تحریر : محمد شاہد محمود کسی بھی ملک میں جمہوری استحکام سے ہی معاشی، تجارتی، کاروباری اور اقتصادی سرگرمیاں بڑھتی ہیں۔ لانگ مارچ، دھرنوں اور احتجاجی سیاست سے نہ صرف ملک میں انتشار پیدا کرکے سرمایہ کاری روکنے کی کوشش کی گئی بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ بھی متاثر ہوئی اور ایک سازش کے تحت قومی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا۔ھرنوں کے باعث ہی چین کے صدراوربعض دیگر ممالک کے سربراہان کے علاوہ اعلی سطح کے وفود کے پاکستان کے دورے ملتوی ہوئے۔ہمارے عظیم ہمسایہ اوردوست ملک چین کے صدر کے دورے کے دوران اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدوں پر دستخط ہونے تھے اور بعض منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھا جانا تھا لیکن ان دھرنوں کی وجہ سے پاکستان کی ترقی اورعوام کی خوشحالی کے یہ منصوبے التواء کا شکار ہوئے۔پاکستا ن کے 18کروڑ عوام ملک کی ترقی میں رخنہ ڈالنے والوں کو کبھی معاف نہیں کریں گے۔ دنیا میں وہی قومیں کامیاب ہوئی ہیں جو ناخوشگوارماضی کو بھول کرمحنت اورجدوجہد سے کام کرتی ہیں اور آگے بڑھتی ہیں اورہم بھی دھرنوں اورمنفی سیاست سے ضائع ہونے والے قیمتی وقت کی تلافی محنت اور جہد مسلسل سے کریں گے۔
پاکستان عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر طاہر القادری کو عمران خان کی بے وفائی نے دھرنااچانک ختم کرنے کے فیصلہ پر مجبور کیااور وہ حکومت سے بھی کچھ حاصل نہ کر سکے اور سیاسی مبصرین کو بھی ان پر طعن زنی کا موقع مل گیا۔ ڈاکٹر طاہر القادری تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور بعض رہنماؤں کے بیانات اور رویوں سے کافی ناراض تھے۔ تحریک انصاف نے دھرنوں پر توجہ دینے کی بجائے جلسوں کا اعلان بھی غیر متوقع طور پر کردیا جس سے توجہ تقسیم ہوگئی اور ڈاکٹر طاہر القادری کو بھی جلسوں کا اعلان کرنا پڑا حالانکہ دونوں رہنماؤں میں تمام فیصلے باہمی مشاورت سے کرنے پر اتفاق ہوا تھا۔ تحریک انصاف نے طاہر القادری کو یہ بھی یقین دہانی کرائی تھی کہ ملک بھر میں دونوں سیاسی جماعتوں کے جلسوں کا اسٹیج ایک ہی ہوگا اور جلسوں کا آغاز پنجاب کے شہر سے کیا جائے گا۔ ڈاکٹر طاہر القادری کے سال بھر کے پروگرام پہلے سے ہی مرتب شدہ ہوتے ہیں ڈاکٹر طاہر القادری نے لاہور واقع کے بعد دھرنے کا فیصلہ کیا تھا حالانکہ اس سے قبل انکا فیصلہ تھا کہ وہ ملک بھر احتجاجی جلسے اور جلوس ریلیاں نکالیں گے اور یہی بات تحریک انصاف سے بھی طے ہوئی تھی کہ وہ لاہور ماڈل ٹاؤن سانحے کی ایف آئی آر کے اندراج تک دھرنا دیں گے اس کے بعد چلے جائیں گے۔تاہم تحریک انصاف نے ایف آئی آر کے اندراج کے بعد یہ کہہ کر طاہر القادری کو مزید دھرنا دینے پر قائل کیا کہ مستقبل قریب میں بنائے گئے۔
تمام پروگراموں کو اتفاق رائے سے ہی مرتب کیا جائے گا۔ اور اس اتفاق رائے کو ہر لحاظ سے مقدم سمجھا جائے گا۔ مگر جب تحریک انصاف نے جلسے کرنے کا فیصلہ کیا تو یہ فیصلہ اکیلے ہی کرلیا اور اس میں عوامی تحریک کو شامل نہیں کیا جس پر ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنا ایک پیغام بھی عمران خان کو بھجوایا مگر انہوں نے اس پیغام کے جواب میں کہا کہ یہ ان کی کور کمیٹی کا فیصلہ ہے اور ان کی جماعت تمام تر فیصلے کرنے میں آزاد ہے جس پر ڈاکٹر طاہر القادری کو عمران خان کے رویے سے قدرے مایوسی ہوئی اور انہوں نے حکومت کے ساتھ مذاکرات میں کامیابی کا مزید انتظار کئے بغیر اور کوئی ڈیل کے بغیر ہی دھرنا ختم کردیا تاکہ عمران خان کو بھی معلوم ہوسکے کہ اکیلے دھرنے میں بیٹھنا کس حد تک آسان ہے اور بے وفائی کا کیا انجام ہے۔ عمران خان تو عمران خان خود حکومت بھی قادری کے دھرنا ختم کرنے کے فیصلے سے سکتے میں آگئی کہ آخر کو راتوں رات کیا ہوا کہ ڈاکٹر طاہر القادری نے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کردیا۔ حکومت نے حساس اداروں کے ذریعے اس بات کا کھوج لگانے کی بھی کافی کوشش کی مگر اس میں کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔
Nawaz Sharif
وزیراعظم نواز شریف نے اس دھرنے سے ڈاکٹر طاہر القادری کے خلاف کسی بھی قسم کے بیانات دینے سے روکا۔ حکومت نے ایف آئی آر جو سانحہ ماڈل ٹاؤن واقعے کی وجہ سے درج کی گئی تھی اس میں ترامیم کرنے کیلئے ڈاکٹر طاہر القادری سے بار ہار رابطے کی کوشش کی مگر اس میں اسے کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ حکومت کے لئے ابھی بھی وزیراعظم نواز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور دیگر وزراء کے خلاف درج قتل کا مقدمہ پریشانی کا باعث ہے مگر حکومت آخری خبریں آنے تک عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری سے ایف آئی آر ختم کرانے بارے قابل ذکر مذاکرات نہیں کر سکی اور اب ان کی وطن واپسی کی منتظر ہے۔پیپلزپارٹی نے بھی حکومت کے خلاف دسمبر میں کھل کر سامنے آ نے کا فیصلہ کرلیا ، پہلے مرحلے میں حکومت کی پالیسیوں پر تنقید ، مہنگائی، لوڈ شیڈنگ ، بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور نجکاری کے خلاف جلسے جلوس نکالے جائیں گے۔ پیپلزپا رٹی کے مصدقہ ذرائع کے مطابق حکومت کے خلاف باقاعدہ تحریک چلانے کا اعلان لاہور میں 30نومبر کو پیپلزپارٹی کے یوم تاسیس کے موقع پر کیا جائے گا۔ آ صف علی زرداری کو پارٹی رہنماؤں نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ اگر پنجاب میں پیپلزپارٹی کو مضبوط اور آ نے والے قومی و بلدیاتی انتخابات میں اپنی شناخت کو قائم رکھنا ہے تو بھرپور طریقہ سے ن لیگ کی مخالفت کی جائے۔
پیپلزپارٹی ن لیگ کے خلاف اسی طرح کی تحریک چلائے گی جس طرح ن لیگ نے پیپلزپارٹی کے خلاف تحریک چلائی تھی کہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ بھی ان کے پاس اور حکومت کے خلاف مہم بھی چلاتے رہے۔ اسی طرح پیپلزپارٹی سندھ کی حکومت اپنے پاس رکھے گی اور ن لیگ کی طرح ہی اپوزیشن کا کردار اد ا کرے گی۔ یوم تاسیس کے بعد پیپلزپارٹی پنجاب بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں صوبائی سطح پر عہدیداروں کو تبدیل کرے گی جبکہ آئندہ چند دنوں میں پیپلزپارٹی کے ناراض جیالوں اور سابق ذمہ داران سے بلاول بھٹو ملاقات کریں گے اور انہیں متحرک کیا جائے گا۔مسلم لیگ ن نے بھی نومبر کے آ خری ہفتہ میں بھرپور طریقہ سے حکومت مخالف تحریکوں کا جواب دینے کیلئے ضلعی سطح پر کنونشن کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر تحریک انصاف کے جلسوں اور جلوسوں کے جواب میں خاموشی رہی اور اپنے کارکنوں کو متحرک نہ کیا گیا اور عوامی رابطہ مہم شروع نہ کی گئی تو آ ئندہ انتخابات میں نقصان ہو گا، اس لئے عوامی رابطہ مہم کے ذریعے عوام تک اپنی رسائی کو بہتر بنا یا جائے۔
ن لیگ کی قیادت نے صوبائی و ضلعی سطح کے ذمہ داران اور ارکان اسمبلی کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ دس محرم کے بعد عوامی رابطہ مہم تیز کریں اور زیادہ سے زیادہ عوامی پروگرام کروائیں۔ ن لیگ نے پارٹی کو متحرک کرنے کیلئے ایسے تمام عہدیداران جن کی کارکردگی بہتر نہیں ہے ان کو ہٹا کر نئے عہدیدار بنانے اور مشرف دور میں پارٹی کا ساتھ دینے والے کارکنوں کو اہم ذمہ داریاں دینے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات سینیٹرپرویز رشید کہتے ہیں کہ سپر یم کورٹ میں عمران خان کی نوبال سیانکی اپنی ہی وکٹ گرگئی ہے،عمران خان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بات کرنے کو حکومت تیار ہے، پی ٹی آئی چیئرمین ناکامی تسلیم کرتے ہوئے دھرنا ختم کرکے واپس پارلیمنٹ میں آجائیں۔ عمران خان نے دھرنا دے کر پاکستان کی ترقی میں رکاوٹ پید ا کی ہے اور جمہوریت کو نقصان پہنچایا ہے لیکن آگے بڑھنے کے لئے عمران خان سے گلہ شکوہ نہیں کرتے وہ پارلیمنٹ کا حصہ بنیں اور پاکستان کی ترقی میں رخنہ ڈالنا بند کردیں۔ ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لئے سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔