ویسے تو پورے پاکستان کو پولیس اسٹیٹ بنانے کا سلسلہ کافی عرصے سے جاری ہے لیکن اگر گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو پنجاب اس میں کافی حد تک خود کفیل نظر آتا ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم اس بات کا سراغ لگانے میں قاصر ہیں کہ جب بھی پاکستان کے کسی حصے میں معاشی سرگرمیاں شروع کی گئیں جن سے ملکی معیشت کو سہارامل سکتا تھا تو وہاں حالات کیوں خراب کر دیے گئے؟۔ ایسا عموماً پاکستان کے صنعتی شہروں میں ہوتا آیا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد کراچی کو پاکستان کی معاشی شہ رگ کا درجہ حاصل تھا جہاں پاکستان کے تمام علاقوں کے رہنے والے بلا تخصیص نسل آکر مزدوری کرتے تھے اور اسے غریبوں کا دبئی بھی کہا جاتا تھا۔
یہ شہر پاکستان میں سب سے زیادہ زر مبادلہ کمانے والا شہر تھاجسے حکمرانوں نے گزشتہ 25برس سے میدان جنگ بنا رکھا ہے۔ اس کی بربادی میں سب سے زیادہ کردار پولیس نے ادا کیاجو ایک لمبے عرصے تک بھتہ خور اور دیگر جرائم پیش گروپوں کی پشت پنا ہی کر کے ان سے اپنا حصہ وصول کرتی رہی۔ دوسر ی طرف یہی پولیس اپنے سرپرست سیا ستدانوںاور جاگیر داروں کے ”احکامات”بجا لا کر ان کے مخالفین کو جعلی پولیس مقابلوں میں ”پار” کر کے اپنی نوکریاں پکی کرتی رہی۔ کراچی کے حالات خراب ہونے کے بعد سب سے زیادہ زر مبادلہ کمانے کا اعزاز پنجاب کے ایک سرحدی شہر سیالکوٹ کو ملا جو نہ صرف کھیلوں کے سامان، سرجیکل آلات، چمڑے کی مصنوعات اور باکسنگ کا سامان بیرون ملک بھیج کر ملک کو کثیر زر مبادلہ دیتا ہے ”اس کی برآمدات 1,000 ملین امریکی ڈالر سے تجاوز کر چکی ہیں” بلکہ ملک کے لاکھوں افراد کو روزگار بھی فراہم کر رہا ہے۔
یہ پاکستان کاواحد شہر ہے جہاں کی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے ایک بین لاقوامی معیار کی ائیر پورٹ اپنی مدد آپ کے تحت تعمیر کی ۔ سیالکوٹ کو سب سے بڑا اعزاز یہ حاصل ہے کہ تصور پاکستان کے خالق اسی شہر سے تعلق رکھتے ہیں۔ لیکن یہاں پر بھی کچھ عرصے سے پولیس کو مبینہ طور پر عدالتی اختیارات حاصل ہیں جن سے ضلع کی تاریخ بھری پڑی ہے اور پولیس ان کو استعمال کرتے ہوئے سینکڑوں افراد کو جان سے ”مقابلوں” میں مار چکی ہے۔ یہاں کچھ ایسے واقعات بھی رونما ہوئے جن میں حاضر سروس جج حضرات بھی ان فرض شناسوں کے ہاتھوں خالق حقیقی سے جا ملے۔
Police
افسوس ناک حیرت ہے کہ کئی جوانوں کو جن کو عدالت سزا دے چکی تھی جیلوں سے نکال کر مارا گیا اور یہ کارنامے انجام دینے والے انعام کے طور پر ترقیاں بھی حاصل کرتے رہے جن کی تفصیل آگے بیان کی گئی ہے۔ جرائم پر قابو نہ پا سکنے کی نا اہلی کو چھپانے اور امن و امان کے نام پر ”اوپر ”سے دبائو کا بہانہ بنا کر کئی گھروں کے چراغ گل کر دیے گئے۔ سیالکوٹ کے عوام پولیس کے اس خوف ناک کردار کے متعلق کئی بار صوبائی حکام کو مطلع کر چکے ہیں لیکن ان کے کان میں جوں تک نہیں رینگی۔ کئی بار ایسا بھی ہوا کہ نہتے قیدیوں پر گولیاں چلانے والوں کو تمغو ں سے بھی نوازا گیا۔ یہ روایت جاری رہی تو بعید نہیں کہ سیالکوٹ بھی کراچی کا نقشہ پیش کرنے لگے۔
ضلع سیالکوٹ کو امن وامان کا گہواہ بنانے کیلئے محکمہ پولیس نے’ ‘سٹی،صدر،ڈسکہ،سمڑیال،پسرور سرکل” میں تقسیم کیا ہو ا ہے۔جس میں 27تھانے اوردرجن کے قریب پولیس چوکیوں کو قائم کیا ہواہے۔تاریخی حوالے سے یہ شہرپنجاب کے شمال مشرق میں لائن آف کنٹرول پرواقع ہے ۔اس کے شمال میں دریائے چناب اس کی حدود میں داخل ہوتا ہے ۔ سیالکوٹ کی تاریخ 500 سال قبل مسیح پرانی ہے ۔کہا جاتا ہے کہ سیالکوٹ کو راجہ سل نے آباد کیا اور پھر وکرم آدیتیا کے دور میں راجہ سلوان نے اسے دوبارہ آباد کیا۔
یہاں دسویں صدی کے قلعے بھی موجود ہیں جو 1181 ء میں محمود غوری کے دور میں بنائے گئے۔ یہ قلعے آج بھی تاریخ رفتہ کی یادگار ہیں۔ اس شہر کی تاریخ سے پتا چلتا ہے کہ یہاں مختلف ادوار میں مختلف تہذبوں ہندی،ایرانی اور اسلامی تہذیب کا راج رہا ہے ۔سیالکوٹ میں قومی اسمبلی کے 5جبکہ صوبائی اسمبلی کے 10 حلقے ہیں۔ تحریک پاکستان میں بھی اس شہر کا بہت اہم حصہ رہاہے شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کے حوالے سے ہے ۔ علامہ محمد اقبال 1877 ء میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے ،جنہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کوخواب غفلت سے بیدار کیا۔مئی 1944 ء میں یہاں سیالکوٹ کنونشن ہوا جس نے آل انڈیا مسلم لیگ کو پنجاب میں شہرت دی۔
اس کنونشن میں محمد علی جناح، لیاقت علی خان ،چوہدری نصیر احمدملہی،خواجہ نظام الدین، سردار عبدالرب نشتر،ممتاز احمد خان دولتانہ، نواب افتخار حسین خان ممدوٹ اور مولوی تمیز الدین نے شرکت کی۔1965 ء کی جنگ میں سیالکوٹ کے عوام نے پاکستانی افواج کا بھرپور ساتھ دیا۔جنگ عظیم دوئم کے بعد 1965 ء کی جنگ میں سیا لکوٹ میں زیادہ شدت تھی۔1966 ء میں حکومت پاکستان نے سیالکوٹ کے عوام کو1955 ء کی جنگ میں بلند حوصلے کی وجہ سے حلال استقلال کے اعزاز سے نوازا۔1971 ء کی جنگ میں دوبارہ سیالکوٹ میں شدت آئی۔ان میں قابل ذکر بسنتار کی جنگ تھی جو سیالکوٹ شکر گڑھ کے علاقے میں ہوئی۔
سیالکوٹ ایئرپورٹ کا رن وے پاکستان کا سب سے بڑا رن وے ہے جس کی لمبائی تین عشاریہ چھ کلومیٹر ہے اور اس پر دنیا کا سب سے بڑا طیارہ ائیربس تین سو اسی بھی لینڈ کرسکتا ہے۔ اس ایئرپورٹ پر دو ارب ساٹھ کروڑ روپے لاگت آئی ہے ۔ نجی شعبہ کی طرف سے تعمیر ہونیوالے مذکورہ ایئرپورٹ پر بیک وقت بوئنگ 747 ایئرکرافٹ اور 4 بڑے ایئرکرافٹس کی پارکنگ کی گنجائش ہے۔ایک اندازے کے مطابق پوری دنیا میں ہاتھ سے بنے ہوئے فٹبال میں 80ـ85 فیصد سیالکوٹ کے بنے ہوئے ہوتے ہیں۔1994 ء اور1998 ئ کے فٹبال ورلڈ کپ کیلئے فٹبال سیالکوٹ سے بنوائے گئے تھے اور قریباََ 2000 سرجری کے آلات بیرون ممالک برآمد کیے جاتے ہیں۔
یوں تو سیالکوٹ صنعتی حوالے سے پوری دنیا میںمشہور ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے مشہور صنعتی شہروں میں سے تیسرے نمبر پر بھی ہے۔اگرامن وامان کی بات کی جائے تو چند سالوں میں محکمہ پولیس نے جو سب اچھا کی رپورٹ کی ۔وہ یہ ہے کہ 2003ء سے2014تک چند مشہور ہونے والے واقعات کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے ۔ محکمہ پولیس کے ملازمین نے پوری دنیا میں بہت نام کمایاہے۔ 2003 میں پولیس اور قیدیوں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں جیل کے دورے پر آئے چار سول ججزموقع پر جاں بحق ہوگئے تھے ۔ اس وقت کے سینئر سول جج یوسف اوجلہ نے سابق ڈی آئی جی ملک اقبال، سابق ڈی پی او سیالکوٹ جاوید سلیمی، سابق ڈی پی او گجرات راجہ منور حسین اور سابق سپرنٹنڈنٹ جیل سکندر حیات سمیت 28 ملزمان کے خلاف تھانہ سول لائنز سیالکوٹ میں ایف آئی آر درج کرائی۔تھانہ صدرپسرورکے گائوں تحت پور میں ایک ماسٹر کے بیٹے کو اغوا برائے تاوان میں زندہ جلادیاگیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے موقعہ پر پہنچ کر تحت پور میں پولیس چوکی قائم کردی۔ دوسرا افسوس ناک واقعہ موضع بھاگ میں پیش آیا جہاںسات سال کی بچی کو جائیداد کے تنازعہ میں زندہ جلادیاگیا۔وزیراعلیٰ پنجاب کو پھر موقع پر پہنچ پڑا۔ اگست 2008 میں سیالکوٹ میں ایک شخص کو مبینہ پولیس مقابلے میں ٹیکسی ڈرائیور محمد طارق ہلاک اور اس کا ساتھی محمد عنایت زخمی کرنے والے پنجاب پولیس کے 17 اہلکاروں کو عدالت عالیہ نے نو کری سے فارغ کردیا تھا۔ فارغ ہونے والے پولیس اہلکاروں میں چار انسپکٹر اور پانچ سب انسپکٹر بھی شامل تھے۔سیالکوٹ کے قریب بٹر گاؤں میں مشتعل افراد نے 15 اگست 2010 کو دو بھائیوں حافظ منیب اور حافظ مغیث کو تشدد کرکے قتل کر دیا تھا، جبکہ پولیس خاموش تماشائی بنی رہی۔ سابق ڈی پی او وقار احمد چوہان سمیت 28ملزمان کو گرفتار کرلیا گیا۔ جرم میں نو سابق پولیس اہلکاروں سمیت 22 افراد کو سزا سنائی گئی۔
بعد میں متعدد ملزمان باعزت بری ہوگئے۔تمام واقعات میں ملوث افرادپنجاب پولیس کے فرائض سرانجام دے رہیے ہیں۔ سیالکوٹ جیل میں افسروں کی ملی بھگت سے ناصرف قیدیوں کو ہیروئن، شراب اور دیگر منشیات سپلائی ہوتی ہیں بلکہ نوجوان قیدی لڑکیوں کو بھی جیل کے باہر سپلائی کیا جاتا ہے۔جس کا اعتراف سپرنٹنڈنٹ سیالکوٹ جیل عدالت میں ایک مقدمے کی سماعت کے دوران کرچکے ہیں کہ اس قسم کے واقعات جیل کے ماتحت عملے کی ملی بھگت سے ہوتے ہیں۔ جس کی سینئر فوجداری وکیل آفتاب باجوہ نے تائید کی تھی۔ جاری ہے