میں سولہ اکتوبر سے شروع ہونے والی احتجاجی تحریک کے حوالے سے مختلف امور کا جائزہ لیا گیا۔

اس ملاقات کے چند گھنٹے بعد مسلم لیگ ن کے سینیٹرز، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان اور الیکشن ٹکٹ ہولڈرز کے ایک کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف نے نام لیے بغیر اسٹیبلشمنٹ کو مخاطب کر کے کہا، ”عمران خان کو لانے والو! یہ عوامی جذبہ دیکھو۔ اس سوغات (عمران خان) کو جتنا جلد ممکن ہو، واپس لے جاؤ۔ یہ ہمیں نہیں چاہیے۔ انہوں نے پاکستان کو تباہ کر دیا ہے۔‘‘

نواز شریف نے کہا کہ تین سال پہلے تو پاکستان کی ایسی بری حالت بالکل نہیں تھی، ”سلیکٹرز بتائیں کہ کیوں اس بندے کا انتخاب کر کے اس کو قوم کے سر پر سوار کرایا گیا؟ پاکستانی قوم یہ سوال پوچھے۔ جب تک اس سوال کا جواب نہ ملے، گھروں کو نہیں جانا چاہیے۔ ‘‘

سابق وزیر اعظم نواز شریف نے مزید کہا، ”آپ نے آئین شکنی کی۔ یہ ناقابل معافی جرم ہے۔ آپ نے الیکشن مینڈیٹ چوری کیا۔ آپ نے بکسوں کو تبدیل کر کے اس (عمران خان) کو جتوایا۔‘‘ نواز شریف نے اپنی پارٹی کے ارکان پارلیمان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، ”اب وقت آ گیا ہے کہ ہمیں بہادری اور ہمت دکھانا ہوں گی۔ جو بزدل ہے، وہ گھر بیٹھے۔ ہمیں اس کی ضرورت نہیں۔ اس کی اسمبلیوں کو بھی ضرورت نہیں۔‘‘

اپنے خطاب میں نواز شریف نے کہا کہ پاکستان کی فوج دنیا کی بہترین فوج ہے اور ”ہم نے ہمیشہ دل و جان سے اس کی دفاعی ضروریات کو پورا کیا ہے۔‘‘ نواز شریف کے مطابق انہیں پاکستانی فوج کے تمام چھوٹے بڑے اہلکار بہت عزیز ہیں، ان کی وطن کے لیے قربانیاں ہیں، ”پاکستان کی فوج کا بہت بڑا حصہ آئین اور قانون کی پاسداری پر یقین رکھتا ہے۔ لیکن چند لوگ جو اس ادارے کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں، الیکشنوں میں دھاندلی کرواتے ہیں، وہ مجھے عزیز نہیں ہیں۔‘‘

اس کے علاوہ نواز شریف نے یہ بھی کہا کہ عمران خان اپنی بنی گالا والی رہائش گاہ کی منی ٹریل دیں، ”قوم ان سے زمان پارک والے گھر کی تزئین و آرائش کی بھی رسیدیں مانگتی ہے، علیمہ خانم کب رسیدیں دیں گی؟ عاصم باجوہ کب رسیدیں دیں گے؟ ہم حساب لیں گے۔ اب ایسا نہیں چلنے دیں گے۔‘‘

پاکستان کے ممتاز دفاعی تجزیہ نگار بریگیڈیئر (ر) فاروق حمید خان نے نواز شریف کی اس تقریر پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ نواز شریف ‘ایک سزا یافتہ اشتہاری مجرم‘ ہیں، جو عدلیہ کے فیصلے کے مطابق صادق اور امین نہیں رہے۔ وہ ‘پاکستان کی فوج کو تقسیم کرنے اور اس کا مورال کم کرنے کے بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈے‘ پر عمل پیرا ہیں۔

فاروق حمید کے بقول نواز شریف اپنے ان مقاصد میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے کیونکہ پاکستان کی فوج کے اہلکار اور ملکی عوام نواز شریف کی اصلیت اور عزائم سے پوری طرح آگاہ ہو چکے ہیں اور جانتے ہیں کہ وہ کس کی زبان بول رہے ہیں۔ انہوں نے نواز شریف کی تقریر ٹی وی پر نہ دکھانے کے فیصلے کی حمایت کی اور کہا کہ الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ وہ مسلم لیگ کو اپنے نام کے ساتھ ن کا حرف ہٹانے کے احکامات جاری کرے کیونکہ ‘ایسے کسی شخص کو ملک سے باہر بیٹھ کر ایسی تقریریں اور سیاست کرنے کی اجازت نہیں ملنا چاہیے‘۔

سیاسی مبصرین کے مطابق مالی وسائل کی حامل مریم نواز اور احتجاجی کارکنوں سے مالا مال مولانا فضل الرحمان کی ملاقات کے بعد ہونے والی نواز شریف کی تقریر نے آنے والے دنوں میں ملک کے سیاسی منظر نامے کی ایک جھلک دکھا دی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ مسلم لیگ ن نے شہباز شریف کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مفاہمانہ بیانیے کو اپنے ہاتھوں سے دفن کر دیا ہے اور تحریک کے مقاصد کے حوالے سے اب ن لیگ کی قیادت میں کوئی ابہام باقی نہیں رہا۔

مریم نواز اور مولانا فضل الرحمن کے مابین ہونے والی ملاقات میں دونوں رہنماؤں میں اتفاق تھا کہ ‘بیساکھیوں کے سہارے کھڑی‘ عمران خان حکومت جلد اپنے انجام کو پہنچ جائے گی اور اس کے خاتمے کے لیے سول نافرمانی کی تحریک شروع کرنے کی ضرورت پیش ہی نہیں آئے گی۔

کیا اپوزیشن کی تحریک اسٹیبلشمنٹ کی مدد کے بغیر کامیاب ہو سکے گی؟ اس سوال کے جواب میں ممتاز تجزیہ کار امتیاز عالم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ درست ہے کہ عمران خان کے دھرنوں سمیت کئی سیاسی تحریکوں کو اسٹیبلشمنٹ کی در پردہ حمایت حاصل رہی تھی، لیکن ان کے بقول یہ بھی حقیقت ہے کہ ایوب خان کے خلاف جمہوری قوتوں کی جدوجہد اور ضیاالحق کے خلاف ایم آر ڈی کی تحریک کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل نہیں تھی، پھر بھی ان تحریکوں کے سیاسی اثرات سب کے سامنے ہیں۔

امتیاز عالم نے کہا، ”پی ڈی ایم کی تحریک تو اللہ کے بھروسے پر ہی چل رہی ہے، پہلے مولانا اکیلے مارچ کر کے اسلام آباد گئے تھے۔ اب ان کو مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں کا ساتھ میسر ہو گا۔ مجھے لگتا ہے کہ بہت لمبے عرصے کے بعد پنجاب میں عوام کی بڑی اکثریت باہر نکلے گی اور اسے انتظامی حربوں سے ختم نہیں کیا جا سکے گا۔ اس کے پاکستانی سیاست پر اثرات بہت اہمیت کے حامل ہوں گے۔ اس تحریک سے مسلم لیگ ن کو وسطی پنجاب میں فائدہ ہو گا جبکہ پیپلز پارٹی کو جنوبی پنجاب میں اس کے ثمرات ملیں گے۔ مولانا فضل الرحمان کو اس سے خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں سیاسی فائدہ ہو گا۔‘‘

ایک سوال کے جواب میں امتیاز عالم کا کہنا تھا کہ اس وقت حتمی طور پر یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ آیا اس تحریک کے نتیجے میں عمران خان حکومت ختم ہو جائے گی۔ لیکن یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ اس تحریک کے نتیجے میں کچھ ہی دنوں میں موجودہ وفاقی حکومت، جو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے زعم میں اس وقت فرنٹ فٹ پر کھیل رہی ہے، بیک فٹ پر جانے پر مجبور ہو جائے گی اور کچھ ہی دنوں میں اس کی ہوا نکل جائے گی۔

”اگر پی ڈی ایم کی اس احتجاجی تحریک میں عوامی شمولیت بہتر رہی، تو پھر عمران خان حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات میں بھی فرق آئے گا۔ اس تحریک میں نظر آنے والے ردعمل اور نعروں کی وجہ سے فوج کو عمران خان حکومت کی حمایت سے پیچھے ہٹنا پڑے گا، وگرنہ سلامتی کے ذمے دار اداروں کی ساکھ پر سوال اٹھنے لگیں گے۔ ‘‘

امتیاز عالم کے بقول اس احتجاجی تحریک کے نتیجے میں عمران خان حکومت کے خاتمے کا اندازہ لگانے سے پہلے یہ دیکھنا ہو گا کہ عوام کتنی بڑی تعداد میں باہر نکلتے ہیں۔ یہ جلسے دباؤ بڑھانے میں کس قدر کامیاب رہتے ہیں اور اپوزیشن جماعتوں میں اتحاد کس حد تک برقرار رہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس بات کا بھی امکان ہے کہ احتجاجی تحریک کی کامیابی کے ساتھ ہی کچھ خفیہ ہاتھ حرکت میں آ جائیں اور بیک چینل پر مذاکرات شروع ہو جائیں۔ ایسی صورت میں اگر اپوزیشن کی کسی جماعت کو ‘آفر‘ مل گئی تو یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ وہ کس قدر استقامت کا مظاہرہ کر پاتی ہے۔

ان کے بقول اپوزیشن جماعتوں میں نظریاتی اختلاف تو ہے، مولانا فضل الرحمان اور قوم پرست جماعتوں کے نظریات میں فرق ضرور ہے، لیکن مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی قیادت سے مولانا فضل الرحمان کے اچھے روابط ہیں۔ ”اس لیے امید کی جا سکتی ہے کہ جمہوری آزادیوں کی اس تحریک میں سیاسی صف بندی ایسے ہی رہے گی۔‘‘