قدرت اللہ شہاب اپنے شہاب نامے میں لکھتے ہیں:”مارچ 1949ء میں یواین او کے کمیشن برائے پاک وہند(U.N.C.I.P)نے ایک میٹنگ اس غرض سے منعقد کی کہ سلامتی کونسل کی قرارداد کے مطابق پاکستانی اور بھارتی افواج کو کشمیر سے واپس بلانے کا پروگرام طے کیا جائے۔ پاکستان نے اپنا پروگرام پیش کر دیا۔ بھارت ٹال مٹول کرکے اپنی فوجیں ریاست کی حدودسے باہر نکالنے سے مکر گیا۔
اس ناکامی کے بعد سلامتی کونسل نے جنرل میکناٹن کو اس بحران کا حل نکالنے کا اختیار دیا۔ کافی افہام وتفہیم اورسوچ وبچارکے بعد انہوں نے کچھ تجاویز مرتب کیں۔پاکستان نے ان تجاویز کوقبول کرلیا لیکن بھارت نے مین میخ نکال کر ان میں ترامیم کی ایسی بھرمار کی کہ وہ عملی طورپرمسترد ہوکررہ گئیں۔
جنرل میکناٹن کے بعدسلامتی کونسل نے سراوون ڈکسن (Sir Owen dixon) کواسی مقصد کے لیے میدان عمل میں اتارا۔انہوں نے بھی حالات کاپورا پورا جائزہ لے کربہت سی تجاویز پیش کیں۔ پاکستان حسب معمول مان گیا، لیکن بھارت بدستور اپنی ضد پر اڑا رہا۔ 1951ء اور1958ء کے درمیان ڈاکٹر گراہم نے ہرطرح کے ممکنہ فارمولوں کی بنیاد پر سلامتی کونسل کوچھ رپورٹیں پیش کیں۔
جنہیں سلامتی کونسل کی تائید بھی حاصل تھی۔ اس کے تقریباً ہر فارمولا کو پاکستان منظور اور بھارت نامنظور کرتا رہا۔” مندرجہ بالاحقائق سے آگاہی کے بعد ایک ”کامن سینس” رکھنے والے انسان کے لیے امریکی صدر باراک اوباما کی بھارت کے لیے سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کی تائید کرنا مضحکہ خیز ہے۔ تمام حالات وواقعات اور اثرات کاجائزہ لینے کے بعدذاتی طورپہ میں اس نتیجے پر پہنچاہوں کہ”سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کی حامی” بھر کے امریکہ نے بظاہربھارت کو”ماموں”بنایاہے۔ آئیے! ذرا ان حالات وواقعات پہ غورفرماتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اس وقت پانچ مستقل ارکان پہ مشتمل ہے،جنہیں P5 کہتے ہیں۔ P5 میں چین،روس،برطانیہ،فرانس اورامریکہ شامل ہیں۔یہ تمام ممالک سلامتی کونسل میں پیش ہونے والی کسی بھی قرارداد کو منظور یامسترد کرنے کاحق رکھتے ہیں۔ اس حق کو استعمال کرنے کو”ویٹو پاور” (Veto Power) کہا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں چار ممالک سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت حاصل کرنے کے لیے بے تاب ہیں۔جنہیں G4 کہا جاتا ہے۔ ان میں برازیل، جرمنی، بھارت اور جاپان شامل ہیں۔ان تمام ممالک کی مستقل رکنیت کے راستے میں چند ممالک رکاوٹ ہیں جن کی فہرست مندرجہ ذیل ہے۔
برازیل: میکسیکو، کولمبیا اور ارجنٹینا جرمنی: اٹلی اورسپین بھارت: پاکستان جاپان: جنوبی کوریا علاوہ ازیں ترکی، انڈونیشیا اوردیگر چند ممالک بھی G4کے مستقل رکن بننے پہ احتجاج کرسکتے ہیں۔ صرف بھارت کومستقل رکن بنانے کی حمایت پہ جاپان، برازیل اورجرمنی (G4-1)بھی بھرپور احتجاج کر سکتے ہیں۔ بھارت کامستقل رکن بنناخطے میں پاکستان اور جاپان کے ساتھ ساتھ چین کے لیے بھی تشویش پیدا کردے گا۔ پاکستان جانتاہے کہ بھارت کے ویٹو پاور حاصل کرنے کے بعدمسئلہ کشمیر مزید گھمبیر صورتحال اختیارکرے گا جوکہ چین کے لیے بھی ناقابل قبول ہے۔پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان کابیان بھی اس حوالے سے جاری ہواہے کہ سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کی تعداد میں توسیع کاعمل کافی پیچیدگی پیدا کر سکتاہے۔
Pakistan
لہٰذا 26 جنوری کوجہاں مودی ،اوبامہ کی ملاقات کو اہمیت ملی،وہیں پاکستان کے آرمی چیف اور چین کے آرمی چیف کے فوٹوسیشن کوبھی خاصی اہمیت حاصل ہوئی۔چین نے دوٹوک لہجے میں کہاکہ پاکستان ہمارا فولادی بھائی ہے۔ یہاں بھی بھارت کو چین کی طرف سے ”ویٹو پاور” استعمال کرنے کاخدشہ کافی حدتک موجود ہے کیونکہ چین بھارت کی اس خطے میں اجارہ داری قبول نہیں کرے گا کیونکہ چین کے بھارت کے ساتھ معاملات ہمیشہ ہی دگرگوں رہے ہیں۔
ستمبر2014ء میں صدر چین کادورہ بھی کشیدگی کم نہیں کرپایاکیونکہ انہی دنوں بھارت اور چین کے درمیان سرحدپہ کشیدگی چل رہی تھی ۔سویہ دورہ مخمصے کا شکار رہا جس کا اندازہ بھارت کوبھی ہوگیاتھا۔ امریکہ بھی اس معاملے پہ چین کے ساتھ تعلقات کو بگاڑ نہیں سکتا کہ بھارت کے ساتھ 4ارب ڈالر کی سرمایہ کاری (حالیہ دورے میں ہونے والامعاہدہ) چین کے ساتھ اس کی 560ارب ڈالرکی سرمایہ کاری کا نعم البدل نہیں ہوسکتی۔ اس تمام تجزیے کے بعد یہ کہنابے جانہ ہوگا کہ امریکہ کی تسلی کسی حدتک بھارت کو خوش کرسکتی ہے کہ روس، برطانیہ اورفرانس پہلے ہی حامی بھرچکے ہیں لیکن اس کی حمایت سے بھارت کاسلامتی کونسل کی مستقل رکنیت حاصل کرنا تاحال مشکلات سے بھرپورہے۔
مودی،اوبامہ کی جپھی دیکھ کرگجرات کے مسلمانوں کابالخصوص اور تمام امت کا بالعموم دل پسیج گیا ہو گا۔ امریکہ کی دوغلی پالیسی اب کافی حدتک عیاں ہوچکی ہے۔ یہ وہی مودی ہے کہ جوکشمیرمیں ہندؤوں کو آباد کرکے یہاں آبادی کا تناسب بدلنا چاہتا ہے اور جس پر2002ء کے مسلم کش فسادات کے باعث 2005ء میں امریکہ نے اپناویزا دینے سے انکار کر دیا تھا اور اس کاداخلہ ممنوع قرار دے دیاتھا ۔ایک دہائی کے بعد اسی مودی کواسی امریکہ کاصدرگلے لگا کر افغانستان میں قابل بھروسہ پارٹنر قرار دے رہاہے۔ دوسری جانب یہ وہی بھارت ہے جو گزشتہ 60سالوں سے روس کے ”چرنوں” میں بیٹھاہوا تھا۔ 1992ء کے بعدان کے تعلقات میں کشیدگی کسی حدتک کم ہوئی اور آج اس نے اپنا ”سرپرست” پھر تبدیل کرلیاہے۔
علاوہ ازیں امریکہ نے 2006ء میں بھارت سے بظاہر توانائی میں اضافے کے لیے نیوکلیائی ایندھن کی سپلائی کا معاہدہ کیا لیکن بھارتی انٹیلی جنس کے ایک سینئر افسرکے مطابق یہ ایندھن جنگی عزائم میں بھی استعمال ہوسکتاہے۔ امریکہ نے اس جوہری مواد پرٹریکنگ ڈیوائس بھی نصب کی تاکہ اس کے استعمال سے آگاہ رہ سکے۔ جسے اب ہٹانے کا وعدہ کیاگیاہے۔ یہ ایک پہلو پاکستان کے لیے تشویشناک ہے کہ”ٹریکنگ ڈیوائس” کی موجودگی میں جس بات کا خدشہ موجودہو،اس کی غیر موجودگی میں اس بات کے امکانات خطرناک حدتک بڑھ جائیں گے۔
India , United States
بھارت اور امریکہ کے درمیان بڑھتا رومانس خطے میں باہمی مفادات کے تحفظ کے لیے ہے۔ افغانستان میں پٹ کربھاگنے والی ”سوکالڈسپرپاور” بھارت کومشن کی سربراہی سونپنے کی باتیں کررہی ہے،اوبامہ کادورہ بھارت محض مودی کوافغانستان میں”قدم جمانے کا”حوصلہ ” دینا اور بھارت اس خوش فہمی میں مبتلا ہے کہ مائی باپ!ڈونٹ وری…ہم سب سنبھال لیں گے!مگرجس”مشن” کو 48 نیٹو اتحادی نہ”مکمل” کرسکے بنیااس کی نگہبانی کیونکر کرسکے گا۔تاہم اسے سلامتی کونسل کی رکنیت،سرمایہ کاری اور فنڈز کالولی پاپ تھمادیاگیاہے۔بھارت کے پاس ایک ہی ہتھیار باقی ہے اوروہ پاکستان میں امریکی واسرائیلی شہ پردہشت گردی ۔پاکستان کو اس کے جواب میں اپنے پتے ہوشمندی سے کھیلناہوں گے۔پاکستان کو افغانستان کی حکومت کے ساتھ تعلقات کو ہرسطح پہ فروغ دیناچاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ اور تمام اسلامی ممالک کو ایک پلیٹ فارم پہ اکٹھے کرکے چیلنجز سے نپٹناہے۔