کراچی (جیوڈیسک) پندرہ برس قبل آج ہی کے دن جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ وزیراعظم نواز شریف کو پہلے نظر بند پھر جلا وطن کر دیا گیا۔ سابق آرمی چیف نے اقتدار 9 برس تک برقرار رکھا۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان کارگل کی جنگ کے بعد اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کے درمیان شدید اختلافات پیدا ہو گئے۔ اور یہی اختلافات ملک میں ایک اور مارشل لاء کا سبب بنے ، جب 12 اکتوبر 1999 کو وزیر اعظم نواز شریف نے پرویز مشرف کو اس وقت برطرف کر دیا جب وہ سری لنکا کے دورے سے وطن واپس آرہے تھے۔
اور جنرل مشرف کی جگہ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹننٹ جنرل ضیا الدین کو فوج کا نیا سربراہ مقرر کیا گیا لیکن نواز شریف کو اس بات کا اندازہ نہ ہوا کہ پرویز مشرف کی برطرفی ان کی حکومت کا خاتمہ ثابت ہوگی۔ اس دوران جنرل مشرف کے طیارے کو کراچی میں لینڈنگ سے روک کر اس کا رخ نواب شاہ کی طرف کرنے کا حکم جاری کیا گیا۔
تاہم کور کمانڈر کراچی کے حکم پر فوج نے ایئرپورٹ کا کنٹرول سنبھال لیا اور پرویز مشرف کے طیارے کی کراچی ایئر پورٹ لینڈنگ ہوئی۔ اس دوران پرویز مشرف کے حامی فوجیوں نے سرکاری ٹیلی ویژن ، ریڈیو اور تمام ہوائی اڈوں کا کنٹرول سنبھال لیا۔ دوسری جانب وزیراعظم ہائوس پر بھی فوجی دستے تعینات کر دیئے گئے۔
14 اکتوبر کو پرویز مشرف نے آئین معطل کر کے ملک میں ایمرجنسی کا اعلان کر دیا اور ایک عبوری آئینی حکم نامہ جاری کیا گیا جس کے تحت پرویز مشرف نے ملک کے چیف ایگزیکٹو کے عہدے کا چارج سنبھال لیا۔ قومی اسمبلی، سینیٹ اور چاروں صوبائی اسمبلیاں تحلیل کر دی گئیں۔ تاہم اس وقت کے صدر رفیق تارڑ اپنے عہدے پر برقرار رہے۔
جنوری 2001 میں نواز شریف کو ایک معاہدے کے تحت جلا وطن کر دیا گیا ۔ پرویز مشرف نے 2002 میں ریفرینڈم کرایا جس میں کامیابی کے بعد جنرل پرویز مشرف نے 2008 تک ملک میں اپنا اقتدار قائم رکھا ، جبکہ 2002 میں ہی عام انتخابات کے بعد سول انتظام بحال ہوئے ، یوں تو پاکستان میں آخری مارشل لاء کو 15 برس گزر گئے لیکن اب بھی اس کے اثرات پاکستان کی سیاست اور نظام پر نمایاں نظر آتے ہیں۔