تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم لیجئے، پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے سانحہ ماڈل ٹاون کے ذمہ داران کے استعفیٰ کی ڈیڈلائن ختم ہوتے ہی اے ڈی پی سی اسٹیرنگ کمیٹی کے اجلاس کے بعدایک پُر ہجوم پریس کانفرنس سے خطاب میں للکارتی آواز اور اپنے مخصوص دبنگ انداز سے حکومت کے خلاف 17جنوری سے مُلک گیر احتجاج کے آغا ز کا اعلان کرتے ہوئے دھمکی آمیز اُمید کے ساتھ کہا ہے کہ اَب استعفے ما نگیں گے نہیں لیں گے اور للچا ئی ہو ئی آواز کے ساتھ احتجاج میں آصف علی زرداری، عمران خان ، چوہدری شجاعت، مصطفیٰ کمال( یہ تووقت ہی بتا ئے گا کہ کمال احتجاج میں کیا کما ل دکھاتے ہیں ؟ یا وقت سے پہلے کنی کٹا کر بچ نکلنے کا کو ئی بہانہ ڈھونڈ نکالتے ہیں)راجہ نا صرعباس سمیت دیگر جماعتوں کے صدور کو شرکت کی دعوت بھی دی ہے اِب دیکھنا یہ ہے کہ اِن کی التماس اور درخواست پر کون کتنا آگے بڑھ کر اِن کی احتجاجی تحریک میں شا مل ہوتا ہے ؟ اور کو ن حکمران جماعت سے درپردہ ڈیل کے بعد قادری صاحب کو تسلیوں پر تڑخا کر احتجاجی تحریک کو 17جنوری کے بجا ئے آگے کی کسی نئی تا ریخ میں مقرر کرنے کا مشورہ دے کر ساری احتجا جی تحریک کوٹا ئیں ٹا ئیں فش کراکر حکمران جماعت کے ایجنڈے کو تکمیل پہنچاتا ہے ۔
بہر کیف ،خاطر جمع رکھیں،سترہ جنوری بھی آہی جا ئے گی دیکھ لیتے ہیں ما ضی کی طرح یہ کس کا کیا بگاڑ لیں گے؟سب جا نتے ہیںجو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں ہیں،آج یہ جوسب مل کر اِتنا گرج رہے ہیں یہ سب سترہ تاریخ سے قبل یا اِسی روز یا ایک دوروز گرج کر خود ہی خا موش ہوجا ئیں گے اور پھر ایک اور نئی تاریخ دے کر اپنی سیاست کو اِدھر اُدھر گھوما ئیں گے اور پھر اپنی راہیں لے کر چلتے بنیںگے، جب تک تو خود ہی موجودہ حکومت اپنی مدت ختم کرلے گی اور سب (متوقعہ انتخا بات کی)اپنی انتخا بی مہم میں لگ جا ئیں گے اپنے انتخابی جلسے جلوسوں اور اجتماعات میں ایک دوسرے پر فلگ شگاف الزامات کے میزا ئل چلائیں گے اور اپنی انتخابی مہم کو کا میا بی سے ہمکنار کرنے میں زمین و آسمان کو ملا نے میں لگ جا ئیں گے اور اگلے متوقعہ انتخا بات میں اپنی کا میا بیوں کی خوش فہمی کا شربت پی کر خوش ہوتے اور جھومتے رہیں گے۔
تاہم کچھ بھی ہے مگر آج طاہر القا دری اگر واقعی اپنی احتجا جی تحریک میں اپنے مقا صد کی تکمیل چا ہتے ہیںتو اِنہیں کسی کے کا ندھے پر بندوق رکھ کر چلانے کے بجا ئے اپنے ہی زوربازو پر بھر وسہ کرنا پڑے گا اور بالخصوص یہ پی پی پی پر تو ذرابھی بھروسہ نہ کریں اور اپنی تحریک کی کا میا بی اور مطلوبہ نتائج کے حصول کے لئے تو پاکستان پیپلز پارٹی کی کسی بات پر اعتبار نہیں کیا جاسکتاہے اِس لئے کہ ویسے بھی یہ مفاہمت اور مصالحت پسندی کی چادر اُڑھ کر کسی بھی محاذ پر سوا ئے اپنے حقیقی ذاتی اور سیاسی مفادات کے کسی کو(خاص طور پرنواز،قادری او ردیگر کو) اپنی ذات سے ایک رتی کا بھی فا ئدہ پہنچا نے کی روایت اپنی پچھلی حکومت( دورِ زرداری )میں ختم کرچکی ہے،یوں طاہر القادری اپنی سترہ جنوری کی احتجاجی تحریک کو یہ سمجھ کر آگے مت بڑھا ئیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی اِن کا ساتھ دے گی یا اِن کے شا نہ بشا نہ کھڑی ہوگی تویقینا یہ قادری صاحب کی بڑی بھو ل ہوگی کہ کسی مشکل گھڑی میںزرداری اور بلاول کی پی پی پی فرنٹ لا ئن میں بڑھ کر اِن مدد کرے گی تو ایسا ہرگز نہیں ہے سو علامہ طا ہر القا دری پی پی پی کی کسی بھی ایسی بات پر اعتبار نہ کریںایسا اِس وجہ سے غالب گمان ہے کہ ” پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین آصف علی زرداری اگلے متوقعہ انتخابات میں وفاق میں اپنی حکومت بنا نے اور سینیٹ انتخا بات کے لئے متحرک ہو گئے ہیںاِس مرتبہ زرداری کا ارادہ اپنی بہن فریال تالپور کو چیئر مین سینیٹ بنا نے کا ہے“ جس کے لئے آصف علی زرداری سرگرم ہیں،زرداری جن کی خصلت ہی پلیٹ کے بجا ئے دیگ پر ہا تھ صاف کرنے والی ہے بھلا سوچیں اِس خصلت کے حا مل شخص کی نیت طاہرہ القا دری کی سانحہ ماڈل ٹاون کے حوالے سترہ جنوری سے شروع ہونے والی حکومت کے خلاف تحریک میں شا مل ہوکراپنی ادی بہن کو چیئر مین سینیٹ کے انتخابات میں ناکام کرانے کی کیسے ہوسکتی ہے؟
مگر ٹھیریں ،تھوڑی دیر کو یہ بات بھی ذہن نشیں رکھیںکہ آج جب سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کاشتکاروںسے 182من کا گنا خریدنے کو روادار نہیںہے، مختلف حیلے بہا نے بنارہی ہے اور یہ اِس میں بھی ڈنڈی مار کر130روپے من سے150روپے من گنا کاشتکارں خرید رہی ہے اور گنے کے کاشتکاروں کا استحصال پہ استحصال کئے جا رہی ہے، اور دنیا کو یہ بتا کر اور جتا کر ہمدردیاں سمیٹ رہی ہے کہ شوگر ملز کو مطوبہ اہداف گنے کی مل نہیںرہی ہے تو شوگر ملز 24گھنٹے نہیں چلا ئی جا رہی ہیں گنے کی سیاسی کمی کی وجہ سے شوگر ملز کو گھنٹوں گھنٹوں بند کرنا پڑارہاہے آ ج اگراِس صورتِ حال میں سندھ اور مُلک میں شوگرچینی کا مصنوعی بحران پیداہواتو اِس کی ذمہ دار یہی پی پی پی ہوگی تو بتا ئیں بھلا اِس کے دل میں سا نحہ ما ڈل ٹاو ¿ن کے غریب متاثرین کے لئے کیا اور کتنی ہمدردی ہوگی؟ اور اِس پر آصف علی زرداری کے اکلوتے بیٹے بلاول زرداری کا یہ کہنا کہ ہماری اولین ترجیح سا نحہ ماڈل ٹاو ¿ن کے مظلوموں کو ظالم اور مُلک کے غریب عوام کو غریب سے غریب تر کرنے والے نوازشریف سے انصاف دلا نا ہے اور مُلک کے غریب عوام کی بہتری اور اِن کی زندگی خوشحال کر نے کے لئے بہت سے قا بلِ تعریف اقدامات کئے ہیں جیسا کہ بلاول زرداری بھٹو اکثر مواقعوں پر غریب عوام کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھتے ہیں کہ اِنہیں اورنج ٹرین چا ہئے یا موٹروے چا ہئے؟مگرہما را اصل منصوبہ تو اگلے انتخا بات میںوفاق میں حکومت بنا نے کے بعد غریب عوام کو حقیقی معنوں میں روٹی ، کپڑا اور مکان مہیا کرنا ہے غریب کو اورنج ٹرین اور موٹروے کی ضرو رت نہیں بلکہ غربت سے نجات اور بنیادی حقوق کا حصول ہے جو اِنہیںصرف اور صرف پی پی پی ہی دے گی اور ایسے بہت سے سیراب نما دعوے بلاول عوامی اجتماعات میں کرتے پھر رہے ہیں۔
ارے ، میاں جب دادا مریں گے تو بیر بٹیں گے، ابھی غریب کسا نوں اور کا شتکاروں کا گنا 182روپے من ہی خرید لو تو اِن غریبوں کی مرادیں پوری ہو جا ئیںگیں، سندھ میں پی پی پی غریب کاشتکاروں سے 182 روپے من کا گنا تو خرید نہیں رہی ہے اور دمُلک کے غریبوں کی حالتِ زار ٹھیک کرنے کے عوے بڑے بڑے کررہی ہے؟ سوچیں کہ سندھ اور کراچی میںجلا نے والی سوکھی لکڑی تو 700سے1000روپے من تک فروخت ہو رہی ہے اور تم پی پی پی والے کتنے ظالم ہو کہ تم غریب گنے کے کاشتگاروں سے 182روپے من گنا خریدنے کے بجا ئے 130اور150روپے فی من گنا خریدنے والے اپنے شوگر ملز مالکان اور اپنی جماعت کے ایم این ایز اور ایم پی ایز کی کھلے عام حمایت جاری رکھے ہوئے ہو ، کِسے کیا پتہ ہے ؟ کہ متوقعہ الیکشن 2018ءکب ہوتے ہیں ؟ ہو تے بھی ہیںکہ نہیں؟ اِن کے بارے میں کچھ نہیںکہا جاسکتاہے۔ اور تم ہو کہ پی پی پی والوں مُلک کے غریب عوام کے لئے کچھ نہ کرکے بھی اگلے انتخا بات میں اپنی وفا ق میں حکومت بنانے کا خوا ب دیکھ رہے ہوااَب اِس منظر اور پس منظر میں ذرا سوچیں کہ پی پی پی کے آصف علی زرداری اور بلاول زرداری بھٹو کیسے طاہر القا دری کی سترہ جنوری کو شروع ہونے والی حکومت مخا لف احتجاجی تحریک میں شامل ہوں گے؟اور ن لیگ والوں کو ناراض کری گے۔ (ختم شُد)
Azam Azim Azam
تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم azamazimazam@gmail.com