اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان کا ایوان بالا پہلے ہی اس بل کی منظوری دے چکا ہے اور اب صدر مملکت کے دستخط کے بعد یہ بل قانون بن جائے گا۔
یہ بل بدھ کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں پیش کیا گیا تھا تاہم کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے منظور نہیں کیا جا سکا تھا۔
جمعرات کو حزب اختلاف کی جماعتوں پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے اس بل میں انسانی حقوق سے’متصادم‘ شقوں پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے اس کی منظوری کو موخر کرنے کا مطالبہ کیا تاہم جماعت اسلامی اور قومی وطن پارٹی نے آج ہی اس کی منظوری کی حمایت کی۔
جس کے بعد رائے شماری میں یہ بل ایوان میں موجود ارکان کی اکثریت نے منظور کر لیا۔
سینیٹ میں منظوری سے پہلے اس بل میں اپوزیشن کی جماعتوں کی 50 سے زیادہ ترامیم کو شامل کیا گیا تھا تاہم قومی اسمبلی میں منظوری سے پہلے اس میں مزید کوئی ترمیم نہیں کی گئی۔
خیال رہے کہ سائبر کرائم بل کا پہلا مسودہ قومی اسمبلی نے اس سال اپریل میں منظور کیا تھا تاہم سینیٹ میں حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں نے اس بل پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھجوا دیا گیا تھا۔
دہشت گردی سے متعلق سائبر جرائم میں ملوث افراد کو 14 برس قید اور 5 کروڑ روپے جرمانے کی سزا دی جا سکے گی
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی سے منظور ہونے والے بل پر بعد میں اپوزیشن اور حکومت کے ایک اجلاس میں مزید غور ہوا اور حکومت نے اپوزیشن کی جانب سے تجویز کردہ درجنوں ترامیم کو بل کا حصہ بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔
سائبر کرائم بل میں حزبِ اختلاف کی جن اہم ترامیم کو شامل کیا گیا ان کے مطابق: سائبر کرائمز کے حوالے سے قائم کی جانے والی خصوصی عدالتوں کے فیصلے کے خلاف 30 دن میں عدالتِ عالیہ میں اپیل کی جا سکے گی۔
اس قانون پر عمل درآمد کا جائزہ لینے کے لیے پارلیمنٹ کی ایک مشترکہ کمیٹی بنائی جائے گی اور سال میں دو مرتبہ اس بل پر عمل درآمد کی رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کی جائے گی۔
اب بل میں صوبوں کے خلاف بات کرنے کو جرم قرار نہیں دیا گیا ہے جبکہ اس سے پہلے یہ قابل سزا جرم تھا۔
پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی یعنی ’پیمرا‘ کی جانب سے جن ٹی وی یا ریڈیو چینلز کو لائسنس جاری کیا گیا ہے وہ اس بل کے دائرہ کار میں نہیں آئیں گے۔
بل میں ایسے 21 جرائم کی وضاحت کی گئی ہے، جن پر ضابطہ فوجداری کی 30 دفعات لاگو ہو سکیں گی۔ اب کسی بھی شخص کے خلاف مقدمہ متعلقہ عدالت میں بھجوانے سے پہلے ایک تحقیقاتی عمل شروع کیا جائے گا۔
سکیورٹی ایجنسیوں کی مداخلت کی روک تھام کے لیے اقدامات کیے جائیں گے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ یہ قانون سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہ ہو۔
پارلیمان سے منظور ہونے والے بل کے مطابق دہشت گردی سے متعلق سائبر جرائم میں ملوث افراد کو 14 برس قید اور 5 کروڑ روپے جرمانے کی سزا دی جا سکے گی جبکہ نفرت انگیز تقریر، فرقہ واریت پھیلانے اور مذہبی منافرت پر سات سال قید کی سزا ہوگی۔
اس کے علاوہ انٹرنیٹ کے ذریعے دہشت گردوں کی فنڈنگ کرنے پر سات سال سزا ہوگی جبکہ بچوں کی غیر اخلاقی تصاویر شائع کرنے یا اپ لوڈ کرنے پر سات سال قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا دی جا سکے گی۔
انٹرنیٹ ڈیٹا کے غلط استعمال اور موبائل فون کی ٹیمپرنگ پر تین، تین سال قید اور دس لاکھ روپے جرمانے کی سزا دی جا سکے گی۔ موبائل فون کی سموں کی غیر قانونی فروخت پر بھی پانچ سال قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔
اس بل کے مطابق انٹرنیٹ مہیا کرنے والوں کا ڈیٹا عدالتی حکم کے بغیر شیئر نہیں کیا جائے گا جبکہ قانون کا اطلاق صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ ملک سے باہر کسی بھی دوسرے ملک میں بیٹھ کر ریاستی سالمیت کے خلاف کام کرنے والے افراد پر بھی ہوگا۔