تحریر: سید انور محمود پاکستان کی سیاسی تاریخ میں تین ایسے تاریخی دن 5 جولائی 1977، 4 اپریل 1979 اور 17 اگست 1988 ہیں جنہوں نے پاکستان کی سیاست اور سوچ کو بدل ڈالا۔5 جولائی 1977 کی صبح جب پاکستانی عوام سوکر اٹھے تو انہیں پتہ چلا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی جمہوری حکومت ختم ہو چکی ہے اورپورئے ملک میں مارشل لاء لگا دیا گیا ہے، یعنی فوج نے سول حکومت سے بغاوت کردی تھی اور ملک پر قبضہ کرلیا تھا۔ جنرل ضیاء نے اپنی پہلی نشری تقریر میں نوے روز میں انتخابات کے انعقاد کا وعدہ کیا تھا، اس کا کہنا تھا کہ میرئے والد نے مجھے سچ بولنا سکھایا ہے۔نوئے دن کا وعدہ تو کبھی پورا نہیں ہوا کیونکہ ضیاءالحق ایک منافق اور جھوٹا انسان تھا ،البتہ ایک نام نہاد غیر جماعتی انتخابات 1985 میں ہوئے تھے۔جنرل ضیاء گیارہ سال سے زائد اقتدار پر قابض رہا، اس گیارہ سالہ میں اس نے پاکستان کو اتنا نقصان پہنچا یا جتنا اس سے پہلے یا بعد میں کسی نے نہیں پہنچایا ۔نظریہ ضرورت کا سہارا لیتے ہوئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انوار الحق نے مارشل لاء کو جائز قرار دے دیا۔ جنرل ضیاء نے بھٹو سے حکومت تو چھین لی لیکن بھٹو کی شہرت اور عوام کی اس سے محبت نہ چھین سکا، سدا کا بزدل تھااس لیے بھٹو کا وجود ہی ختم کرنے میں اپنی عافیت جانی۔ ایک پرانا کیس کھولا گیا، جس میں بھٹو قتل کے ملزم کے طور پر نامزد تھے، احمد رضا قصوری نے بھٹو پر اپنے والد کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام لگایا تھا۔ جنرل ضیاءالحق نے اپنے سے زیادہ خوشامدی اور بزدل جسٹس انوارالحق کو ستمبر 1977 میں سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بنادیا۔
ضیاءالحق نے جسٹس مولوی مشتاق کو 12 جنوری 1978 کو لاہور ہائی کورٹ کا چیف جسٹس مقررکیا، جس کو بھٹو اس لیے ناپسند تھا کہ بھٹو نے اسے لاہور ہائی کورٹ کا چیف جسٹس نامزد نہیں کیا تھا۔ اس نے 18 مارچ 1978 کو بھٹو کو پھانسی دینے کا فیصلہ سنایا ، بعد میں چیف جسٹس انوارالحق کے سپریم کورٹ نےبھی بھٹو کی پھانسی کی سزا برقرار رکھی اور 4 اپریل 1979 کی صبح بھٹو کو سرکاری طور پر پھانسی دینے کا پی ٹی وی کے زریعے اعلان کیا گیا۔دنیا بھر کے تما م جمہوری او راسلامی ممالک نے آمر جنرل ضیاء الحق کو اس ظلم سے باز رکھنے کےلیےاس سے اپیلیں کیں،لیکن بزدل ضیاء جانتا تھا کہ اگر ایک مرتبہ بھٹو اس کی گرفت سے باہر نکل گیا تو پھر خود اس کی خیر نہیں۔ چیف جسٹس انوارالحق کی بینچ کے ایک رکن جسٹس نسیم حسن شاہ نے اپنے ریٹائرمنٹ کے بعد یہ بات تسلیم کی کہ بھٹو کوپھانسی دینے کا فیصلہ دباو کا نتیجہ تھا، نسیم حسن شاہ نے یہ بھی کہا تھا کہ سابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ مولوی مشتاق کو یہ مقدمہ نہیں سننا چاہیے تھا کیونکہ ان کی بھٹو سے ذاتی رنجش تھی۔ نسیم حسن شاہ نے یہ بھی تسلیم کیا کہ بھٹو کے مقدمہ میں شک کا فائدہ انھیں ملنا چاہیے تھا۔
افغان حکومت کی دعوت پر روس نے 25 دسمبر، 1979 کو اپنی فوج افغانستان میں اتار دی۔جنرل ضیاءالحق جس کی حکومت کی حمایت دنیا بھر میں کم ہوگئی تھی اس کی تو جیسے عید ہوگئی ، امریکہ کو بھی اس کی ضرورت تھی ، لہذا امریکہ سے سیاسی حمایت کے ساتھ ساتھ ڈالروصول کرکے مذہب فروشی کرتا رہا۔ ڈالر کے بدلے وہ امریکہ کو ڈالر مجاہد مہیا کرتا تھا جو افغانستان جاکر روس سےنام نہاد جہاد کے نام پر لڑتے اور ڈالر کماتے تھے۔امریکا نے جنرل ضیاء کی حکومت کو بھرپور طریقے سے استعمال کیا اور ملک میں جہادی کلچر فروغ پایا۔ہزاروں کی تعداد میں مدرسے کھولے گئے اور جہادیوں کی تربیت کے لیے امریکا نے اپنے خزانے کے منہ کھول دیئے، جس سے ہماری مذہبی سیاسی جماعتوں خاصکر جماعت اسلامی ، جمیت علمائے اسلام کے دونوں دھڑوں کے علاوہ سول اور فوجی افسر شاہی نے بھی بھرپور فائدہ اٹھایا۔جنرل ضیاء الحق ملک کے عوام پر لاٹھی، کوڑے اور پھانسیوں سے قہر ڈھارہا تھا لیکن انسانی حقوق کے چیمپین امریکا کو اس سے کوئی سروکار نہ تھا وہ تو پاکستان کو استعمال کرتے ہوئے سوویت یونین کو زچ کرنا چاہتے تھا جس میں جنرل ضیاء نےامریکاکا پورا پورا ساتھ دیا۔
جنرل ضیاءبڑا ہوشیار اور مکار شخص تھا لیکن تاثر ایسا دیتا تھا جیسے بہت ہی سادہ لوح ہے۔ اس کی اس خوبی نےہی اس کی مکارانہ سیاست کے مختلف مراحل کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔ جھوٹ بولنا جنرل ضیاء کی فطرت تھی۔ 12ا گست 1983کومجلس شوریٰ کے ساتویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اس نے ایک جھوٹا دعویٰ کیا کہ نیشنل آرکائیوزمیں محفوظ قائد اعظم کی ایک ذاتی ڈائری ملی ہے جو اب تک شائع نہیں ہوئی۔ اس نے قائد اعظم کی ڈائری کے حوالے سے یہ جھوٹا انکشاف کیا کہ ان کی ایک تحریر سے ظاہر ہوتا ہے کہ”قائد اعظم سربراہ ریاست کے منصب کو انتہائی موثر اور مضبوط دیکھنا چاہتے تھے اور جمہوری نظام کے خلاف تھے، ملک بھر کے میڈیا میں یہ بحث چل نکلی لیکن جب ممتاز دولتانہ اور کے ایچ خورشید نے کسی ایسی ڈائری کو موجود ہونے کی پرزور تردید کی تو یہ افسانہ اپنی موت آپ مرگیا۔ اس کے بعد ضیاءالحق یا اسکے حواریوں میں سے کسی نے اس فرضی ڈائری کا کبھی ذکر نہیں کیا۔جنرل ضیاءالحق نے اپنے گیارہ سالہ دور میں آئین میں اپنی مرضی کی ترمیمیں کیں، جمہوریت اور انسانی حقوق کے نظام کو برباد کردیا۔ جنرل ضیاء نےایک نام نہاد ریفرنڈم بھی کرایا اور اپنے آپ کو کامیاب قرار دینے کےخود کو ملک کا جمہوری صدر کہنے لگا۔آٹھ سال تک بلا شرکت غیرے حکومت کرنے کے بعد 1985میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کرائے اور محمد خان جونیجو کو وزیر اعظم نامزد کیا، مگر ان کو بھی تین سال سے زیادہ نہ چلنے دیا۔جب اپریل1988میں اوجڑی کیمپ کے دھماکے ہوئے تو جونیجو نے اس کی تحقیقاتی رپورٹ عام کرنی چاہی ،جس پر جنرل ضیاء الحق نے جونیجو کو برطرف کرکے گھر بھیج دیا۔
سترہ اگست 1988 کو جنرل ضیاءالحق فوج کے ایک پروگرام میں شریک ہوکر بہاولپور سے واپس اسلام آباد جارہا تھا کہ اس کا طیارہ فضا میں پھٹ گیا اور ساتھ ہی فضا میں وہ خود بھی پھٹ گیا، جنرل ضیاءکی لاش کی شناخت اُس کی بتیسی کی وجہ سے ہوئی تھی۔ اگلے دن جنرل ضیاءالحق کے لیے ایک منافقت کی گئی اور ایک بتیسی کے ساتھ جلے ہوئے گوشت کے لوتھڑوں کو جنرل ضیاءالحق کی باقیات کہہ کر بغیر کسی وجہ کےاسلام آباد کی فیصل مسجد کے احاطے میں دفن کیا گیا۔ بعد میں کچھ لوگوں نے فیصل مسجد کے اسٹاپ کا نام جبڑا چوک رکھ دیا۔ جنرل ضیاء کی موت پرپاکستانی عوام نے سترہ اگست کو ایک ظالم سے نجات کا دن قرار دیا تھا۔ جنرل ضیاء کی گیارہ سالہ آمریت کی قیمت پاکستانی عوام آجتک منشیات، کلاشنکوف کلچر، نام نہادجہاد، فرقہ واریت، لسانی جھگڑوں، طالبان دہشتگرد اور پھر ان کی دہشتگردی کے خلاف جنگ کی صورت میں چکا رہے ہیں۔آج ضیا ءالحق کی قبر پر کوئی بھی نہیں جاتا، حتیکہ اس کا بیٹا اعجاز الحق بھی نہیں، لیکن ضیا ءالحق کی روحانی اولاد نواز شریف اور ان کے حواری جو ضیاء کی باقیات کہلاتے ہیں آج بھی سیاسی اور ریاستی اقتدار پر قابض ہیں۔