پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے پانچ سالہ دورِ حکومت میں جس چیز پر سب سے زیادہ زور دیا تھا وہ مفاہمتی سیاست کا نعرہ تھا۔ اس نعرے کی بدولت پی پی پی اپنے پانچ سال کی آئینی مدت تو مکمل کر گئی لیکن اس سے پاکستانی سیاست میں کرپشن کا جو شور بلند ہوا اس کی ذمہ داری کس پر ڈ الی جائے گی؟ کرپشن کی کہانیاں جس طرح پریس اور میڈیا کی زینت بنیں اس نے سیاست کے مقدس پیشے کو بدنام کر کے رکھ دیا۔ دو سابق وزرائے اعظم سید یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کے خلاف وارنٹ گرفتاری کوئی معمولی بات نہیں تھی اور اس کی بنیادی وجہ مفاہمتی سیاست کی کرشمہ سازی تھی جس میں احتسابی روح کو فراموش کر دیا تھا۔اس مفاہمتی سیاست میں اپوزیشن اپنا آئینی کردار ادا کرنے میں ناکام رہی اور چند مخصوص حکومتی وزرا، مشیر اور کارندے اپنی جیبیں بھرتے رہے اور حد تو یہ ہے کہ حجاج اکرام کو بھی نہ بخشا گیا جس کی وجہ سے علامہ حامد سعید کا ظمی کو کئی سالوں تک جیل کی ہوا کھانی پڑی جبکہ وزیرِاعظم سید یوسف رضا گیلانی کے بہت سے چہیتے حکومتی چھتری کی وجہ سے احتسابی تلوار سے بچ جانے میں کامیاب ہو گئے کیونکہ انتظامیہ کی در پردہ حمائت نے انھیں بالکل محفوظ بنا رکھا تھا۔
اسی زمانے میں سید یوسف رضا گیلانی کے بیٹوں کے بارے میں ایف اے ڈرین کے مقدمے میں بہت دھول اڑی اور سید موسی رضا گیلانی کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری ہو گئے جس پر وہ اپنی ضمانت قبل از گرفتاری کروا کر اپنی عزت بچانے میں کامیاب ہو گئے۔ ایک اور اہم کردار توقیر صادق کا ہے جو کہ اوگرا کا چیرمین تھا۔ اس پر بھی ٨٦ ارب کے فراڈ کا مقدمہِ زیرِ سماعت ہے۔ عدالت نے اس کا نام ای سی ایل (ایگزٹ کنٹرول لسٹ) میں ڈالا ہوا تھا لیکن وہ حکومت کی اشیر واد سے ملک سے فرار ہونے میں کامیاب ہو کر یو اے ای پہنچ گیا۔ پہلے وہ کئی دنوں تک ابوظبی میں روپوش رہا لیکن جب اس کی ابو ظبی میں موجودگی کی خبریں پریس میں شائع ہو گئیں تو اس نے خود کو قانون کے حوالے کردیا اور کئی ہفتوں تک جیل میں رہا۔ اسے بڑے حیلے بہا نوں سے یو اے ای میں روکا گیا اور سر توڑ کوششیں کی گئیں کہ وہ جلدی پاکستان واپس نہ لوٹ سکے تاکہ اس کی زبانی خفیہ کہانیاں منظرِ ِ عام پر نہ آسکیں۔ سپریم کورٹ کے حکم پر نیب کی جو ٹیم یو اے ای پہنچی اس نے بھی توقیر صادق کی واپسی میں مزید تاخیری حربے استعمال کئے ۔لیکن ایک دن تو اسے واپس آنا تھا سوہ وہ آیا۔قیر صادق آجکل پاکستان میں ہے اور عدالت نے اسے ریمانڈ پر جیل بھیجا ہوا ہے۔
اس مقدمے کے علاوہ بہت سے دوسرے مقدمات بھی عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں جن میں حکومتی اہلکاروں کی کرپشن کی کئی کہانیاں چھپی ہوئی ہیں جن کا فیصلہ ہونا بہت ضروری ہے تا کہ کرپشن کے منہ زور گھوڑے کو لگام دی جا سکے۔ پارلیمانی جمہوریت میں حکومت ہمیشہ اپوزیشن سے خوفزدہ رہتی ہے کیونکہ وہ حکومت کی ساری نااہلیوں، کرپشن، لوٹ مار اور بے اعتدالیوں کا پردہ فاش کر کے عوام کو حق حقا ئق سے با خبر کرتی ہے لیکن اگر اپوزیشن بھی حکومت کے ساتھ مک مکائو کی پالیسی اختیار کر لے تو پھر عوام کا پرسانِ حال کون ہو گا؟ پچھلے پانچ سالہ دورِ حکومت کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ اپوزیشن نے اپنی ذمہ داریوں کو کما حقہ پورا نہیں کیا۔ اسکی ایک وجہ تو یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت پاکستان کے سب سے بڑ ے صوبے میں تھی لہذا وہ کوئی ایسی حرکت نہیں کرنا چاہتی تھی جسکی وجہ سے جمہوری نظام اپنی پٹری سے اتر جاتا اور یہی وہ مقام تھا جہاں پر احتسابی گرفت کمزور ہونا شروع ہو گئی۔ جب ذاتی مفادات قومی ذمہ داری پر غالب آنے لگیں تو پھر ایسے ہی نتائج سے واسطہ پڑتا ہے۔
Nawaz Sharif
فرینڈلی اپوزیشن نے پاکستان کے وقار اور اسکے احتسابی نظام کوجس بری طرح سے نقصان پہنچایا ہے اسکا ہم اندازہ لگانے سے قاصر ہیں۔ ہر جماعت اقتدار کے سنگھا سن پر بیٹھی ہو ئی ہو تو پھر عوام احتساب کی امیدیں کس سے لگائیں ؟در اصل کوئی بھی جماعت اپوزیشن میں بیٹھنے کا رسک نہیں لیتی کیونکہ اسطرح اسکے اکثر ممبران لوٹے بن جاتے ہیں اور حکومتی بنچوں کا ساتھ دیتے ہیں۔ الیکشن ٢٠١٣ میں مسلم لیگ (ن) کی ہوا اچھی تھی تو کتنے لوٹے جماعتیں چھوڑ کر مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوگئے۔جنرل پرویز مشرف کے اکثر ساتھی مسلم لیگ (ن) میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے تو اس کی وجہ صرف یہی تھی کہ وہ اقتدار سے دور نہیں رہنا چاہتے تھے۔ یہی وہ لوگ تھے جو میاں محمد نواز شریف پر تبرکے بھیجتے تھے اور ان پر بڑی بے رحمانہ تنقید کرتے تھے اور انکا نام لینا پسند نہیں کرتے تھے۔ اس وقت وہ جنرل پرویز مشرف کے حاشیہ نشین تھے اور انکی شان میں قصیدے پڑ ھتے نہیں تھکتے تھے تو اس کی ایک ہی وجہ تھی کہ اقتدار جنرل پرویز مشرف کی مٹھی میں بند تھا اور سب کو حسبِ توفیق کچھ نہ کچھ کھانے کو ملتا رہتا تھا۔ جنرل پرویز مشرف اقتدار سے الگ ہوئے تو اس کے سارے وفادار راتوں رات میاں محمد نواز شریف کی گود میں بیٹھ گئے کیونکہ اب اقتدار کی باری مسلم لیگ (ن) کی تھی۔
عوام نے ایسے ایسے تماشے دیکھے ہیں کہ انھیں بعض سیاست دانوں پر ترس آنے لگ گیا ہے کہ بیچارے کتنے مظلوم اور بے بس ہیں کہ جسے کل تک گالیاں دیتے تھے آج اسے ہی نجات دھندہ بنا کر پیش کر رہے ہیں اور جسے نجات دہند ہ قرار ے رہے تھے اسے قاتل اور غدار ٹھہرا رہے ہیں۔کمال یہ ے کہ ان دونوں قسم کی متحا رب صورتِ حال کیلئے ان کے پاس بے شمار دلائل ہیں یہ الگ بات کہ عوام انھیں موقع پرست، مفاد پرست، لالچی اور بے ضمیروں کی صف میں کھڑا کر تے ہیں اور ان کے افعال وکردار کی وجہ سے ان سے نفرت کرتے ہیں۔ پچھلی حکومت کے پانچ سالہ دور میں قرضوں کی مد میں بے شمار اضا فہ ہوا ہے بیرونی قرضے بڑھ کر ٤٦ ارب ڈ الر ہو چکے ہیں جبکہ لوکل بینکوں سے لئے گئے قرضے ٧٤ کھرب سے بڑھ کر ١٢٦ کھرب ہو گئے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ اتنے سارے قرضوں کی رقوم کہاں خرچ ہوئیں۔ جو کوئی بھی حکومت میں آتا ہے قرضوں کی مد میں اضافہ کر کے رخصت ہو جاتا ہے اور قوم کو مزید مقروض بنا جاتا ہے۔
اب مسلم لیگ (ن) کے وزیرِ خزانہ اسحاق دار نے اپنی پہلی بجٹ تقریر میں قوم پر یہ ایٹم بم گرایا ہے کہ پرانے قرضوں کی ادائیگی کیلئے نئے قرضے لینے پڑیں گئے اور پھر عالمی بینک سے چھ ارب ڈالر کا قرضہ لے لیا حا لانکہ اس سے قبل وہ کشکول توڑنے کی باتیں کیا کرتے تھے اور قوم کی خو داری کی حفاظت کرنے کی نوید سنایا کرتے تھے لیکن جیسے ہی اقتدار ہاتھ میں آیا وہی پرانا گیت جو پچھلی حکومتیں گا یا کرتی تھیں میاں برادارن نے بھی شروع کر دیا ہے۔ قوم اپنے نمائندے اس لئے نہیں چنتی کہ وہ قومی خزانے کو شیرِ مادر سمجھ کر ہضم کر جائیں بلکہ اس لئے چنتی ہے کہ وہ ان کے خزانے کی حفاظت کرے گی اور اے ذاتی مقاصد کیلئے استعمال نہیں کریگی۔ کیا انتخابات میں لوگوں نے اس لئے ووٹ دئے تھے کہ ممبرانِ سمبلی اپنی مراعات میں بے تحاشہ اضافہ کر لیں اور تا حیات ان مراعات سے فیض یاب ہوتے رہیں؟ مسلم لیگ (ن) نے ایک شفاف اور کرپشن سے پاک حکومت قائم کرنے کا وعدہ کیا تھا اور قوم ان سے بجا طور پر اس جانب پیشرفت کی امید لگا ئے ہوئے ہے۔ انھیں اپنے عمل سے ثابت کرنا ہو گا کہ وہ اس معاملے میں کسی سے کوئی رو رعائت نہیں کریں گئے۔
عوام پچھلے کئی سالوں سے سیات کا ایک ہی انداز دیکھ کر تنگ آگئے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہر وہ شخص جس نے بھی پاکستانی خزانے کے ساتھ بد دیانتی کی ہے اسے قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔ ملک کی اقتصادی حالت اب کرپشن کے جھٹکے مزید برداشت نہیں کر سکتی لہذ کرپشن کے ناسور کا کوئی مستقل اور ٹھو حل تلاش کرنا ہوگا۔ پچھے سرسٹھ سالوں میں اس جانب سب نے اپنی آنکھیں بند کی ہوئی تھیں۔ کسی حکومت نے بھی کسی سیاستدان کو کرپشن کی بنیادپر کوئی سزا نہیں سنائی۔ ذاتی انتقام کی خاطر بہت سے مقدمات بنائے گئے لیکن ان کی بنیاد چونکہ جھوٹ پر مبنی ہوتی تھی اس لئے حکومت کی تبدیلی کے بعد وہ سارے مقدمات ردی کی ٹوکری کی نظر ہو جاتے تھے۔ ٢٠٠٧ میں وکلاء تحریک کے نتیجے میں آزاد عدلیہ نے جس طرح اپنے اختیارات کو مجتمع کیا ہے اور ان کا استعمال کیا ہے اس سے امید کی کرن ضرور پھوٹی ہے کہ شائد اس جانب کچھ پیش قدمی ہو سکے اور جو کچھ پچھلے سرسٹھ سالوں میں ممکن نہیں ہو سکا شائد وہ اب ممکن ہو جائے۔