3 مارچ 2021 پاکستان کی ایوان بالا کا الیکشن ہوا ساری پارٹیوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا حکمران پارٹی کی بظاہر عددی تعداد زیادہ تھی چاہئے تو یہ تھا کہ اپنی تمام نشستوں پر بڑے آرام سے کامیاب ہو جاتی مگر ایسا ہو نہیں پایا شہر اقتدار اسلام آباد کی ہی سیٹ کو لے لیں جو پی ڈی ایم نے حکمران جماعت کے جبڑوں میں سے کھینچ لی جہاں پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے عبدالحفیظ شیخ میدان کارزار میں ورلڈ کپ 92 کے فاتح کپتان کی طرف سے کریز پر بیٹنگ کرنے آئے جنہیں پی ڈی ایم کے بائولر سید یوسف رضا گیلانی کی ای ان سونگنگ یارکر نے کلین بولڈ کر دیا اور پی ڈی ایم نے میدان مار لیا۔
اب دیکھتے ہیں وہ ان سونگنگ یارکر کیسے ہوئی ان یعنی اندر آتی ہوئی گھومتی ہوئی بالکل بلے کو لرزاتی ہوئی بال ہوئی کیسے ان کا یوں تو مطلب اندر آتی ہوئی ہی ہوتا ہے مگر یہاں اس کے معنی یکسر مختلف ہیں یہاں ان سے مراد اندر سے آتی ہوئی یعنی تحریک انصاف میں سے گھومتی ہوئی آتی وہ گیند جس نے گیند کو پوری طرح وکٹوں کی جانب گھومنے میں مدد دیاور وہ گیند سیدھی تحریک انصاف کو ان سے صاف کر گئی اب یہ کھیل ہوا ہے کہ کھیل کے ساتھ کھیل یا کھلواڑ ہوا ہے آیئے یہ بھی دیکھ لیتے ہیں ۔جیسا کہ میں اوپر یہ ذکر کر آیا ہوں کے تحریک انصاف کو باہر سے نہیں بلکہ ان یعنی اندر سے صاف کیا گیا ہے جس سے واضح ہوگیا ہے کہ پاکستان کی سیاست میں کچھ بھی ممکن ہے۔
لہذا اب تحریک انصاف نہیں بلکہ تحریک ان صاف بن گئی ہے اپنے اس عمل سے پی ٹی آئی کے ممبران نے ثابت کر دیا کہ سیاست میں کچھ بھی ہو سکتا ہے کوئی بھی شہر یار آف ہو کر ریڈی ہو سکتا ہے اپنی پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دینے کی بجائے ووٹ ضائع کرنے پر کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ نوٹوں کی بوریاں کھلی ہوئی تھیں تو میرے بھائی کس نے کہا تھا کہ انصافی ہو کر خود اپنی ہی پارٹی کے خلاف نا انصافی کرو پی ٹی آئی وہ جماعت جس کا نعرہ ہی کرپشن کا خاتمہ ہے وہ کرپشن کی زد میں اگر آئے تو اپنے عہد اور عہدے سے غداری کے مرتکب ہوئے کیا ایسے بکائو لوگ جو اپنی جماعت کا بھلا نہ کر سکے وہ اپنے وطن یا غریب ہموطنوں کا بھلا کیسے کر سکتے ہیں تمام محرکات پر نظر رکھنی پڑے گی کہ کیا انصافی بک گئے یا کچھ اور ہوا ہے کہنے والے تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ عامر ڈوگر اور شاہ محمود قریشی جیسی شخصیات نے بھی یوسف رضا گیلانی کو ووٹ عطاء کیا ہے اگر ایسا ہوا ہے تو انکو تو نوٹوں کی ضرورت نہیں تھی پھر انہوں نے ایسا کیونکر کیا اگر کیا ہے تو ؟حیرت کی بات ہے کہ 181 سکور والی ٹیم نوٹوں کی برسات کی وجہ سے 160والی ٹیم سے کس ڈک ورتھ لوئیس میتھڈ کی وجہ سے ہاری عمران خان خود بھی سوچتے ہوں گے بقول پروین شاکر کہ
گھمسان کا رن جیت کے لب بستہ کھڑی ہوں میں پشت سے آئے ہوئے اک وار کے آگے
میں تو کچھ یہی حالت دیکھ رہا ہوں وزیر اعظم عمران خان کی ۔اور ہاں ایک بات اور سوچنے پر مجبور کر رہی ہے کہ قبلہ عمران خان کا بھی تو ووٹ حفیظ شیخ کو نہیں گیا ضائع گیا انکو کس نے منع کیا ووٹ دینے سے ؟کیا حفیظ شیخ انکے اپنے امیدوار نہیں تھے ؟اگر ان کے اپنے امیدوار تھے تو عمران خان اعلیٰ تعلیم یافتہ شخصیت ہیں کوئی ان پڑھ آدمی نہیں کہ جن کو یہ علم نہ ہو کہ ووٹ کیسے کاسٹ کیا جاتا ہے انکا اپنا ووٹ ضائع کرنا بھی معنی خیز ہے ؟کچھ نا کچھ تو ہے میں قطعی یہ نہیں کہتا کہ سب بک گئے مگر کچھ ہوا ضرور ہے ۔یا پھر ایسا ہی ہوا ہے جو پاکستان کے نامور شاعر اور عالمی ادبی تنظیم پاک برٹش آرٹس کے کوارڈینٹر پاکستان محبوب صابر نے اپنے ایک شعر میں سینٹ الیکشن کے تناظر میں کہا ہے کہ
تماشہ گر ہے اذیت میں مبتلا خود بھی بجی ہیں تالیاںجس پر،وہ کھیل تھا ہی نہیں
مجھے بھی مجھے ایسا ہی لگ رہا ہے کہ یہ الیکشن نہیں ہوا بس چن چنائو ہو گیا اگر پی ٹی آئی میں کوئی باغی گروپ ہوتا تو اسلام آباد سے ن لیگ کی خاتون امیدوار بھی فتح سے ہمکنار ہوتی ،وہاں بھی پی ٹی آئی کے اتنے ہی ووٹ مسترد ہوتے جو حفیظ شیخ کے لئے ہوئے ،یہاں بھی پی ٹی آئی کی امیدوار کامیاب نہ ہوتی بلکہ پی ایم ایل (ن) کی جیتتی مگر ایسا ہوا نہیں آخر کیوں ؟صرف یہ کہہ دینا کہ نوٹوں کی بوریوں کے منہ کھل گئے تھے کافی نہیں ،اور یہ بھی نہیں کہ زرداری کی سیاسی بصیرت اور دولت نے پانسہ پلٹ دیا ،یا (ن) لیگ کی قیادت اور طاقت کارفرما رہی ،یا جمیعت علماء اسلام (ف) نے گیم چینجر کا کردار ادا کیا مجھے ایسا کچھ دیکھائی نہیں دے رہا میں چونکہ عوام میں سے ہوں میں صرف اپنی سوچ اور اپنی بساط کے دائرے میں رہتے ہوئے بس اتنی بات کروں گا کہ سب سے پہلے تو یہ دیکھتا ہوں جب سے پی ٹی آئی بر سر اقتدار آئی ہے عوام کو ریلیف دینے کی بجائے تکلیف زیادہ دی مہنگائی کا جن بوتل سے نکل کر عوام کو ہڑپ کر رہا ہے ترقیاتی کام بھی نا ہونے کے برابر ہوئے ہیں برس ہا بر س سے اسمبلیوں میں پہنچنے والے ممبران اسمبلی نے جب یہ دیکھا کہ تین سال ہونے کو آگئے وہ عوام کو دے کچھ نہیں پائے تو انہوں نے عوامی عتاب سے بچنے کے لئے حکومت سے اپنی وفاداریوں کے بڑھتے ہوئے قدم پیچھے کو ہٹانے شروع کر دیئے کہ کل کو عوام کے سامنے کہہ سکیں کہ ہم نے آپ کی فلاح کے لئے پی ٹی آئی کا ساتھ دیا تھا جب انہوں نے آپ کو کچھ نہیں دیا تو ہم نے انکا ساتھ چھوڑ دیا ۔نمبر دو جو میں دیکھ رہا ہوں کہ آنے والے جنرل الیکشن میں ایوان اقتدار میں بیٹھے ہوئے درجنوں ممبران آپ ایسے دیکھے گے جو مسلم لیگ (ن) یا پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑتے دیکھائی دیں گے اس کا واضح ثبوت حال ہی میں ہونے والے ضمنی الیکشن ہیںتاریخ گواہ ہے کہ ضمنی الیکشن ہمیشہ اقتداری پارٹی کے ہی ہوتے ہیں مگر یہاں اسکے بر عکس ہوا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ این آر او نہیں دونگا کی گردان کرنے والوں کو ایک این آر او کی صورت میں یوسف رضا گیلانی کو سیٹ دینا پڑی ہو یہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے نا ! بقول شاعر
میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو گھری ہوئی ہے طوائف تماشب بینوں میں