پاکستان میں شخصی حکومت اور اثرات

Nawaz Sharif

Nawaz Sharif

تحریر : آ صف لانگو
شخصیت سے مراد عزت و وقار مر تبہ اور اعلی پہچان یا شہرت کے ہیں۔ شخصیت کو عام طور پر انسان کی اظہا ری شکل سے بھی لیا جاتا ہے۔ جو انسان کی ظاہری اور کردار عمل اور پہچا ن کو ظاہر کرتا ہے۔ اس طرح شخصیت سے مراد وہ عام اوصاف اور خصوصیات ہوتی ہیں جو ایک شخص کو بشمول تمام جسمانی صلاحیتوں ظاہری اور باطنی طرز عمل، مفادات، اقتدار، تصورات،ذہانت و ذہنیت، اخلاق اور تعلقات وغیرہ تشکیل کرتی ہے۔ شخصیت کے بارے میں ہر صاحب علم و فکر کی اپنی رائے ہو سکتی ہے۔ کون کس نظریہ سے شخصیت کو لیتا ہے اور اس کی کس طرح مفہوم بیان کرتا ہے۔ یہ مفکر کااپنی نظریہ و خیال ہو گا۔ جے ایس رائو سک شخصیت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ” شخصیت افراد کی ہم آ ہنگوں کے اس مجموعے کا نام ہے جو کہ وہ اس ثقافتی و سماجی نظام کے ساتھ کرتا ہے جس میں وہ سکونت پذیر ہو اور جس کا وہ ایک جزو ہو، یہ پیدائشی نہیں ہے۔ بلکہ شخصیت سماجی تجربے سے حاصل کی جاتی ہے۔

مختلف وضاحتوںاور تعریفوں کی روشنی میں کسی شخص کے تمام جسمانی، فکری اور زہنی صفات جس میں شکل و صورت، قد و گفتگو، چال، ڈھال ، جسمانی حرکات و سکنات،اذکار، جذ بات، دلچسپیاں ، انفرادی اور خاندانی حالات،کامیابی اور ناکامیاں اور ملنا جلنا سب مل کر شخصیت کو مکمل کر تی ہیں۔ ایک عام بندہ بھی شخصیت حاصل کرتا ہے۔ اپنے معاشرے میں، سیاسی میدان میں ،ثقافتی و قبائلی میدان میںیا دفتر اور ادارے میں اعلی ٰ مقام حاصل کر کے اپنی شخصیت کو تعمیر کر سکتا ہے مثلا سیاسی میدان میں کوئی بندہ ہمیشہ ایکٹوو ہو کر بہادرانہ اور جذ بانہ کام کرتا رہتا ہے تو اس کی پہچان ہر کارکن و ہر لیڈر میں تک رسائی حاصل کرتی ہے۔ پھر لیگل یا اللیگل کام اس کے لئے بہت آ سان ہو جاتے ہیں۔ اس طرح اس کی شخصیت پزیرائی حاصل کرتی ہے۔ یا کسی کو خاندان کی وجہ سے شخصیت حاصل ہوتا ہے جیسے کہ معروف سیا ستدان و حکمران ذولفقار علی بھٹو کی شہرت کی وجہ سے ان کے مرنے کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی میں ذولفقا ع علی بھٹو کی شخصیت کی جگہ اُن کی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو نے لے لی اور پارٹی کمانڈ، پارٹی ورکرز، عوام اور بیو رو کریٹس میں ہر جگہ ان کی شخصیت نے اپنی مقام بنالی۔ ذولفقار علی بھٹو سے متاثر عوام نے شخصیت پرستی کرتے ہوئے بینظیر بھٹو کو انتخا بات میں ووٹ دیکر دو بار وزیر اعظم کا عہدہ عطا کیا۔

اسی طرح بینظیر بھٹو کی اپنی شخصیت پیدا ہو گئی تو محترمہ کے مرنے کے بعد شخصی نظام جاری رہا اور آ صف علی زرداری جو محترمہ کے شوہر تھے ان کو شخصیت کی ووٹ مل گئے۔ اور بھاری اکثریت کے ساتھ آصف زرداری لیگ یعنی پیپلز پارٹی کے امیدوار کافی تعداد میں فاتح بن گئے اور زرداری کی حکومت قائم ہو گئی اسی طرح آ صف علی زرداری صدر پاکستان کے مقام پر پہنچ گئے اور ان کی اپنی شخصیت پیدا ہو گئی پیپلز پارٹی کی سیاسی دنیا میں شخصیت اب بھی زندہ ہے۔ شخصی اقتدار سے پیپلز پارٹی اور عوام کو بہت نقصان کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے لیکن تبدیلی نہیں آ ئی ہے۔ شخصیت کا یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے بینظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کی مشترکہ شخصیت کی بدولت بلاول زرداری نا م میں بھی شخصیت ڈالنا نہیں بھولا ہے بلاول بھٹو زرداری کو ملنے جا رہی ہے بلکہ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ شخصیت تبادلہ ہو چکی ہے۔ بلاول نے اپنا سیاسی مقام پیدا کیا ہے بھلے اشارے کسی اور کے ہی کیوں نہ ہوں۔ لیکن بات شخصیت کی ہے تو شخصیت بن چکا ہے۔ مستقبل کا حاکم اعلیٰ بھی بن سکتے ہیں اگر میں شعور بیدار نہیں ہوا تو۔

Asif Ali Zardari

Asif Ali Zardari

اسی طرح مسلم لیگ ن کا بھی یہی سلسلہ ہے میاں نواز شریف دو بار پاکستان کے وزیر اعظم منتخب ہوئے اور اب تیسری بات منتخب ہو ئے ہیں۔ ان کی بھی شخصیت بن چکی ہے ان کی شخصیت کی وجہ سے ان کے بھائی میاں شہباز شریف بار بار وزیر اعلیٰ پنجاب رہے ہیں۔ ان کی شخصیت کی وجہ سے ان کی بیٹی اوربیٹوںاور بھتیجوں کو بھی سیاسی میدان میں پہچان مل چکی ہے یعنی ان کی شخصیت بنائی جا چکی ہے ایم این اے اور شریک اقتدار اینڈ اسپیشل پروٹو کول کے زریعے۔ بلوچ، سندھی، پنجابی، پشتون اور سرائیکی قوم پرست پارٹیوں میں بھی نظام شخصیت قائم ہے۔ اس شخصیت کی وجہ سے لوگوں کو عزت، مقام، مرتبہ، شہرت اور ووٹ بھی ملتے ہیں۔ پاکستانی قوم میں 99 فیصد سے زائد لوگ شخصیت پرستی کرتے ہیں اور بہت زیادہ نقصان اٹھا تے ہیں اپنی ہی تبائی اور بربادی بھی دیکھتے ہیں مگر اس دلدل سے چھٹکارا حاصل کرنے ک بجائے شخصیت کو بظاہر کوستے ہیں لیکن پھر بھی شخصیت کے محتاج ہو جاتے ہیں۔

آ پ دوستوں کو شخصیت پرستی کے اثرات اور نقصانات کے بارے میں بلوچستان کے مشہور ضلع جعفر آباد و نصیر آباد میں شخصیت پرستی کی نقصانات اور تبائی کے بارے میں تھوڑا بتاتا ہوں ۔ ضلع جعفر آبادو نصیر آباد پاکستان سے سب زیادہ پسماندہ اضلاع ہیں جہاں لوگ کم بھیڑ بکریاں زیادہ رہتے ہیں ۔ اگر ہم جھٹ پٹ تحصیل کی بات کریں تو اسکی آبادی دو لاکھ سے زائد نہیں ہے لمبائی 20 کلومیٹر اور چھوڑائی 12 کلو میٹر کے لگ بھگ ہے۔ یہاں سے دو وزیر اعظم جس میں مسلم لیگ ق کے دور حکومت2002میں میر ظفر اللہ خان جمالی اورنگران سیٹ اپ2013ء میں نگران وزیر اعظم میر حاجی ہزار خان کھوسہ رہ چکے ہیں ۔ سینٹ چیئر مین اور دو وزیر اعلی بھی رہ چکے ہیں ۔ ایک چھوٹا سا شہر اور پاکستان تاریخ میں اہم مقام پر پہنچنے والے شخصیات نے اس کے ساتھ بہت زیادتی کی ہے۔ اب تک ارکان اسمبلی، سنیٹر اور وزراتوں میں تمام ترقیاتی فنڈز نا جانے کہاں غائب ہوئے ہیں کوئی نہیں جاتنا ہے غائب کر نے والوں سے کسی نے نہیں پوچھا ہے عوام نے اور نہ ہی احتساب کرنے والوں نے دو خاندان ہیں جو جھٹ پٹ پر راج کرتے ہیں کھوسہ اور جمالی خاندان۔

میثا ق جمہوریت کی طرح ایک باری تمہاری ایک باری ہماری والی کہانی ہی محسوس ہوتی ہے۔ ایک دوسرے کے سخت حریف بھی ہیں سیاسی اختلافات بھی بہت پائے جاتے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ عوام کے لیے دونوں کچھ بھی نہیں کرتے ہیں نہ روڈ ، نہ نالی اسکے باجود یہاںکے لوگ بولتے ہیں جئے کھوسہ اور جمالی، نہ تعلیم اور نہ ہی صحت اور نہ ہی کوئی تر قیاتی کام ہوتا ہے۔ سیلاب2010 میں تباہ بھی ہوا تھا سیلاب سے پہلے بھی شہر کھنڈر تھا اور اب بھی کھنڈر ہے۔ ارکان اسمبلی کی ترقیاتی بجٹ کے کروڑوں روپے کہاں چلے جاتے ہیں کوئی نہیں جانتا ہے۔ بازار میں کوئی بند ہ کار سے اتر کر ایک منٹ کے لئے کوئی سبزی یا فروٹ خریدے گاڑی میں بیٹھے وقت اس کے منہ پر اتنی مٹی، گرد و غبار لگ جائے گی کہ کار میں اپنا ہی ساتھ پہچانے سے انکار کرے۔ گلیوں میں پکی سڑکیں نہ ہونے کی وجہ سے موٹر سائیکل چلانے والا 5منٹ کے بعد یا موٹر سائیکل گریج یا کود ہسپتال میں پہنچ جا تا ہے بارش ہوتی ہے تو عدم سیوریج کی وجہ سے دو ہفتے تک گلیوں میں گومنا ممکن نہیں ہوتا ہے۔

Road

Road

دو وزیر اعظموں کا شہر کھنڈر سے بھی بد تر ہے۔ یہاں کے سیاست دان جو ارکان اسمبلی بنتے ہیں یہ شخصیت کے مالک ہیں۔ کھوسہ اور جمالی میں اپنی اپنی شخصیت ہے۔ لوگ شخصیت کے پیچھے جاتے ہیں۔ الیکشن کے دوران ان کو شخصیت کی وجہ سے شخصیت پرست لوگ ووٹ دیتے ہیں اور کامیاب ہوتے ہیں۔ ان شخصیتوں سے کوئی نہیں پوچھتا کہ گلی کیوں نہیں بنواتے ہو سیو ریج کیوں نہیں بنواتے اور ترقیاتی کام کیوں نہیں کرواتے ہو حالانکہ بجٹ تو بہت ملتا ہے۔ اگر ایک سال کا ایم پی اے اور ایم این اے کی بجٹ سے جھٹ پٹ میں شفاف کام ہوں تو جھٹ پت تبدیل ہو سکتا ہے لیکن نہیں شخصیت کی وجہ سے لوگ خامو ش رہتے ہیں ۔ بو لنے والوں کو بھی شخصیت کی وجہ سے خاموش کر ویا جاتا ہے۔ شخصیت شخصیت اور شخصیت نے جعفر آباد کو تباہ کیا ہے برباد کیا ہے اور شہر نہیں بلکہ کھنڈر لگتا ہے۔ کھوسہ اور جمالی دونوں خاندان کو بخوبی علم ہے کہ ووٹ ان ہی لوگوں کو دیا جائے گا اور جو ان کی شخصیت سے متاثر ہیں یا شخصیت کے پیچھے چمچہ بن کر کام کرتے ہیں اپنی مفادات کی خاطر۔ تو یہ لوگ ان کو ہی ووٹ دیں گے اور لیکر دیں گے۔ یہاں پی ٹی آ ئی ، جے یو آ ئی، پیپلز پارٹی، ن لیگ، جماعت اسلامی کے کا رکنان تو ہیں لیکن یہ کا رکنان میں بھی شخصیت کے غلا م ہیں جہاں شخصیت وہاں ان جماعتوں کے کارکنان۔ ہاں البتہ کچھ جماعتوں میں سنجیدہ لوگ ہیں جیسے جے یو آ ئی اور جماعت سلامی جہاں لوگ کافی نظریاتی ہیں اپنے ووٹ کی قیمت کو جانتے ہیں لیکن ان میں بھی بہت لوگ ڈپلو میسی ہی کرتے ہیں۔

دوستوں اسی طرح پاکستان میں ہم شخصیتوں کو ہی آ گے لاتے ہیں، ان کے خاندان کو اور ان کے ساتھیوں کو آ گے لاتے ہیں ووٹ دیتے ہیں۔ ہم نہیں دیکھتے کی فرد کو شخصیت بنا یا تو جا رہا ہے کی یہ فرد شخص بھی ہے کہ نہیں اہل ہے بھی کہ نہیں ایماندار اور مخلص ہے بھی کہ نہیں شخصی حکو متیں بنتی جا رہی ہیں اور عوام تبدیلی کا نام بھی لے رہی ہے پیپلز پارٹی، ن لیگ، ق لیگ، جمعیت سمیت کئی سیاست دانوں کی صرف شخصیت ہے کردار ہر گز نہیں۔ محترم قارئین پاکستان میں سیاسی جماعتوں میں شخصی حکومت کرنے کی بیماری ہے جس وجہ سے ان میں ناکامی کی خوف کم ہے۔ ہم پالیسی اور کردار کو نہیں بلکہ شخصیت کو دیکھتے ہیں جس وجہ سے نا اہل لوگ شخصیت کی آڑ میں فائدہ اٹھا کر حکومت میں بیٹھتے ہیں اور اعلیٰ کردار کے مالک بے روزگار در بدر ہوتے ہیں ۔شخصی حکومت کے اثرات ہی کی وجہ سے آج پاکستان سیاسی بحران کا شکار ہے ۔ معاشی اور معاشرتی نا انصا فیاں حد سے زیادہ ہو تی جا رہی ہیں۔ انھیں کنٹرول کے لئے شخصی حکومت کے بجا ئے اعلیٰ کرداد کے مالک حکمران ہی بہتری لا سکتے ہیں۔

Asif Langove

Asif Langove

تحریر : آ صف لانگو