اس بات میں بھی کوئی شبہ نہیں ہے کہ مدرسے ہمیشہ سے ایک اہم ادارے کی حیثیت سے معاشرے میں موجود رہے ہیں لیکن جو بزرگان دین ان دینی درسگاہوں کو چلاتے تھے ان کی زندگیاں اعلیٰ اقدار کا بیش قیمت نمونہ تھیں اور وہ بلا تفریق محبت ، تحمل ، قوت برداشت اور سماجی سہولت کے اصولوں کو پیش نظر رکھتے تھے۔ ان بزرگوں نے نہ تو سیاست کی اور نہ ہی مدرسوں کو سیاست اور معاشی مفادات کا اکھاڑا بنایا۔ یہ تعلیم و تربیت کے ادارے تھے۔ ان کا انتظام محلے یا علاقے کے شرفاء کرتے اور خوشحال لوگ ازخود ان کی مالی امداد کرتے تھے تا کہ رشد و ہدایت کا سلسلہ جاری رہ سکے۔
یہ ایک فطری عمل تھا اور اسے معاشرے میں وسیع پیمانے پر قبولیت بھی حاصل تھی۔ لیکن گزشتہ تین دہائیوں میں مدرسوں کی تعداد میں جس تیزی سے اضافہ ہؤا ہے ، وہ حیرت انگیز اور چونکا دینے والا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی مدرسوں کا روایتی ماحول اور رول بھی تبدیل کر دیا گیا ہے ۔ اب مدرسوں کے مہتمم پرتعیش زندگی بسر کرتے ہیں اور ان کی شان و شوکت ، جاہ و جلال ، عزت و شہرت اور آمدنی کا ذریعہ وہ درسگاہیں ہوتی ہیں جو ان کے زیر انتظام دین کے ” فروغ ” کے لئے کام کر رہی ہیں۔
سینیٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ملک کے 15 مدرسوں کو پانچ بیرونی ملکوں سے 26 کروڑ روپے لگ بھگ امداد ملتی ہے ۔ ان میں اکثر ایسے مدرسے ہیں جنہیں وزارت داخلہ نے این او سی بھی جاری نہیں کیا۔ اس سے قبل قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی پیش کردہ ایک قرارداد میں مدرسوں میں اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا گیا تھا۔ اس قرارداد کی منظوری کے بعد مختلف شہروں میں مدرسوں کے طالب علموں کی طرف سے اصلاحات کے خلاف سخت احتجاج کیا گیا تھا۔ ان طالب علموں کا کہنا تھا کہ اس طرح حکومت دین کی خدمت کرنے والے اداروں کو ٹارگٹ کرنا چاہتی ہے ۔ حکومت نے بھی قومی اسمبلی کی دیگر قراردادوں کی طرح مدرسوں کی اصلاح کے حوالے سے عوام کے نمائندوں کی آواز پر توجہ دینے کی زیادہ ضرورت محسوس نہیں کی کیونکہ حکومت آسانی سے یہ عذر تراش سکتی ہے کہ ” اور بھی غم ہیں زمانے میں مدرسوں کے سوا لیکن حقیقت احوال ہے کہ پاکستان کو اس وقت جس سب سے بڑے خطرے اور چیلنج کا سامنا ہے اس کا آغاز بھی مدرسوں سے ہؤا اور اب بھی انتہا پسندی اور نفرت کا یہ عفریت انہی درسگاہوں میں پروان چڑھ رہا ہے جو جہاد اور فروغ اسلام کے نام پر معصوم طالب علموں کے ذہنوں میں تعصب اور اشتعال کا بیج بوتے ہیں۔ اگرچہ یہ سلسلہ افغانستان کی پہلی جنگ کے دوران سرکاری سرپرستی سے شروع ہؤا تھا لیکن آہستہ آہستہ ان میں سے بہت سے اداروں نے خود ساختہ اصولوں اور مذہبی توجیہہ کی بنا پر ایک خاص سیاسی ایجنڈے پر کام شروع کردیا تھا۔
اس صورتحال کی اصلاح کے لئے اٹھنے والی ہر آواز کو عقیدے اور دین پر حملہ قرار دے کر چپ کروا دیا جاتا ہے ۔ اس عمل میں ایسے سارے مدرسے بھی ان کے ساتھ ہوتے ہیں جن کا نہ تو اس خاص عقیدہ سے کوئی تعلق ہوتا ہے اور جو نہ ہی انتہا پسندی کی تبلیغ میں مصروف ہیں، لیکن منتظمین اپنے ذاتی مالی مفادات کے پیش نظر اصلاحات کا راستہ روکنے کے لئے ” مدرسوں کا تحفظ ” کے سلوگن تلے اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں اس وقت موجودہ فرقہ بندی ، انتہا پسندی اور شدت پسندی کی روک تھام کے لئے البتہ تمام مدرسوں کو مین اسٹریم کا حصہ بنانا اور ان کے نظام کار کے لئے قواعد و ضوابط تیار کرنا بے حد ضروری ہے۔
سینیٹ میں گزشتہ روز امور داخلہ کے وزیر مملکت نے یہ اعتراف کیا ہے کہ اس وقت ملک میں مدرسوں پر چیک اینڈ بیلنس کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں ہے ۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ حکومت نے نیشنل سکیورٹی پالیسی کے ذریعے اس حوالے سے ایک میکنزم تیار کیا ہے لیکن وزیر مملکت محمد بلیغ الرحمن کی یہ باتیں خود ان کے دوسرے اعتراف سے مسترد ہو جاتی ہیں۔ اسی سیشن میں انہوں نے ایوان کو بتایا کہ ملک کے 15 مدرسوں کو پانچ ملکوں سے 258 ملین روپے وصول ہوئے ہیں۔ ان میں سے گیارہ مدرسے وزارت داخلہ کے این او سی کے بغیر کام کر رہے ہیں اور غیر ملکی امداد وصول کر رہے ہیں۔ گویا وہ غیر قانونی طور سے قائم ہیں اور حکومت اس لاقانونیت کو روکنے میں بالکل بے بس ہے۔
Madrasah Education
مدرسوں کو امداد فراہم کرنے والے ملکوں میں سعودی عرب ، قطر ، متحدہ عرب امارات ، بحرین اور کویت شامل ہیں۔ جن رقوم کا سینیٹ میں ذکر کیا گیا ہے وہ بینکوں کے توسط سے متعلقہ مدرسوں کو فراہم کی گئی ہیں۔ حکومت اس ترسیل کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔ حالانکہ بیشتر مدرسے غیر قانونی ہیں۔ دین کے نام پر قائم ہونے والے کسی بھی ادارے کے منتظمین کا یہ فرض ہے کہ وہ ملک کے مروجہ قانون اور طریقہ کار پر عمل کریں۔ دین پر عمل کرنے والے لوگ اور ادارے معاشرے کے لوگوں کے لئے مثال بنتے ہیں اور رہنمائی کا سبب ہوتے ہیں۔ اگر دینی ادارے قانون شکنی پر اصرار کریں گے تو ان سے خیر کی توقع کیوں کر کی جا سکتی ہے۔
یہ بات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ پاکستان کا وسیع و عریض تاجر طبقہ خواہ ملک کے قوانین کے مطابق ٹیکس ادا نہ کرے لیکن وہ اپنی املاک پر شریعت کے تقاضے کے مطابق سالانہ زکوٰة ادا کرنا نہیں بھولتے ۔ اگرچہ بعض فلاحی ادارے بھی اب ملک سے اکٹھی ہونے والی زکوٰة میں حصہ حاصل کر رہے ہیں لیکن اس مد میں زیادہ رقم مختلف مدارس کو ہی دی جاتی ہے ۔ یہ رقم ایک طرح سے بلیک منی یا کالا دھن میں شمار ہو گی کیونکہ نہ دینے والے کے اکاّنٹ اور کھاتوں میں اس کا اندراج ہوتا ہے اور نہ مدرسے یہ بتانے کے پابند ہیں کہ ان کی آمدنی کے ذرائع کیا ہیں۔
ملک میں مدرسوں کی سرپرستی کی ایک بڑی وجہ تو یہ ہے کہ یہ دین کی تعلیم دینے کے لئے قائم ہوتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی ان کی قبولیت کا سبب بنتی ہے کہ مدرسوں میں غریب طلبہ کا قیام و طعام مفت ہوتا ہے۔ اس طرح یہ مدارس ایک غریب معاشرہ میں ایک اہم سماجی ضرورت پوری کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ اہل خیر اس نقطہ نظر سے بھی ان اداروں کی سرپرستی کرتے ہیں۔ لیکن محض اس عذر کی بنا پر مدرسوں کی آمدنی و اخراجات کو کسی بھی قسم کے کنٹرول سے چھوٹ دینا بھی ایک قومی مجرمانہ غفلت کے مترادف ہے۔
اگرچہ الزام تراشی اور دین کے نام پر دکانداری کے موجودہ ماحول میں ان مقاصد کا حصول دیوانے کے خواب کی تکمیل کے مترادف ہے لیکن اہل پاکستان کو یہ باور کرنا ہو گا کہ اگر انہیں اپنے ملک میں امن قائم کرنا ہے اور فرقہ پرستی اور نفرت کو ختم کرنا ہے تو اس کے حصول کا راستہ اسی تکلیف دہ سفر سے شروع ہو گا۔