آج کل کے دور میں انسانی زندگی کی کوئی قدرو قیمت کچھ نہیں۔ آئے روز دھماکے، ڈرون حملے، ایکسیڈنٹ اور ذاتی دشمنی میں لوگ بلاجھجک مارے جارہے ہیں۔ ذرا ذرا سی بات پر قتل و غارت شروع ہوجاتی ہے۔ حال ہی میں کوٹ رادھاکشن میں ہونے والے دل سوز واقعے نے انسانی روح تک کو ہلا کر رکھ دیا۔ اتنی بے دردی سے ان دو انسانوں کو جلتی آگ میں جلا کر راکھ کردیا کہ قلم لکھنے سے قاصر ہے۔ آج کل اس واقعہ کا بول بالاہرسو ہے۔ انسان جو اشرف المخلوقات ہے وہ ظلم و ستم کرنے میں اشرف ہے۔
جس طرح کوٹرادھا کشن میں دو مسیحی افراد کو تڑپا تڑپا کر مارا گیا اسی طرح کچھ موت ایسی ہوتی ہیں جو انسان کو تڑپا تڑپا کر مارتی ہیں ۔ انہی میں ایک موت وہ ہے جو فیکٹریوں سے نکلنے والے گندے اور زہریلے پانی کی وجہ سے ہوتی ہے۔ جمبر کے قریب سے ایک روہی نالا گزرتا ہے جو اب گندا نالا بن چکا ہے ۔اس نالے پر بہت سی فیکٹریاں قائم ہیں جن میں پیپرز مل، گھی بنانے کی فیکٹری اور کیمیکل فیکٹری شامل ہیں۔ کیمیکل فارس لمیٹڈ ، مردہ جانوروں سے چربی نکالنے و فیڈ بنانے والی مہر برادرز و دیگر فیکٹریاں اپنا کیمیکل زدہ بدبودار اور انتہائی زہریلا پانی اس میں ڈال رہی ہیں ۔روہی نالے پر پاکستان کی سب سے بڑی پیپرمل کے علاوہ اور بہت سی پیپرز مل بھی ہیں ۔جب ان ملز کے گندے کیمیکل کو نالے میں پھینکا جاتا ہے تو اتنی بدبو آتی ہے کہ مل کے اردگرد کے علاقوں میں کئی کلومیٹر تک سانس لینا مشکل ہوجاتا ہے۔
جب ان فیکٹریوں کے خلاف کئی بار اخبارات میں خبرشائع ہوئیں تو فیکٹری مالکا ن سمیت حکومتی ادارے حرکت میںتو ضرور آئے مگر عوام کی حمایت میں نہیں بلکہ عوام پر دباؤ ڈالنے کے لیے۔ انہوں نے سب سے پہلے فیکٹریوں کے ساتھ منسلک گاؤں کے مسجد مکتب سکول کے اساتذہ اور رہائشیوں پر دباؤ ڈالنا شروع کردیا کہ آپ لوگ ہمیں لکھ کر دیں کہ ہمیں ان فیکٹریوں سے کوئی پریشانی نہیں ہے جبکہ اس سلسلہ میںکچھ عرصہ پہلے اساتذہ کرام اورعلاقے کے رہائشیوں نے صحافیوں کو بتایاتھاکہ ہم عرصہ دراز سے عذاب کی زندگی گزار رہے ہیں اور کوئی بھی ہمارا پرسان حال نہیں ہے کیونکہ ہم غریب لوگ ہیں اور ہماری کوئی سنتا ہی نہیں ہے اور ہم نے بڑوں بڑوں کے بھی دروازے کھٹکھٹائے مگر کوئی بھی محکمہ ہماری بات سننے کو تیار ہی نہیں۔
ستم بالائے ستم اس روہی نالے کا زہریلا پانی پنجاب کے 13 اضلاع کو سیراب کرنے والی بڑی نہربی ایس لنک کینال میں گرا یا جارہا ہے جس سے پنجاب کے 13 اضلاع قصور، اوکاڑہ، وہاڑی، پاکپتن، بہاولنگر، بہاولپور، رحیم یارخاں سمیت دیگر اضلاع کی لاکھوں ایکڑ زرعی اراضی سیراب ہورہی ہے اور کئی اضلاع کے لوگ بھی اسی نہر کا پانی پینے کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ اس زہریلے پانی سے جہاں پرہزاروں ایکڑ اراضی زہریلی بن رہی ہے وہیں پرہزاروں انسان او رحیوان گندا پانی پینے سے طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہوکر زندہ لاشیں بن چکے ہیں اور محکمہ انہار اور محکمہ ماحولیات کے قانون کے مطابق دریاؤں اور نہروں میں گندا پانی گرانا جرم ہے مگر یہاں پر قابل افسوس بات یہ ہے کہ 13 اضلاع کے انسانوں، حیوانوں اور زمینوں کیلیے خطرہ بننے والی فیکٹریوں کے خلاف تاحال کوئی کاروائی عمل میں نہ لائی جاسکی ہے۔
Factories Toxic Water
محکمہ ماحولیات و دیگر محکمے صرف پیسے بنانے کے چکر میں عوام کی زندگیوں سے کھیلنے والی فیکٹریوں سے صرف اور صرف نذرانے وصول کرتے ہیں ۔حال ہی میں ایک پیپرمل نے مقامی ریسٹورنٹ میں ماحولیات اور دیگر محکمے کے افسران کوعلاقے سے ان لوگوں کو ملوایا جو فیکٹری مالکان کے دوست احباب تھے ۔انہوں نے ان لوگوں سے پوچھ گچھ کی اور اچھا کھانا کھا کر سب اچھے کی رپورٹ دے دی۔ کوئی محکمہ ماحولیات اور محکمہ انہار والوں سے پوچھے ان کے جو نمائندے پوچھ گچھ کرنے آئے تھے وہ عوام سے ملنے آئے تھے یا ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے آئے تھے؟
میں محکمہ ماحولیات اور ان سے وابستہ محکموں سے کہتا ہوں کہ وہ آئیں اور ان کو حقیقت سے روشنا س کراتا ہوں۔ مقامی فیکٹریوں کی طرف سے گندا اور زہریلا پانی زیر زمین ڈالنے کی وجہ سے جمبر سمیت گردونواح اور خصوصاً ” دیو کی”:کا زیر زمین پانی اس قدر زہریلاہو چکا ہے کہ جس کی وجہ سے بچوں، بوڑھوں ، جوانوں اور عورتوں کے دانت ،پیٹ خراب اور ہڈیاں ٹیڑھی ہو چکی ہیں اور اکثر افراد نوجوانی میں ہی بوڑھے لگنے لگے ہیںاورطرح طرح کی بیماریاں لوگوں اور بچوں کو لگ چکی ہیں جبکہ بد بو کی وجہ سے اکثر بچے بیمار رہتے ہیں۔
عوامی و سماجی تنظیموں نے اکثراعلیٰ حکام اور چیف جسٹس آف پاکستان سے دیہاتوں کا زیر زمین پانی گندا کرنے والی فیکٹری مالکان اور متعلقہ محکموں کے نا اہل افسران کے خلاف فوری طور پر کارروائی کرتے ہوئے ان فیکٹریوں کو فوری طور پر بند کرنے کا مطالبہ کیامگر کسی نے بھی ان موت بانٹتی فیکٹریوں اور افسران کے خلاف ایکشن نہیں لیا۔ کیا غریب کی زندگی زندگی نہیں ہوتی؟
ان علاقوں کی آنے والی نسلیں بھی بیماری لیکر پیدا ہوتی ہیں جو غریب شخص اس مہنگائی کے دور میں اپنے بچوں کا پیٹ نہیں پال سکتا وہ کہاں سے ان کے علاج کے لیے لاکھوں روپے لائے؟ میںنے یہ کالم اخبار کی زینت بنانے کے لیے نہیں لکھا بلکہ میں تو چاہتا ہوں کہ میراکالم عوام کی آواز بن کر حکام بالا تک پہنچ جائے اور حکام بالا اور چیف جسٹس آف پاکستان اس کالم کوپڑھ کر ان علاقوں میں انصاف مہیا کرسکیں۔غریب کو بھی وہی حق حاصل ہے جو یہ امیر لوگ اپنے لیے رکھتے ہیں۔ یہ خود تو اپنے گھروں میں منرل واٹر استعمال کرتے ہیں اور غریب سے صاف پانی پینے کابھی حق چھین رہے ہیں۔
Aqeel Khan
تحریر :عقیل خان آف جمبر aqeelkhancolumnist@gmail.com