پاکستان میں دہشت گردی کا کھلا بھارتی اعلان

Manohar Parykar

Manohar Parykar

تحریر: علی عمران شاہین
بالآخر بھارت نے پاکستان کو دہشت گرد حملوں کی کھلی دھمکی دے ڈالی ہے جس پر ہماری حکومت قدرے سیخ پا نظر آئی ہے۔ بھارتی وزیر دفاع منوہر پاریکر نے پاکستان کو کھلم کھلا مخاطب کر کے کہا کہ ہمیں (پاکستان کی) دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لئے میدان میں دہشت گرد ہی لانا ہوں گے،کانٹے سے کانٹا نکالنا پڑتا ہے۔ صرف ہمارے فوجیوں کا خون کیوں بہے؟ کسی بھی مسلح درانداز کے ساتھ انسانی بنیادوں پر سلوک نہیں کیا جا سکتا۔ جو بھی دراندازی کرے گا ،مارا جائے گا۔ ساتھ ہی کہا کہ اگر بھارت پر ممبئی طرز کا کوئی حملہ کیا گیا توا س کا فوری منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔
بھارت کی جانب سے اس طرح کھلم کھلا دہشت گردی کے اعلان کے بعد پاکستانی مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے اس بیان کی سب سے پہلے زبردست الفاظ میں مذمت کی تو کہا کہ بھارتی وزیر دفاع نے ثابت کر دیا ہے کہ ہمارا موقف درست ہے۔

بھارت کی جانب سے پاکستان کو کھلم کھلا مخاطب کر کے یوں حملوں اور دہشت گردی کی دھمکی کوئی پہلی بار تو نہیں لیکن اس کا اب جس طرح بھارت کی جانب سے اظہار ہوا ہے اس پر غور کرنے کی ضرورت بہت زیادہ ہے۔ بھارت کی جانب سے یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان نے اپنے ہاں ہونے والی دہشت گردی میں بھارت کے ملوث ہونے کا اور اس میں ملنے والے ثبوتوں کا بار بار تذکرہ کیا ہے۔ خاص طور پر کراچی میں ہونے والی دہشت گردی کے پے در پے واقعات کے بعد جب ہر سطح پر بھارت کی جانب انگلیاں اٹھیں تو بھارت نے پہلے تو تردید کی اور پھر اب صاف صاف الفاظ میں دہشت گردی کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ بھارت کے بوکھلائے جانے کی بھی دلیل ہے تو اور ”چور مچائے شور” والا معاملہ بھی ہے۔ ہم اول دن سے کہتے آ رہے ہیں کہ بھارت پر کبھی اعتبار نہ کیا جائے۔ بھارت ہمیں زک پہنچانے کا کبھی کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔

اب ذرا ماہ جون سے اسلام آباد میں سارک ممالک کی صنعتی تجارتی کانفرنس سے ہی اندازہ لگا لیجئے کہ بھارت نے عین موقع پر اس میں شریک ہونے سے انکار کر دیا جس کے بعد سارک ممالک میں شامل ملک بنگلہ دیش نے بھی جو عملاً بھارتی کٹھ پتلی ہے، شامل ہونے سے انکار کیا تو 3لاکھ آبادی والا مالدیپ اور 5لاکھ آبادی والا بھوٹان بھی بھارت کے ساتھ کھڑا ہو گیا جن کی کوئی حیثیت ہی نہیں۔ مالدیپ اور بھوٹان جیسے ممالک تو ویسے ہی بھارت کے نیچے مکمل طور پر دبے ہوئے ہیں اور وہ تو سانس لینے سے پہلے بھی بھارت سے اجازت لیتے ہیں۔ اگر ان کی مرضی کا کوئی عمل دخل ہوتا تو مالدیپ تو انکار نہ کرتا جس کے صدر نے چند روز پہلے ہی پاکستان کا دورہ کیا تھا اور اس کو پاکستانی وزیراعظم نے اتنی اہمیت دی کہ صدر مالدیپ کو گارڈ آف آنر پیش کئے گئے، اپنی موجودگی میں معاہدوں پر دستخط کروائے۔ پاکستان نے مالدیپ کو یوں اہمیت دی تھی جیسے مالدیپ دنیا کی کوئی بہت بڑی اقتصادی و معاشی طاقت اور برابر کی قوت ہو لیکن اس مالدیپ نے بھی پاکستان کو چھوڑ کر بھارتی کیمپ میں شامل ہونے کا فیصلہ سنا دیا۔

Pakistan

Pakistan

پاکستان کو ساری دنیا میں تنہا کر کے نقصان پہنچانا بھارت کا شروع سے وتیرہ رہا ہے اور اب اس نے کھلم کھلا دہشت گردی تک کی باتیں کی ہیں۔ بھارت کہتا ہے کہ وہ دراندازوں کو مار گرائے گا اور کوئی رعایت نہیں ہو گی، ہم پوچھتے ہیں کہ اس نے اس معاملے میں پہلے کیا کوئی نرمی رکھی ہوئی تھی اور کشمیری مجاہدین کے خلاف ”جو بھارت سے آزادی کیلئے دن رات جانیں پیش کر رہے ہیں” سخت اقدامات کا فیصلہ کیا ہے۔ بھارت ان مجاہدین آزادی کو پاکستان کے کھاتے میں ڈالنا چاہتا ہے حالانکہ شہداء کی بھاری اکثریت تو مقبوضہ کشمیر کے اندر کی رہنے والی ہوتی ہے۔ بھارت خود تسلیم کرتا ہے کہ کشمیری نوجوانوں کی بڑی تعداد عسکری میدان کا رخ کر رہی ہے۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک آزادی کو پاکستان کے کھاتے میں ڈالتا ہے حالانکہ ایسا ہرگز نہیں۔ کشمیری عوام بھارت سے آزادی کیلئے آج سے نہیں گزشتہ 70 سال سے سرگرم عمل ہیں۔ بھارت نے کنٹرول لائن پر چند کشمیری نوجوانوں کو اپنے ہی خطے میں آر پار آنے جانے سے روکنے کیلئے 10 لاکھ فوج کے ساتھ دنیا کا ہر سخت سے سخت حفاظتی و جنگی اقدام کر رکھا ہے لیکن وہ ان کے سامنے بے بس ہے۔

بھارت کو اگر اس بات میں کوئی شک و شبہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی پاکستان کی مرہون منت ہے تو اسے چاہئے کہ ان لاکھوں فوجیوں کو ہٹائے بغیر صرف کشمیری حریت پسند قیادت کو رہا کر کے جلسوں کی اجازت دے تو اسے ایک دن میں نانی یاد آ جائے گی۔ مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ کئی ہفتوں سے وہاں کے لوگ پاکستان کے پرچم لہرا رہے ہیں جو ان کا اپنا فیصلہ اور عمل ہے۔ پاکستان میں تو ان کے اس عمل کی سرکاری سطح پر تو کجا، معمولی سے معمولی سیاسی سطح پر بھی حمایت و ہمدردی حاصل نہیں ہوئی۔ 21مئی کو میرواعظ عمر فاروق کے والد محترم مولوی محمد فاروق اور عبدالغنی لون کی شہادتوں کے حوالے سے سرینگر کی مرکزی عیدگاہ میں عوامی اجتماع کا اعلان تھا۔ بھارت نے اسی روز حسب معمول سارے مقبوضہ کشمیر میں سخت سے سخت کرفیو لگا کر ہر شخص کو گھر سے نکلنے سے روک دیا تھا اور ساری حریت قیادت کو گھروں میں بند کر دیا گیا تھا۔ کیا یہ سب کچھ پاکستان کروا رہا تھا؟ بھارت کے راجستھان کے تپتے علاقوں کی جیلوں میں ہزاروں کشمیری نوجوان بدترین مظالم کا سامنا کرتے ہوئے جانوں کی بازی ہار چکے ہیں۔ 1947ء سے لے کر آج تک 5لاکھ کے لگ بھگ اور1987ء سے اب تک ایک لاکھ کشمیری شہید ہو چکے ہیں لیکن بھارت ان کا سر نہ جھکا سکا۔ دنیا ان کی حمایت میں اس لئے آواز نہیں اٹھاتی کہ وہ مسلمان ہیں۔

India

India

بھارت کی زبان درازی کی وجہ یہ بھی ہے ،بھارت جانتا ہے کہ پاکستان کشمیریوں کا ساتھ دیتا نظر نہیں آتا۔ اگر پاکستان کشمیر کی تحریک آزادی کا اسی طرح ساتھ دے جس طرح اس کا حق اور فرض ہے تو بھارت کو پسپائی پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ کشمیریوں نے تو پاکستان سے محبت و وفا کی ہر میدان میں نئی سے نئی مثال قائم کی ہے لیکن انہیں جواباً مایوسی کا سامنا ہے۔ حالیہ تحریک آزادی میں جس طرح کشمیریوں نے پاکستان کے حق میں اس کے پرچم اٹھا کر مہم شروع کی ہے، اس نے بھارت کا ناطقہ بند کر رکھا ہے۔بھارت ساری دنیا میں بری طرح سبکی کا شکار ہے۔ بھارتی وزیر دفاع کی دھمکی بھی اسی کا نتیجہ ہے۔ اب ہماری ذمہ داری ہے کہ کشمیریوں کا ساتھ دے کر دھمکیوں کا عملی جواب دیں۔

کیسی حیران کن بات ہے کہ وہی پاکستانی سیاسی و مذہبی لیڈرشپ جو اپنے سب سے بہترین دوست سعودی عرب کی مدد کے وقت چیخ چنگھاڑ رہی تھی اور اسے اپنی غیرت پر حملہ اور فوج کویہ کہہ کر روک رہی تھی کہ ”یہ کرائے کی فوج نہیں” اب کشمیر پر بھی خاموش ہے۔ سب فکرہے کہ انہیں پاکستان کی حکومت ملے۔ وہ ملک کے مالک و مختار بن جائیں۔لیکن یہ لوگ اس ملک کے سب سے بڑے محافظ کشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہونے کو تیار نہیں کشمیری قوم تو 70 سال سے خون دے کر پاکستان کے دفاع کیلئے کھڑی ہے۔ اس نے بھارت کی 10 لاکھ فوج کو روک رکھا ہے، یہاں یہ بھی تو سوچنا چاہئے کہ اللہ نہ کرے، کشمیری مایوس ہوئے اور ان کی تحریک آزادی کمزور ہوئی تو بھارت کی یہ 10 لاکھ فوج اور اس کی جنگی قوت و صلاحیت فراغت پا کر سب سے پہلے پاکستان سے دو دو ہاتھ کرے گی، اس کا تو انہوں نے ہر موقع پر عملی اظہار کیا ہے۔ اس کا اعلان بھارتی وزیر دفاع نے ایک بار پھر کیا ہے۔کیا اس پر بھی کوئی بات کرے گا؟

Ali Imran Shaheen

Ali Imran Shaheen

تحریر: علی عمران شاہین