تحریر : عقیل خان پاکستان میں پانامہ لیکس نے کافی ہلچل مچا رکھی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ پانامہ لیکس نے پاکستانی سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ اور بہت سے بیوروکریٹ اور بزنس مینوں کے کالے کارنامے شو کرادیے ہیں تو یہ غلط نہ ہوگا۔وہ سرمایہ جو پاکستانی عوام کے علم میں نہیں تھا وہ شیشے کی طرح سامنے آگیا ہے مگر دکھ کی بات یہ ہے کہ یہ امیر لوگ اب بھی بڑی دیدہ دلیری سے اپنے آپ کو پارسابنانے میں مصروف ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ بڑی سیاسی پارٹیوں کے کئی راہنما پانامہ لیکس کی زد میں ہیں مگریہ پارٹیاں اپنے اپنے ممبران کے خلاف کاروائی کرنے کی بجائے دوسرے پر کیچڑ اچھال رہے ہیں۔ کسی سیاسی پارٹی میں دم خم نہیں کہ وہ اپنے ممبران کے خلاف ایکشن لے سکیں۔ چور مچائے شور کے مترادف تمام سیاستدان بس ایک دوسرے کے خلاف میڈیا تک محدود ہیں۔
پانامہ لیکس کی پہلی قسط میں جہاں شریف فیملی، رحمان ملک، سیف اللہ فیملی اور جنگ گروپ کے میرشکیل الرحمن سمیت بہت سے لوگ شامل تھے مگر زیادہ شورشرابا شریف فیملی کے خلاف جاری ہے۔ جہاں اس فیملی کے ممبران کی اپنی پراپرٹی کے متعلق متضاد بیان بھی سامنے آئے۔ پانامہ لیکس نے “آف شور “کمپنیوں کے پیچھے کارفرما بڑے بڑے سیاستدانوں اور شخصیات کا انکشاف اپنی دوسری قسط میں بھی کردیا ہے۔جس میں چار سو زائد پاکستانیوں کے نام شامل ہیں جن کے نام دو سو سے زائد آف شور کمپنیاں ہیں۔
Sharif Family
یہ آف شور کمپنیاں برٹش ورجن آئی لینڈ، بہاماس اور پاناما میں بنائی گئیں۔ برٹش ورجن آئی لینڈ میں 153 پاکستانیوں کی کمپنیاں ہیں۔پاناما لیکس کے مطابق پاکستان میں سیف اللہ خاندان سب سے زیادہ آف شور کمپنیوں کا مالک ہے۔ سیف اللہ خاندان کے سات افراد 30 سے زائد کمپنیوں کے مالک ہیں۔ ان میں جاوید سیف اللہ کا پہلا نمبر ہے جن کی 17 آف شور کمپنیاں ہیں۔ جہانگیر ترین، علیم خان کے علاوہ عمران خان کی بہنیں بھی آف شور کمپنیاں رکھے ہوئے ہیں۔
بہت سے لوگوں کو آف شورکمپنی کے متعلق معلومات نہیں۔وہ اکثر دوسروں سے پوچھتے ہیں کہ آف شور کمپنیاں کیا ہیں ؟یہ کس قانونی حیثیت کی حامل ہیں اور ان کے مقاصد کیا ہیں ؟ برطانیہ ، ماریشس اور قبرص سمیت لاطینی امریکہ کے کئی ممالک نے اپنے ساحلوں سے دور جزائر میں بیرونی سرمایہ کاری کے حصول کے لئے آف شور کمپنیاں قائم کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔ایسی کمپنیوں کے اصل مالکان پس پردہ رہتے ہیں ،ان ممالک نے یہ کمپنیاں ایسے علاقوں یا جزائر میں قائم کرنے کی قانونی اجازت دے رکھی ہے جہاں ان کے ٹیکس کے قواعد و ضوابط اور قوانین کا اطلاق نہیں ہوتا۔دوسرے لفظوں میں آف شور کمپنیوں میں لگایا گیا سرمایہ ٹیکس سے مستثنیٰ ہوتا ہے۔
ابھی پاکستان میں ان ٹیکس چوروں اور ملک سے پیسہ باہر بھیجنے والوں کے خلاف قانون حرکت میں نہیں آیا مگر ہمارے خان لالا جو حکومت کے خلاف محاذ کھولنے یا دھرنا دینے کے لیے کوئی نہ کوئی بہانے کی تلاش میں رہتے ہیں انہوں نے عوام کوبیدار کرنے کے لیے ملک کے کئی شہروں میں کرپشن کے خلاف جلسے بھی کرڈالے ۔ نوازشریف کو دھمکی بھی دے ڈالی کہ اس نے استعفیٰ نہ دیا تو جاتی عمرہ طواف کے لیے پہنچ جائیںگے۔ دوسری طرف پیپلزپارٹی کے بلاول زرداری بھی حکومت کو وارننگ پر وارننگ دے رہے ہیں۔افسوس اس بات کا ہے کہ یہ دوسروں کو تو دھمکیا ں دے رہے ہیں مگر اپنے ممبران کا ذکر کہیں نہیں کررہے جو اس پانامہ لیکس میں شامل ہیں۔
Imran Khan
عمران خان نے بھی آف شور کمپنی بنانے کا اعتراف کرلیا۔عمران خان نے آف شور کمپنی نیازی سروسز لمیٹڈ 1983 میں رجسٹرڈ کروائی گئی اور نیازی سروسز لمیٹڈ کو بارکلز پرائیویٹ لمیٹڈ بینک اینڈ ٹرسٹ کی معاونت حاصل تھی۔ کپتان نے آف شور کمپنی برطانیہ کے آئی لینڈ میں رجسٹرڈ کروائی۔ یہ آئی لینڈ ٹیکس بچانے والی کمپنیوں کی رجسٹریشن کا بڑا مرکز تصور کیا جاتا ہے۔
بقول خان صاحب میں برطانیہ کا شہری نہیں تھا اس لیے میرے اکاؤٹنٹ نے مجھے بتایا کہ اگر فلیٹ اپنے نام پر لیا تو پورا ٹیکس دینا پڑے گا اس لیے برطانیہ میں آف شور کمپنی بناؤں جو 1983 میں قائم کی اور اسی کمپنی کے تحت آف شور فلیٹ خریدا جو میرا حق تھا کیونکہ مجھے برطانیہ میں پورا ٹیکس نہیں دینا تھا اگر فلیٹ اپنے نام پر رکھتا تو وہاں ٹیکس دینا پڑتا۔
اب سوال یہ ہے کہ جو شخص خود ٹیکس چوری میں ملوث ہو یا دولت حاصل کرنے کے لیے ناجائز ذرائع استعمال کرتا ہوتو وہ دوسروں کی کرپشن پر کیسے انگلی اٹھا سکتا ہے؟ کیا ملک میں کرپشن کرپشن ہوتی ہے اور دوسرے ملک میں کرپشن کرے تو وہ کرپشن نہیں۔ خانصاحب کے متوالے بڑی دیدہ دلیری سے بول رہے ہیں کہ عمران خان نے خود اعتراف کیا کہ انہوں نے آف شورکمپنی بنائی جو بہت بڑی بات ہے۔ میرا سوال ان صاحبان سے یہ ہے کیا کوئی آدمی کسی کو قتل کرکے اعتراف کرلے کہ اس نے فلاں قتل کیا ہے توکیا وہ پاکدامن بن جاتا ہے۔کیا اس وہ سزا سے بچ سکتا ہے۔
خدارا ایسے کرپٹ لوگوں سے اس ملک کو بچاؤ جو اپنے مفاد کے لیے پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کررہے ہیں۔ ہمیں ایسے لوگوں کا کبھی ساتھ نہیں دینا چاہیے جو کرپشن میں ملوث ہیں خواہ وہ کسی بھی سیاسی پارٹی سے تعلق رکھتے ہوںبلکہ ان پارٹیوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے دامن میں لگے ایسے بدنما داغوں کودھودیں تاکہ کوئی ان پر انگلی نہ اٹھا سکے۔