کپتان کی پارلیمنٹ میں اچانک آمد کے بعد ہمیں بھی کچھ کچھ یقین ہونے لگا ہے کہ ”خلائی مخلوق” نے وزارتِ عظمیٰ کا تاج اُن کے سَر سجانے کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے۔ ویسے بھی کپتان اُس معیار پر پورے اُترتے ہیں جو پاکستان میں وزارتِ عظمیٰ کے لیے درکار ہوتا ہے۔ وزارتِ عظمیٰ کی شرطِ اوّل یہ ہے کہ وزیرِاعظم پارلیمنٹ میں کبھی کبھار پایا جائے ۔کپتان 1820 دنوں میں سے صرف 20 دِن پارلیمنٹ میں تشریف لائے لیکن تنخواہ اور دیگر مراعات پورے پانچ سال کی وصول کیں۔ اِس معاملے میں وہ میاں نوازشریف سے بھی آگے نکل گئے کیونکہ میاں صاحب نے اپنے دَورِ حکومت میں پارلیمنٹ کو لگ بھگ 40 دِن اپنے دیدار سے نوازا۔ پارلیمنٹ میں آمد پر ایک صحافی نے کپتان سے سواال کیا کہ وہ آخری مرتبہ کب پارلیمنٹ میں آئے تھے تو کپتان نے کہا کہ اُنہیں یاد نہیں۔ ہمیں ایسا ہی وزیراعظم چاہیے جسے یہ علم ہی نہ ہو کہ پارلیمنٹ نامی کسی ”چڑیا” کا وجود بھی ہے۔ہمیں یقین کہ اگر کپتان وزیرِاعظم بن گئے تو 20 دِن بھی پارلیمنٹ میں نہیں آئیں گے کیونکہ نئے پاکستان کے لیے وہ جتنے لمبے چوڑے منصوبوں کا اعلان کر چکے ہیں ،اُن کو مدّ ِ نظر رکھتے ہوئے تو اُن کے پاس ”لعنتی پارلیمنٹ” میں جانے کے لیے بیس سیکنڈ کا وقت بھی نہیں ہوگا۔ 24 مئی کو پارلیمنٹ میں وہ 2 ارکان (عمران خاں اور شیخ رشید)بھی موجود تھے جنہوں نے پارلیمنٹ پر لعنت بھیجی تھی۔ شیخ رشید نے تو اپنے بیان سے 2 دِن بعد ہی یوٹرن لے لیا اور اپنے اعلان پر لعنت بھیجتے ہوئے پارلیمنٹ میں ”تشریف” لے آئے لیکن کپتان ڈَٹے رہے کیونکہ اُن کے نزدیک وہ پارلیمنٹ ہی لعنتی تھی جو اُنہیں وزیرِاعظم بھی نہ بنا سکے۔
کپتان کی پارلیمنٹ میں اچانک آمد پر قائدِ حزبِ اختلاف سیّد خورشید شاہ نے کہا بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے سیّد خورشید شاہ بھی ”بھولے بادشاہ” ہیں۔ بھئی! کپتان نے اُسی وقت ہی پارلیمنٹ میں آنا تھا جب ”خلائی مخلوق” اُنہیں یقین دلا دیتی کہ قائدِایوان کی کرسی اُن کی راہوں میں آنکھیں بچھائے بیٹھی ہے۔ کیا ”صاحب نے کھایا پِیا کچھ نہیں ،گلاس توڑا بارہ آنے” کے مصداق وہ صرف لوگوں کی ”سَڑی بُسی” باتیں سننے کے لیے آتے؟۔
اب جبکہ ہمیں یقین ہو چلا ہے اور تجزیہ نگاروں کا خیال بھی یہی ہے کہ کپتان ہی اگلے وزیرِاعظم ہوںگے تو ہم اپنے قارئین کو اُس ”نئے پاکستان” کی ایک ”جھلک” دِکھانے کی سعی کر رہے ہیں جس کی تصویر کشی ہماری چشمِ تصوّر نے کی۔ ”نئے پاکستان” کی تصویرکشی کی بنیادہم نے تحریکِ انصاف کی اُنہی ”حرکات” پر رکھی ہے جن کا مشاہدہ یہ قوم گاہے بگاہے کرتی رہتی ہے، ہم نے اپنی طرف سے کوئی ”ڈَنڈی” نہیں ماری۔ اگر کسی کو نئے پاکستان کی یہ جھلک اچھی لگے تو پیشگی شکریہ اور اگر بُری لگے تو اَزراہِ کرم گالیاں مت دینا۔
2018ء کے انتخابات کے بعد پارلیمنٹ میںاکتیسویں ترمیم کے تحت جو پہلا بِل پیش کیا جائے گا، اُس کے مطابق ”یوٹرن” کو آئینی حیثیت دے دی جائے گی۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ بِل تین چوتھائی اکثریت سے منظور ہو جائے گا۔ متفقہ طور پر اِس لیے منظور نہیں ہو سکتا کہ مولانافضل الرحمٰن ”پھَڈا” ڈال کے بیٹھ رہیں گے کیونکہ اُن کے نزدیک تو اِس آئینی ترمیم کی بجائے اتنا ہی کافی ہوگا کہ جہاں کہیں یوٹرن آئے، وہاں وزیرِاعظم کی تصویر لگا دی جائے۔ ہماری تجویز ہے کہ حکومت اپنی اوّلین فُرصت میں ایک ایسی اکیڈمی کا قیام عمل میں لائے جہاں ارکانِ پارلیمنٹ کو یوٹرن لینے کی باقاعدہ تربیت دی جائے اور اُنہیں بتایا جائے کہ جس طرح ”نظریۂ ضرورت” ملک وقوم کے بہترین مفاد میں ہوتا ہے، اُسی طرح یوٹرن بھی مفادِ عامہ کے لیے ہی لیا جاتا ہے۔ اِس ترمیم سے ”لوٹے” بھی بھرپور فائدہ اُٹھا سکتے ہیں کیونکہ وہ بھی تو ملک وقوم کے بہترین مفاد ہی میں اِدھراُدھر ”پھُدکتے” رہتے ہیں۔
32ویں ترمیم کے تحت کوئی بھی حکومتی یا نِجی تقریب اُس وقت تک منعقد نہیں کی جاسکے گی جب تک اُس میں میوزیکل کنسرٹ کا ”تَڑکا” نہ لگایا جائے۔ اِس ترمیم کا خصوصی اثر عوامی اجتماعات پر ہوگاجہاں ”آم کے آم، گٹھلیوں کے دام” کے مصداق نوجوانانِ وطن اپنے رَہنماؤں کے خطابات سے مستفید بھی ہو سکیں گے اور مدھر موسیقی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے تھوڑا بہت ”تھِرک” بھی لیں گے۔ جب ابرارالحق ”اَج میرا نَچنے نوں جی کردا” گائیں گے تو ”نَچنے نوں جی” تو خوامخواہ کرے گا ہی۔۔۔ ۔ گَر قبول اُفتند، ہماری تجویز ہے کہ میوزیکل کنسرٹ کا اہتمام وزیرِاعظم کے ٹیلی ویژن پر قوم سے خطاب پر بھی کیا جائے۔ اگر خطاب سے پہلے ”قمیض تیری کالی” یا ”کِنّے کِنّے جانا اے بِلّو دے گھر” سُنا دیا جائے تو وزیرِاعظم کی تقریر کا مزہ دوبالا ہو سکتا ہے۔ جب وزیرِاعظم کا قوم سے خطاب شروع ہو تو بَیک گراؤنڈ میں ہلکی ہلکی موسیقی بھی جاری رہے۔ اگر تقریر کے دوران وزیرِاعظم کی کُرسی کے عین پیچھے پرویز خٹک تھِرکتے رہیں تو کیا ہی بات ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ جب کبھی بھی ٹی وی پر وزیرِاعظم کی تقریر کا غلغلہ اُٹھے گا، سارے نیوزچینلز مالکان اُس تقریر کو براہِ راست نشر کرنے کے لیے ننگے پاؤں دوڑ اُٹھیں گے۔ ایسی صورت میں صرف ایک ہی تقریر پر چینلزمالکان سے اَربوں ،کھربوں بٹورا جا سکتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ نئے پاکستان کے اِس پروگرام پر عمل درآمد کی صورت میں مولوی صاحبان ”چوںچاں” ضرور کریں گے کیونکہ وہ تو قوم کو خوش ہوتا دیکھ ہی نہیں سکتے۔ بات اگر اُن کے بیانات تک محدود رہے تو حکومت صَرفِ نظر کرے لیکن اگر معاملہ احتجاجی دھرنوں اور ”فتووں” تک پہنچ جائے تو اُنہیں ایسی ”گِدڑ کُٹ” لگائی جائے کہ دِن میں تارے نظر آجائیں۔ ایسا کرنا اِس لیے بھی ضروری ہے کہ حکومت اگلے پانچ سال چین سے گزار سکے۔ ویسے بھی تحریکِ انصاف دھرنوں کی ماسٹر بلکہ ہیڈماسٹر ہے اِس لیے اُسے اِس معاملے میں مشورے دینا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے لیکن پھر بھی ہم نے مشورہ دینا اپنا فرضِ عین سمجھا۔
ماضی میں کپتان کو ”طالبان خاں” کا خطاب بھی دیا جاتا رہا۔ وہ آج بھی طالبان کے لیے اپنے دِل میں ہمدردی کے جذبات رکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے ”ایویں خوامخواہ” طالبان کے خلاف ایکشن لے کر اپنے آپ کو ”وَخت” میں ڈال لیا۔ ہم کپتان کے اِن خیالات سے مکمل اتفاق کرتے ہوئے یہ تجویز پیش کرتے ہیں کہ طالبان سے مذاکرات کی بحالی کا عمل فوری طور پر شروع کیا جائے اور اِس سلسلے میں بھی ”میوزیکل کنسرٹ” جیسے ہتھیار سے کام لیا جا سکتا ہے کیونکہ موسیقی روح کی غذا ہے اور طالبان کی روحیں ”گندی” ہو چکی ہیں جنہیں پاک کرنے کے لیے میوزیکل کنسرٹ ضروری ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ جب مدھر موسیقی کی دھنیں فضاؤں میں گونجیں گی تو سارے طالبان ہتھیار پھینک کر تھرکنا شروع ہو جائیں گے۔ اِس سلسلے میں یہ احتیاط ضروری ہے کہ تحریکِ انصاف اپنے اتحادی مولانا سمیع الحق کو اپنے اِس پروگرام کی کانوںکان خبر نہ ہونے دے ۔ اگر اُن کے کانوں میں اِس کی بھنک بھی پڑ گئی تو وہ ”پھڈا” ڈال دیں گے۔