آج میرے سامنے تبصرے کے لیے جو کتاب ہے وہ رائو رشید، ایم اے، ایل ایل بی (علیگ) جو پاکستان کی پولیس سروس میں رہے، کی یاداشتوں پر مبنی ہے۔اپنی گورنمنٹ سروس کے زمانے میں پاکستان کی سیاست کی اندر کی کہانیوں کے چشم دید گواہ ہیں۔ ڈکٹیٹر ایوب خان، ڈکٹیٹر یخیی خان ،ڈکٹیٹر ضیا ء الحق اور دنیا کے پہلے اور آخری سولین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے کی سیاست کے نشیب و فراز کے قریبی سے واقف کار ہیں۔١ ١٩٥ء میںپنجاب پولیس میں بھرتی ہوئے ،آئی جی پولیس رہے۔ وزیر اعظم ذوالفقار علی کے اسپیشل سیکر ٹیری، ایم آر ڈی تحریک پنجاب کے سیکرٹری اور مساوات اخبار میں بھی رہے۔ وزیر اعظم بے نذیر بھٹو کے وزیر خاص( وفاقی وزیر برائے اسٹیبلشمنٹ) رہے ہیں۔ذوا لفقار علی بھٹو کی بدنام زمانہ ایف ایس ایف( فیڈرل سیکورٹی فورس) کو بنانے والے تھے۔ ١٩٧٧ء میں عملی سیاست میں حصہ لینا شروع کیا۔بھٹوصاحب کی ١٩٧٧ء میں الیکشن مہم کے انچارج رہے ہیں۔
لکھتے ہیں جب میں حکومت پاکستان کی طرف سے سیکورٹی معاملات دیکھنے کے لیے٦٦ ١٩ء سے ١٩٧١ء تک لندن انگلینڈ میں تھا۔ اس دوران بھٹو دو دفعہ لندن آئے۔ایوب خان کی طرف سے ہدایات تھیں کہ بھٹو اور جماعت اسلامی کی کی کڑی نگرانی کی جائے۔ میں روٹین کی رپورٹس پاکستان بھیجتا تھا۔ بھٹو جب اقدار میں آیا تو یہ رپورٹس دیکھیں۔”مجھ سے پوچھا تم انگلینڈ میں ہوا کرتے تھے” ایک قریبی دوست نے کہا بھٹو تم سے ناراض لگتے ہیں۔اس کے باوجود بھٹو نے مجھے آئی جی(ig ( پر موٹ کیا۔ گریڈ٢٢ دیا۔ اپنا اسپیشل سیکرٹیری بنایا۔ ڈی آئی بی ((d.i.b. بنایا۔(سیاستدان گورنمنٹ ملازمین کو نواز کر اپنے مقاصد حاصل کرتے رہتے ہیں) روائو رشید کہتے ہیں بھٹوکے کیا کیا احسانات یاد کروں! ان کا قیاس ہے کہ ضیاالحق کو امریکا نے رول دیا کہ بھٹو کو راستے سے ہٹا دے۔ ان کے مطابق پی پی پی اور پی این اے میں نواب زادہ نصراللہ،اور مفتی محمود جیسے صائب راے حضرات کی وجہ سے معاہدہ ہو گیا تھا۔ اس دوران جنرل جیلانی بار بار مجھ سے معلوم کرتے رہے کہ حالات کیسے ہیں۔
بعد میںمعلوم ہوا کہ سازش کر رہے ہیں کہ معاہدے سے پہلے ہی مارشل لا لگانا چاہتے ہیں۔پروفیسر غفور اور نصراللہ خان پریس کانفرنس کرنے والے تھے،کہ اصغر خان نے ان کو کرسی سے جسمانی طور سے پرے ہٹادیا اور اعلان کیا کہ کوئی معاہدہ نہیں ہوا ۔ہمارے دس پوئنٹ اور ہیں پہلے ان کا فیصلہ ہونا ہے۔کہتے ہیں جب میں پرائم منسٹر ہائوس پہنچا تو میں نے بھٹو کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ جب کوئی اقتدار میں نہ ہو تو وفاداری کا پتہ چلتا ہے۔ بھٹو نے کہا کہ میں تمھیں بھائی کی طرح سمجھتا ہوں۔ رائو رشید کہتے ہیںمیں نے اپنا وعدہ نبھایا ۔خدا کا شکر ہے کہ میں سرخرو ہوا۔ گو کہ بھٹو کی جان تو نہ بچ سکی۔ بھٹو نے نیشنل انٹیلی جینس بورڈ بنایا تھا۔ آئی ایس آئی، انٹیلی جینس ایجنسیوں،انٹیلی جینس بیورو اور اسپیشل برانچ اور بھٹو خود اس کے چیئر مین تھے۔ میں اس کے سیکرٹیری تھا۔تمام رپورٹس کا نچوڑ بھٹو کو لکھ کر بھیجتا تھا۔
١٩٥٦ء جب بطور ایس پی قلات میں تعیناتی کے دوران خان آف قلات امیر احمد یار خان اورسکندر مرزا کی سازش کے متعلق کتاب کے” سرکاری ملامت۔پولیس سروس” کے حصے میں لکھتے ہیں کہ تحریک پاکستان میں خان آف قلات قائد اعظم کے معقدین میں شمار تھے۔ جب قیام پاکستان کا منصوبہ منظورہو گیا۔ تو خان آف قلات کادل بے ایمان ہوگیا۔ ون یونٹ کی مخالفت کی۔ کہا کہ پاکستان کے ساتھ قلات اسٹیٹ بھی ایک آزاد ملک ہوناچاہیے۔افغانستان،ایران،ہندوستان اور انگریزوں سے گفت وشنید شروع کر دی۔ ایران کو چھٹی لکھی۔ کابل سے بات چیت کی۔ ہندوستان اپنا مشن بھیجا،جس کا لیڈر غوث بخش بزنجو اور خان آف قلات کا ہندو فانس منسٹر تھا۔ نہرو سے نہ مل سکے۔مولانا ابو الکلام آزاد سے ملے تو اس نے ڈانٹ کرواپس کر دیا۔ قلات کے دو حصے ہیں سراوان اوپر والا،چھالاوان نیچے والا۔جب کوئی نہیں مانا تو ان دونوںسرداروں کو بلا کر جمعہ کے دن اعلان کیا کہ قلات ایک آزاد ملک ہے۔
جمعہ کے خطبے میں خان آف قلات کا نام لیاجانے لگا۔جب مکران،لس بیلہ اورخاران پاکستان میں شامل ہوگئے توقلات کٹ گیا۔پھر گھبراہٹ میں ایک ایگریمنٹ کے تحت پاکستان میں شمولیت ہوئی۔ شہزادہ سلیم نے بغاوت کی قبائل کو ساتھ ملا کر پہاڑوں پر چڑھ گیا۔قائد اعظم نے فوج کوحکم دیا کہ اسے گرفتار کیا جائے۔ شہزادہ سلیم جیل سے رہا ہوا تو خان آف قلات اور شہزادہ سلیم، دونوں نے قبائل کو اسلحہ سپلائی کرنا شروع کیا ۔ میں نے اس کی رپورٹ مرکز کو دی تو کہا گیا تمھارے پاس کیا ثبوت ہے۔ اتفاقاًاسلحہ خانہ میں باردو پھٹنے سے آگ لگ گی۔ ہم وہاں پہنچے دیکھا کہ وہاں بے شمار بندوقیں،توپیں اور بارود ہے جو ہم نے قبضے میں لیا۔ خان کی ریاست تو چلی گئی مگر پھر بھی مشکلات پیدا کرتے رہے۔خان انگلینڈبھاگ جانے کے لیے کراچی گیا تو سکندر مرزا صدر پاکستان نے اسے کھانے پر بلایا۔ سکندر مرزا کا پروگرام تھا کہ پارلیمنٹ کو ڈس مس کے اقتدار پر تاحیات کنٹرول حاصل کر لیں۔سکندر مرزا نے خان آف قلات کو گڑ بڑ کرنے پر تیار کیا۔ خان صاحب کو گرمانی کی جگہ کورنر مغربی پاکستان بنانے کا وعدہ کیا۔کتاب کے”
٢ آزاد کشمیر” تعیناتی والے حصہ میں لکھتے ہیں۔جب میں آزادکشمیر پہنچا تو معلوم ہوا کہ خان آف قلات نے بغاوت کر دی۔ مگر سکندر مرزا کی خواہش پوری نہ ہو سکی۔١٩٥٧ء آزاد کشمیر کے آئی جی بنا۔اس کے بعد کشمیر لبریشن موومنٹ بنی۔ اس نے سیز ئر کراس کا پروگرام بنایا۔ تاکہ سکندر مرزا ملک میں گڑ بڑ کا بہانا بنا کر مل پر قبضہ کر لیں۔مگر پولیس نے رضاکاروں کو کشمیر میں داخل ہونے سے روکا۔ یہ صدر پاکستان میجر جنرل سکندرمرزا، کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان، کشمیری لیڈر غلام عباس اور صدر کے سیکر ٹیری قدرت اللہ شہاب کی سازش تھی۔سکندر مرزا کے کہنے پر خان آف قلات نے جو گڑ بڑ شروع کی تھی وہ ناکام ہوئی تو آزاد کشمیر کا رخ کیااس وقت آزاد کشمیر کے صدر سردار ابراہیم تھے۔( مگرعام طور پر تو مشہور کہ بھٹو کے مشورے پر ایوب خان نے مقبوضہ کشمیر میں گڑ بڑ کرائی تھی) کہتے ہیںولی خان نے ڈکٹیٹر یخییٰ کے بھائی کے ذریعے اس کو ون یونٹ توڑنے کا مشورہ دیا اور یخییٰ کو سپورٹ کرنے کا کہا۔ اس کو مطلب کہ وہ اصول پسند نہیں بلکہ موقع پرست ہیں۔ ڈکٹیٹر یخییٰ کے خفیہ ایجنسیوں کے مطابق الیکشن میں مشرقی پاکستا ن میںشیخ مجیب اور مغربی پاکستان میں بھٹو دوسروں سے زیادہ سیٹیں لے گا۔ اپنے لندن کے قیام کے دوران کے واقعات میںلکھتے ہیں کہ ١٩٧٠ء میں شیخ مجیب لندن آیا تو برطانیہ نے انہیں ایک سربراہ مملکت جتنا پروٹکول دیا۔ایک محب وطن بنگالی ڈاکٹر مطیع الرحمان کے حوالے سے لکھتے ہیںکہ بنگالی ١٩٨٠ ء علیحدہ ہونے کا ٹارگٹ بنائے ہوئے تھے مگر ایوب خان نے شیخ مجیب کو پکڑ کر یہ تارگٹ پانچ سال قریب کر دیا۔١٩٧٠ء کے الیکشن فری ایڈ فیئر نہیں تھے۔لندن میں شیخ مجیب امریکوں سے مدد کے لیے ملتے رہے۔( اس سے امریکی وزیر خارجہ ہنری کیسنگر کا بیان کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں امریکا کا بھی ہاتھ تھا کی تصدیق ہوتی ہے)١٩٧١ء میں پشاور میں ڈپٹی ڈاریکٹر انٹیلی جینس مقرر ہوا۔
مجھے اطلاع ملی کہ ظاہر شاہ کو روس گیا۔ وہاں اسے کہا گیا کہ اپنی فوجیں پاکستان کے خلاف صف آرا کریں۔اس نے کہ لوئی جرگہ سے رضہ مندی لے کر فیصلہ کروں گا۔بھٹو کے چہتے اور سیکولر ذہین کے رائو رشید جماعت اسلامی کی دشمنی میںلکھتے ہیں کہ پشاور میں جلوس یخییٰ خان کا گھر جلانے کی طرف جا رہا تھا کہ اسے شراب خانے توڑنے پر لگا دیا گیا۔ وہ شراب پیتے رہے جہاں تک کہ پشاور کے کتے بھی مدہوش ہو گئے۔ دروغ گوہی کا بھی کچھ معیار ہوتا ہے؟ ( پوری دنیا جانتی ہے کہ جماعت اسلامی نے بھٹو کے خلاف بنگلہ دیش نامنظور کے مہم چلائی تھی)جبکہ بھٹو خود کہتا تھا کہ شراب پیتا ہوں غریب کا خون نہیں پیتا۔ (کیاوڈھیرے ہاریوں کے خون پسینے کے محنت ہڑپ نہیں کرجاتے؟)بھٹو کے لیے انکشاف کیا کہ کراچی کے قیام کے دوران مجھے معلوم ہوا کہ بھٹو نائٹ کلب میںجایا کرتے تھے۔ نیشنل عوامی پارٹی کے سیکرٹیری اجمل خان خٹک کے بارے میں کہتے ہیں کہ کابل میں بیٹھ کر لوگوں کو ٹرینڈ کرتاے وہ پاکستان میں بم دھماکے کرتے ہیں۔
جب نیٹ ورک پکٹرا کیا تونیپ پر پابندی لگا دی۔الیکشن ١٩٧٧ء کے بارے میں پلائنگ بارے بتاتے ہیں کہ میں الیکشن سیل کا انچاج تھا۔ میں نہیں بتائوں گا کہ ہم نے یہ بندوبست کیسے کیا۔پی این اے کو ہل کا نشان الاٹ کرانے کے مخالف تھا۔ ان کو ہل کا نشان ملا تو سب متحد ہوگئے۔١٩٧٧ء کے الیکشن میں دھاندلی مانتے ہوئے کہتے ہیںبھٹو صاحب کی غلطیاں تھیں۔ ١٩٧٧ء کے الیکشن میں سرکاری افسروں نے غلطیاں کیں۔ پنجاب میں صادق قریشی نے غلطیاں کیں۔ روئو رشید نے بیان کیا کہ حکومت میں ہوتے کسی سیاستدان نے فیئر الیکشن نہیںکرائے۔ مثلاً شروع میں پاکستان بننے کے بعد١ ١٩٥ء ہوئے اس میں بھی دھاندلی کے الزام لگا۔ ایوب خان پر بھی دھاندلی کا الزام لگا۔ ١٩٧٧ء میں جھرلو کی اصطلاح استعمال ہوئی (لارکانہ میں بھٹو کے مخالف الیکشن لڑنے والے جماعت اسلامی کے جان محمد عباسی کو اغوا کیا گیا اور بھٹو کو بلا مقابلہ جیت گئے) ٤ مارچ کو لاہور میں خفیہ والوں کے ساتھ میٹنگ ہوئی۔
تجزیہ ہواالیکشن میں کتنی سیٹیں ملیں گی۔ مانتے ہیں کہ امریکا الیکشن میں ہر پارٹی کو فنڈ دیتا ہے، تا کہ جو بھی جیت کر آئے اس کے مرہون منت ہو۔( اس کا مطلب کہ بھٹو اور اصغر خان نے امریکا سے پیسے لیے تھے؟) بھٹو کی پھانسی بارے میں ان کا کہنا ہے کہ ہنری کسنجر نے بھٹو کو دھمکی دی تھی کہ” ہم تجھے ایک عبرت ناک مثال بنا دیں گے”کتاب کے ”اصغر خان” حصہ میںلکھتے ہیں جب میں جیل میں تھا تو بھٹو کو عدالت سے پھانسی کی سزا ملی۔ میں نے نصرت بھٹو کو پیغام پہنچایا کی جب تک آپ ولی خان اور اصغر خان کو ساتھ نہیں ملاتیں آپ کامیاب نہیں ہوں گی یہ جو کچھ مانگتے ہیں دے کر ساتھ ملائیں۔مگر میری نہیں مانی گئی اور بھٹو کو بچانے کی تحریک دم توڑ گئی۔ میں ١٩٧٨ء میں رہا ہوا تو اصغر خان کے پاس گیا کہ بھٹو بچائو تحریک چلائو پاکستان کے ہیرو بن جائو گے۔ مگر اصغر خان نے سوچا کہ جب تک بھٹو ہے وہ ہیرو نہیں بن سکتا۔
چنانچہ اُس بڑی خوشی سے بھٹو کو پھانسی لگنے دی۔ اقتدار کا سوچنے لگامگر ناکام رہا۔ کسی کانفرنس میں محمود علی قصوری نے کہا کہ اگر ہم اقتدار میں آے تو،اس پر اصغر خان نے قصوری کو بڑا ڈانٹا کہ” اگر” کا کیا مطلب ہے؟یہ اس کی خودفریبی تھی۔ ضیاالحق نے اقتدار کب چھوڑنا تھا۔رائو صاحب یہ بھی کہتے ہیں کہ مارشل لا فوج،ا صغر خان اور پی این اے کی مرضی سے لگا۔ رائو رشید جو کہیں ان کی مرضی مگر۔( حقیقتاً مارشل لا نظام مصطفے کا راستہ روکنے کے لیے امریکا کہ ایما پر لگا تھا)!۔ رائو رشید کی کتاب ” جومیں نے دیکھا ”کے بغور مطالعہ سے جو بات سامنے آئی کچھ حقیقت اور کچھ بھٹوکے احسان چکانے کے لیے قیا سیات پر مشتمل کتاب ہے۔رائورشیدکتاب ” جو میں نے دیکھا ” میں بھٹو کی حمایت میں جتنی بھی قیاس آرایاںکیں وہ ان کا اپنا نقتہ نظر ہے۔ ورنہ بھٹو صاحب کے لیے یہ بھی بات سامنے آئی تھی جیسے اُس نے دوسرے مخالفوں کو راستے سے ہٹایا۔ ایسے کی رضا قصوری کو راستے سے پٹا نا چاہتے تھے۔ مگر وہ تو بچ گئے ان کے والد قتل ہو گئے۔ جس کی بناپر عدالت نے انہیں پھانسی کی سزا سائی ۔اس وقت یہ باتیں بھی ہوئیں کہ اگر بھٹو قانونی طور پر مقدمہ لڑتے تو شاید بچ جاتے۔مگر مگر عدالت کے ساتھ
جنگ بھٹو کو موت کی طرف لے گئی۔ بحر حال رائو رشید کی کتاب ”جو میں نے دیکھا” پاکستانی سیاست ، سیاست دانوں، جمہویت ،مارشل لا، پولیس کی رپورٹوں اور اقتدار کی کہانی ہے۔