پوری قوم ” اسلامی جموریہ پاکستان ” کی 71 ویں یوم آزادی جوش و جزبہ ، اور عقیدت و احترام سے منانے کی بھر پور تیاری کر رہی ہے۔ 14 اگست 1947 ء کو ” ہندوستان ” کے دو ٹکرے ہوئے ایک بنا پاکستان اور دوسرا ربھارت ۔ اگر تو پاکستان دیگر ممالک کی طرح ایک ملک ہوتا تو پھر بھی پاکستانی قوم اپنا ملی اور ایمانی جزبہ ہوتاکہ اپنی اپنی حثیت کے مطابق ملکی آزادی کی رنگا رنگ تقریبات منعقد کرتے ہیں اپنے محسنوں ، جان نثاروں، شہیدوں غازیوں کو خراجِ تحسین پیش کرتے اور ملک کی بقاء ، عزت و آبروں اور تحفظ کے لئے ہر وہ اقدام اٹھاتے جو آزاد اور خود مختار اقوام کا وطیرہ امتیاز ہوتا ہے۔
گزشتہ روز وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی پولیس نے الیکشن کمیشن کے دفتر کے سامنے احتجاج کے دوران عدلیہ مخالف نعرے لگانے پر متعدد افراد کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔سابق حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی، متحدہ مجلس عمل اور عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماؤں اور کارکنوں نے گذشتہ ماہ ہونے والے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف بدھ کو الیکشن کمیشن کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا تھا۔مظاہرے کے دوران ان جماعتوں کے کارکنوں نے نہ صرف چیف جسٹس کا نام لے کر اُن کے خلاف نعرے لگائے بلکہ فوج اور اس کے سربراہ کے خلاف بھی شدید نعرے بازی کی تھی۔اس احتجاجی مظاہرے میں ملک کے دو سابق وزرائے اعظم جن میں سید یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف شامل سمیت جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اور متعدد سابق وفاقی وزرا نے شرکت کی تھی۔تھانہ سیکرٹریٹ کے انچارج اور اس مقدمے کے تفتیشی افسر محمد محبوب نے بی بی سی کو بتایا کہ اس مقدمے میں صرف دو افراد کو نامزد کیا گیا ہے اور دونوں کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے۔ان ملزمان میں پیپلز پارٹی کی خاتون کارکن شہزادہ کوثر گیلانی کے علاوہ راجہ امتیاز علی شامل ہیں۔
تفتیشی افسر کے مطابق اس مقدمے میں دیگر نامعلوم افراد کو بھی نامزد کیا گیا ہے اور ویڈیو فلم کے ذریعے دیگر ملزمان کی نشاندہی کرکے اُنھیں گرفتار کیا جائے گا۔پولیس انسپکٹر محبوب کے مطابق ملزمان کے خلاف مقدمہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ سات کے علاوہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 228 کے تحت درج کیا گیا ہے جو کہ عدلیہ اور دیگر ریاستی اداروں کے خلاف تقاریر اور نعرے بازی کرنے سے متعلق ہے۔ جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن جو ہر جموری اور مارشل لاء حکومتوں کی مجبوری یا معذوری بنے ہوئے تھے حکومت کوئی بھی ہو جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے خوب فائدہ اٹھایا ہے۔ قوم کو کشمیر کی آزادی ،کشمیر پر بھارتی مظالم کو رکوانا، بھارتی مظالم کا اصل چہرہ دنیا کو دیکھانا آپ نے وزارت ہوتے ہوئے اس کا کتنا حق ادا کیا ہے وہ الیکشن میں عوام نے آپ کو دیکھا دیا ہے۔
پاکستانی کی سیاسی جماعتیںجن کو ” عوامی عدالت ” نے ووٹ کے ذرئیے رد کر دیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ مدلل ثبوتوں کے ساتھ الیکشن کمیشن کا دروازہ کھٹکھٹاتے ، جموریت کا حسن اجتجاج ہوتا ہے مگر افسوس صد افسوس عدلیہ اور پاک فوج کے خلاف ناشائستہ زبان درازی کر کے اداروں کا تقدس پامال کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ یہ وہ خواہش اور کوشش تھی جو 1947 سے بھارت کر رہا تھا۔
جہاں تک محترم جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اور ان کے تائید کنندہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف اگر آپ جشن آزادی نہیں منائیں گئے تو کوئی لمبا چوڑا فرق نہیں پڑے گا۔ اگر آپ پاکستانی اداروں کے خلاف لوگوں کو بھڑکائیں گئے تب بھی کچھ نہیں ہوگا۔ کیونکہ پاکستان صرف ایک زمین کا ٹکرا نہیں بلکہ ” مدینہ ثانی ” ہے اللہ پاک نے پاکستان کی حفاظت کے لئے خود انتظام کرلیں گئے سب جانتے ہیں کہ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح جب گہری نیند اپنے گھر انگلستان سو رہے تھے۔ دروازے پردستک ہوئی دیکھا تو کچھ نظر نہ آیا۔ پھر سو گئے زمین کو ہلتا ہوا محسوس کیا تو سمجھازلزلہ ہے ۔ تسلی کے لئے اٹھے دیکھا تو ہمسائے خواب خرگوش کے مزے لے کر سو رہے ہے۔ جب تیسری بار آنکھ کھلی تو دیکھا۔ وہ ہستی سامنے ہے جن کے لئے یہ ساری دنیا سارے جہاں بنائے گئے ۔آپ سچے پکے عاشق رسول ۖ تھے۔
پوچھا آپ کون ؟ آواز آئی آپ کا پغمبر ۖ ۔ قائد اعظم محمد علی جناح کا یہ سننا تھا آپ قدموں میں لپٹ گئے( یہ کیفیت صرف عاشقان ِ رسول ۖ ہی سمجھ سکتے ہیں ) برحال آپ ۖ کے حکم کے مطابق آپ واپس تشریف لائے اور مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ ریاست کی تگ و دو میں لگ گئے۔ اللہ پاک نے کامیابی عطاء فرمائی کیوں کہ آپ کی ڈیوٹی سردارالانبیاء خاتم النبین حضرت محمد ۖ نے لگائی تھی۔ یہ زبانی کلامی باتیں نہیں بلکہ ٹھوس اور مدلل ثبوت کے ساتھ صرف ایک نقطہ ثبوت کے لئے پیش کر رہا ہوں اہل علم حضرات بخوبی جانتے ہیں اگر گنتی دنیا کی کسی بھی زبان سے شروع کی جائے تو ایک دو سے لیکر 100 تک جاتی ہے ۔ جب بھی 90 آئے گا اس کے ساتھ 91 پھر 92 آتا ہے لیکن بھارت اور پاکستان کی تقسیم کے وقت ایسا نہ ہوا۔ ایسا ہوتا بھی کیسے؟ میرا کہنے کا مطلب ہے کہ ہم چودہ اگست کو آزاد ہوئے اور بھارت اپنی آزادی کا جشن 15 اگست کو مناتا ہے۔
سب جانتے ہیں کہ گنتی میں پہلے 14 آتا ہے پھر 15 آتا ہے۔ سب جانتے ہیں ایک ہوتا ہے ” ملکی کوڈ ” جب تک کسی بھی ملک کا ملکی کوڈ نہ ملایا جائے تب تک کال کسی دوسرے ملک سے نہیں آسکتی ۔ گنتی کو دماغ میں رکھیں 90 پھر91 اور اس کے بعد 92 آتا ہم آزاد چودہ اگست کو ہوئے ملکی کوڈ ملا 92 انڈیا پندہ اگست کو آزاد ہوا اس کو ملکی کوڈ ملا 91 ۔ ملکی کوڈ92 کی جو فضیلت ہے وہ اللہ پاک اور اللہ پاک کے نبی ۖ ہی بہتر جانتے ہیں عشق رسول والے جانتے ہیں کہ محسن ِ انسانیت نور مجسم رسالتِ مآب ۖ کا اسم گرامی 99 ہے اور آپ ۖ کا زاتی نامِ مبارک محمد ۖ ہے۔ لفظ ِ محمد (ۖ) کے عدد92 ہے۔ یہ نسبت بڑے مقدر کی بات ہے ۔اسی لئے اسلامی جموریہ پاکستان مدینہ ثانی ہے پاکستان دنیا میں ایک ایسا ملک ہے جس کی بشارت اللہ پاک کے پیارے محبوب ۖ نے قائد اعظم محمد علی جناح کو دی تھی جس کے نتیجے میں پاکستان 14 اگست 1947 کو دنیا کے نقشہ پر نمودار ہوا۔ جو ڈیوٹی لگاتے ہیں وہ ہی حفاظت کرتے ہیں ۔ انشااللہ عاشقان رسول ۖ یوم آزادی ملی ، قومی اور دینی جوش و جزبہ سے منا کر ثابت کر دیں گئے پاکستان کا بچہ بچہ عاشق ِ رسول ۖ ہے ۔ پاکستان کے غیور عوام کو آزادی مبارک ہو!