تحریر : واٹسن سلیم گل پاکستان کی مٹی بہت زرخیز ہے اس مٹی میں جو فصل ہوتی ہے وہ شائد دنیا میں کہیں اور نہی ہوتی یا پھر اتنی تعداد میں نہی ہوتی۔ عبدل ستار ایدھی ، ملالہ یوسف زئ، سسٹر روتھ فاؤ اور عاصمہ جہانگیر جیسی شخصیات جنہوں نے نہ صرف پاکستان بلکہ بین الاقوامی طور پر شہرت حاصل کی اور پاکستان کا نام مثبت انداز میں روشن کیا۔ حیرت انگیز طور پر یہ شخصیات جن کی خدمات کو دنیا جہان میں سراہا گیا مگر اپنے ہی ملک میں جس تزلیل اور تنقید کا سامنا ان کو کرنا پڑا وہ سمجھ سے باہر ہے۔ ان کو غدار کہا گیا۔ اسلام سے خارج قرار دیا گیا۔
سسٹر روتھ کو ان کی موت کے بعد ان کی خدمات کے حوالے سے جو عزت بخشی گئ اس رویہ پر بھی بہت تنقید کی گئ۔ اس حوالے سے ہماری حکومت کا رویہ ہمیشہ منافقعانہ رہا۔ انسانی حقوق کے حوالے سے دنیا میں جو نام عاصمہ جہانگیر نے بنایا آج اس قد کاٹھ کا دوسرا کوئ نام دنیا میں کہیں بھی نظر نہی آتا۔ ان کی شخصیت ،عزم اور اردے ہمالیہ سے کہیں زیادہ اونچے تھے اور ان کے افکار، سوچ اور نظریہ اتنا گہرا تھا کہ لوگ ماریانہ ٹرینچ کی گہرائیوں کو بھول جائیں۔ 1952 میں لاہور میں پیدا ہوئیں۔ اپنے اسکول میں ہیڈ گرل کے طریقہ انتخاب پر آواز اٹھائ کے ہیڈ گرل منتخب کرنے کا طریقہ یہ ہونا چاہئے کہ اسے منتخب کیا جائے نہ کہ اسکول ٹیچر اپنی مرضی سے اپنی پسدندیدہ لڑکی کو ہیڈ گرل بنا دے۔ جنرل ایوب خان کے دور میں عاصمہ کے والد ملک غلام جیلانی کو اس لیئے پابند سلاسل کر دیا گیا کہ وہ ایوب خان کے مخالف محترمہ فاطمہ جناح کو سپورٹ کر رہے تھے۔
عاصمہ جہانگیر نے چھوٹی عمر میں فوجی آمر کے ظلم کے خلاف احتجاج کیا۔ یحیٰ خان کے دور میں بھی جمہوریت کے لئے اپنی آواز بلند کی۔ اس کے بعد جنرل ضیا الحق کے دور میں خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کے لئے آواز اٹھائ تو نظر بند کر دیا گیا۔ 1980 میں اپنی بہن حنا جیلانی کے ساتھ مل کر خواتین کے حقوق کے لئے وومن ایکشن فورم کے نام سے ایک تحریک کا آغاز کیا۔ پاکستان میں خواتین کے حقوق کے لئے یہ پہلی آواز تھی۔ 1986 میں دستک کے نام سے ایک سیل قائم کیا جس میں خواتین کو مفت مقدمات کے لئے وکیل اور بے سہارہ ہونے کی صورت میں شلٹر فراہم کیا جاتا تھا۔ عاصمہ جہانگیر مرتے دم تک پاکستانیوں کے لئے خواتین کے حقوق ، مزدوروں کے حقوق ، بچوں کے حقوق ، اقلیتوں کے حقوق ،انسانی حقوق، مزہبی حقوق، سیاسی اور سماجی حقوق کے لئے جدوجہد کرتی رہی۔ ان حقوق کے حصول کے لئے وہ آمرو، وڈیرو، جاگیرداروں اور مزہبی راہنماؤں سے لڑتی رہی۔ اس دوران ان پر توہین مزہب کا مقدمہ بھی قائم ہوا۔ جنرل ضیاء کے دور میں اس وقت کی شوریٰ نے عاصمہ جہانگیر پر توہین مزہب کا مقدمہ اس لئے قائم کیا کیونکہ عاصمہ نے حدود آرڈینسس میں خواتین اور قلیتوں کے حقوق پر اپنے خدشات کا اظہار کیا تھا۔ میں نے پہلی بار عاصمہ جہانگیر کا نام تب سُنا تھا جب سلامت مسیح اور رحمت مسیح کے کیس کے لئے وہ لاہور ہائ کورٹ میں ان کا دفاع کر رہی تھیں۔ اور ان کے مضبوط دفاع کی وجہ سے سلامت مسیح اور رحمت مسیح کو عدالت نے بے قصور قرار دیا تھا۔
اس کیس کے بعد محترمہ پر قاتلانہ حملہ بھی ہوا تھا جس میں ان کی کار تباہ ہو گئ تھی مگر وہ بچ گئیں تھی۔ مگر 1997 میں لاہور ہائ کورٹ کے جج عارف اقبال بھٹی کو قتل کر دیا گیا کیونکہ اس نے رحمت اور سلامت مسیح کو رہا کر دیا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں اگر اقلیتوں کی کوئ حقیقی آواز تھی تو وہ محترمہ عاصمہ جہانگیر کی آواز تھی جو کہ اب خاموش ہو چکی ہے۔ عاصمہ جہانگیر کے اقدار اور وقار کی بلندی کا تعین اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے دشمنوں کے حقوق کے لئے بھی کبھی خاموش نہی رہی۔ پرویز مشرف کے دور میں نظر بند رہیں مگر جب پرویز مشرف کو اکیلے آرٹیکل 6 کے مقدمے میں نامزد کیا گیا تو اسے زاتی دشمنی قرار دیا اور اس بات پر زور دیا کہ 12 اکتوبر 1999 میں جو جو اس میں ملوث تھا سب کا احتساب برابر ہونا چاہئے۔ ایم کیو ایم، الطاف حسین کی سیاست پر بہت تنقید کرتیں تھی ،ایم کیو ایم کے اراکین بھی محترمہ کے خلاف بہت کچھ کہتے تھے مگر اسی الطاف حسین کے حق میں کھڑی ہوگئ جب ان کو میڈیا پر بلیک آؤٹ کیا گیا۔ نوازشریف کو جمہوری دور کا آمر قرار دیتی رہی جس کے بدلے میں ن لیگ بھی محترمہ کو آڑے ہاتھوں لیتی تھی مگر جب انہوں نے دیکھا کہ نواز شریف کے ساتھ مبینہ طور پر نا انصافی ہوئ ہے تو ان کی آواز بن گئ۔ اقوام متحدہ کے سیکٹری جنرل نےمحترمہ کو ان کی خدمات کے حوالے سے خراج تحسین پیش کیا۔ عاصمہ جہانگیر نہ صرف پاکستان میں جمہوریت اور آئین کے نفاز کی سب سے بڑی علم بردار تھی بلکہ وہ عملی طور پر بھی اس جدوجہد میں سب سے آگے تھی۔ یہ آواز اب خاموش ہوچکی ہے۔
ساری دنیا ان کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے مگر دوسری طرف وہ طبقہ جو معاشرے میں انتشار پھیلانا اپنا اولین فرض سمجھتا ہے سامنے آچکا ہے۔ اس میں دو ایک ٹی وی چینلز اور ان کے اینکرز بھی شامل ہیں ۔ ایک نام نہاد صحافی جو کہ سابق بیروکریٹ بھی رہے ہیں اپنی محترمہ سے نفرت کا اظہار کرتے ہوئے بہت بونے قد کے لگے، ایک اور اینکر صاحب کو یہ پریشانی لگی رہی کہ محترمہ عاصمہ کے جنازے میں خواتین کو کیوں آنے کی اجازت دی اور کیوں محترمہ کا آخری دیدار کرنے کی اجازت دی گئ۔ حیرت ہوئ کہ جب چند مزہبی علما کی جانب سے سید حیدر فارق مودودی کے بارے میں یہ کہا کہ وہ قادیانیوں کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ اور ان کے مسلمان ہونے پر سوال اٹھایا گیا۔سید حیدر فاروق مودودی صاحب کا قصور یہ تھا کہ انہوں نے محترمہ عاصمہ جہانگیر کا جنازہ پڑھا تھا۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر اس خاتون کے بارے میں جو کہ اب اس دنیا میں نہی ہیں ایسی ایسی زبان استمال ہو رہی ہے کہ بے شرموں کو بھی شرم آجائے۔ اس وقت پاکستان کو دنیا میں تنہا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
پاکستان پر الزامات کی بوچھاڑ ہے اور اس کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہے۔ میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ اگر آصمہ جہانگیر جیسے شخصیات کو بین الاقوامی فورم پر پاکستان کا مقدمہ لڑنے کے لئے بھیجا جاتا تو میرا خیال ہے کہ حالات مختلف ہوتے۔ میری حکومت پاکستان سے درخواست ہے کہ عبدل ستار ایدھی اور عاصمہ جہانگیر کے لئے نوبل پیس پرائیز کی تحریک کو سپورٹ کیا جائے۔