پاکستان اور ہندوستان کی باہمی دشمنی کوئی 66سال پہ محیط نہیں یہ تو تب سے جب محمد بن قاسم نے اس دھرتی کے سینے پہ قدم رکھا تھا ۔جس نے حسن اخلاق سے یہاں کے کرتا دھرتا ئوں کے ازلی دین یا مذہب کو نقب لگا کر ان کی کمر کو بوسیدہ کردیا یعنی یہ دشمنی تب سے ہے جب اس دھرتی یعنی ہندوستان کے پہلے ہندو نے اسلام قبول کیا۔ہندو ایک عیار مکار مگر پرلے درجے کی بزدل قوم ہے۔ وہ مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اسلام کی عالمگیر سچائی کا اور اپنے مذہب کی کمزوری کا احساس کرتے ہوئے خاموش ہوگئی اور بادل نخواستہ ایک ہزار سال تک غلامی کا طوق ڈالے اپنے اچھے وقت کا انتظار کرتی رہی۔
ادھر مسلمان بادشاہ آہستہ آہستہ ذاتی خلفشارکا شکار ہوتے اور کچھ ہندوکی مکاری کی بھینٹ چڑھتے کچھ اپنی اپنے اسلاف کے راستے سے بھٹکتے ہوئے اپنی گرفت کمزور کرتے چلے گئے اور جب انگریز کی آمد ہوئی تب تک مسلمانوں کا اقتدار اپنی ہندوستان میں اپنی آخری سانسیں لے رہا تھا جس کا انگریز نے پورا فائدہ اٹھایا اور کچھ ہندو نے انکی راہ ہمور کردی کیونکہ ہندو کا ساتھ دینے کے لیے میر جعفر میر صادق جیسے لوگ بھی شامل حال رہے ۔پھر اس کے تقریبا ہندوستان پر دو سو سال انگریز کی حکومت رہی اور ہندو ان کے کاسہ لیس رہے۔
اقتدار تو اگریز نے مسلمانوں سے چھینا تھالہذا وہ مسلمانوںکو اپناحریف اور ہندو کو اپنا حلیف سمجھنے لگے یوں مسلمان پستی کا شکار ہونے لگے پڑھنے سے لیکر سرکاری ملازمت کے حصول تک مسلمانو ں کو پرے درجے کا حقیر بنا دیا گیا تھا ۔خیر چلتے چلتے ہندوستان کی انگریز سے آزادی کی بات چل نکلی اور جس میں ہندو اورمسلمان کو اکٹھا کردیا یوں 857 1ء کا زمانہ آگیا لیکن یہاں بھی ہندو کی مکاری نے برصغیر کے لوگوں کے ظلم کی دلدل میں دھکیل دیا ۔پھر انگریز کے سائے میں ہندوستان میں پہلی سیاسی جماعت کا قیا م عمل میں آیا اور ہندونے بعد میںاس کواپنی جماعت قرار دے کر اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز کردیا۔
لوگوںکو یہ باور کروایا کہ وہ ہندوستان کی آزادی کے لیے متحرک ہے۔قائد اعظم نے پہلے پہل اس میں شمولیت اختیا ر کی لیکن جلد ہی اسکے عزائم کو بھانپ کر اس سے علحیدہ ہوگئے۔پھر مسلم لیگ کے پرچم تلے مسلمانان ہند کی آزادی کا نعرہ لیکر ناممکن کو ممکن بنا دیا آج سوچتا ہوں کے ایک وہ لوگ تھے جو ناممکن کو ممکن بنا گئے اور ایک ہم ہیں کے ممکنات بھی حاصل نہیں کر پارہے۔
آج بھی ہم ہندو سے دوستی کے خواہاں ہیں ۔جاگتے میں خواب دیکھتے ہیں اور سوتے میں تعبیر ڈھونڈتے ہیں ۔ہماری قوم کی بد قسمتی کہہ لیں یا پھر ہمارے حکمرانوں کی کم عقلی جب جب جو جو بھی اقتدار میں آیا وہ پاک انڈیا کی دوستی کا خواب آنکھوں میں لیکر آیا اور سرحد کے اس پار آج جتنی حکومتیں آئیں وہ پاکستان مخالف انتخابی منشور کے بل بوتے پہ مسند اقتدار پر برا جمان ہوئیں۔اور ہندو کی مکاری عیاری کا آج کل جادو سر چڑھ کر بو ل رہا ہے یعنی الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق LOCکی خلاف ورزی بھی خود کرتا ہے اور گاندھی کی طرح واویلا بھی خود کرتا ہے۔بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ اس کی زندہ مثال ہیں مگر اس نے کتنی ہوشیاری سے اس معاملے کو دنیا کے نظروں سے چھپا رکھا ہے۔
Pakistan Army
دنیا کی نظر اس معاملے پر نہ پڑے اس لیے وہ اب جان بوجھ کر LOC کی طرف چلا آیا ہے۔ ہمارے ہاں سے کوئی خاص بیان سامنے نہیں آیا سوائے اس کے جو وزیر داخلہ نے کہا کے انڈیا میں کوئی پٹاخہ بھی پھوٹے تو پاکستان کا نام آجاتا ہے۔بجائے یہ کہنے کہ بھئی اتنی زیادہ خار دار تاروں کے ہوتے ہوئے بھی تم پاکستانی فوج کو الزام کیسے دے سکتے ہو تم صاف جھوٹ بولتے ہو مگر یہاں تو ہم اجمل قصاب کو گنہگار مان لیتے ہیں کہ ہماری دوستی میں فرق نہ آجائے۔اس سے آگے لکھنے یا کہنے کے لیے بچتا ہی کیا ہے ۔خود نہیں تو عوام کے جذبات کے احسا س کر لیا جائے۔
ایک دفعہ ڈپلومیسی چھوڑ کر منہ توڑ جواب دو ارے بابا ایٹمی طاقت ہووہ علیحدہ بات ہے کہ ہم اپنے محسنوں کو فراموش کر دیتے ہیں اور دشمنوں کو گلے لگاتے پھرتے ہیں ۔لیکن اب ایسا ہوا تو اپنی ساکھ اور سلامتی کو کھو دو گے ۔اب بات کرنی ہوگی تو خالد بن ولید کے لہجے میں محمود غزنوی کے افکار میں ۔آج کے اس ہلاکو کو درس دینے کے لیے اپنے گھوڑوں کو تیا ر کرنا ہوگا۔ زندگی ایک بار ہے بار بار نہیں تو پھر کیوں نا سر اٹھا کر جیا جائے مجھے یقین ہے جب ہم سیدھے ہوئے تو یہ ہندو ماضی کی طرح اقوام عالم کے قدموں پہ جا گرے گا کیونکہ اس بزدل دشمن کے اپنے تو پائوں ہے ہی نہیں فرض کر لیں اگر ہیں بھی تو وہ سر پہ اٹھا ے پھرتا ہے۔
ایسی قو م کسی کے ہمسائے میں نہیں ہونی چاہیے نا یہ دوست اچھی اور نہ دشمن کیونکہ دوست یہ ہو نہیں سکتی اور دشمنی کے یہ معیار پہ پورا نہیں اترتی ۔لومڑی کی سرشست رکھنے والی قوم سے کیا امید کی جاسکتی ۔بس ہمارے حکمرانوں کو اپنی سوچ بدلنی ہوگی بہت ہوگئی مفاہمت کی بات اب رویہ جارحانہ اپنانا ہوگا۔مجھے چودھری شجاعت حسین کی بات یاد آگئی صحافی دوستوں نے ان سے پوچھ لیا کہ ہمارے پاس ایٹم بم ہے کیا ہم اس بوقت ضرورت چلائیں گے تو وہ بے ساختہ کہہ گئے تو اور کیا ہم نے اسے شب براء ت پہ چلانے کے لیے رکھا ہے۔
Narendra Modi
مجھے لگتا ہے جانے انجانے میں چودھری صاحب پتے کی بات بتا گئے۔اس ہندو لومڑی کو قابو کرنے کے لیے اسے ڈرایا جانا بہت ضروری ہے ۔آج کل پھر ہندوستا ن میں الیکشن کا دور دورہ ہے اور نریندر مودی جیسے لوگ اقتدار میں صرف پاکستان دشمنی کا ایجنڈا لیے مصروف عمل اور کچھ بعید نہیں کہ بھارتی عوام انہیں اقتدار کے منصب تک پہنچا دیں اور خطے کو مذید خطرات سے دوچار کردیں کیونکہ وہ شدت پسند لوگ ہیں اور ہم نام نہاد مصلحتوں کے مارے ہوئے اورریل کی پٹری میںپڑے ہوئے لکڑی کے بد قسمت تختے لوگ نا جانے ہم لوگوں کی قسمت کب بدلے گی۔شائد ہم میں حب الوطنی ختم ہوگئی ہے یا پھر ہم میں آگے بڑھنے کی خواہش نے دم توڑ دیا ہے؟
تحریر:میاں محمودالحسن انصاری مصطفٰے آباد قصور 0321-6591007 0321-6591007