تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم آج ایک طرف بھارت ایل او سی پر اپنی جارحیت جاری رکھے ہوئے ہے، تو اِدھر ہماری غیر سنجیدہ سیاسی قیادت ہے، جو اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات اور مقاصد کے حصول کے خاطر دستِ گریبان ہے، آج یہ جس طرح آپس میں ایک دوسرے کی ذات پر کیچڑاُچھال رہے ہیں اِن کے آپس کے جارحانہ رویوں کو دیکھ کر تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ دیدہ و دانستہ LOC پر جاری بھارتی جارحیت سے قوم اور دنیا کی توجہ ہٹانے کی کوششوں میں لگے پڑے ہیں۔
حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ اِس ناز ک لمحے میں اپنے تمام ذاتی و سیاسی اختلافات کو بلائے طاق رکھتے اور باہم متحدو منظم ہوکر ملی یکجہتی اور اُخوت و مساوات اور بھائی چارگی کا ایک ایسا درس دیتے کہ اِنہیں ایسا دیکھ کر بھارت دُشمن کے دانت کھٹے ہوجاتے مگر افسوس ہے کہ اِنہوں نے اِس موقع پر وقت اور حالات کی نزاکت کو سمجھے بغیرایسا نہیں کیا آج اِن سے جس کی قوم قوی اُمید تھی بلکہ اِنہوں نے وہی کیا ہے جو اِن کی خصلت اور اِن کی گُھٹی میں شامل ہے۔
پچھلے دِنوں ہماری حکمران اور اپوزیشن جماعتوں کے چیدہ چیدہ کرتادھرتا سیاسی رہنماو ¿ں کی غیر سنجیدگی کا بھانڈااُس وقت پھٹااورکھلا کہ جب پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس اسپیکر سردار ایاز صادق کی زیرصدارت جاری تھا اپنی نوعیت کے اِس اہم ترین اجلاس میں مقبوضہ کشمیر میںاِنسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور لائن آف کنٹرول پر بھارت کی جانب سے جاری جارحیت اور ایل اُو سی پرحالیہ دِنوں میں کی جانے والی بھارتی اشتعال انگیزی اورجنگ بندی کی خلاف ورزیوں سے پیداہونے والی صورتِ حال پر بحث جاری تھی کہ اِسی دوران حکمران جماعت ن لیگ کے لاہوری بہادروں اور پیپلز پارٹی کے جیالوں او ر جیالیوں کے درمیا ن شدیدہنگامہ آرائی اور نعرے بازی شروع ہوگئی جس کی وجہ سے پارلیمنٹ کا یہ مشترکہ اجلاس مچھلی بازار بن گیا ایسی گھمبیر صورتِ حال اُس وقت دیکھنے میں آئی جب بے وقت کی راگنی لاپتے ہوئے سینیٹر مشاہد اللہ خان نے پیپلزپارٹی کے قول و کردار اور اعتزازاحسن پر شدیدترین تنقیدوں کے تیر چلاتے ہوئے کہاکہ پیپلز پارٹی پر خا لصتان تحریک سے وابستہ سکھوں کی فہرست بھارت کے حوالے کرنے اور اسلام آبادسے کشمیرکے بورڈ اُتارنے کے کھلے لفظوں کے ساتھ سخت ترین الزامات عائد کئے تھے۔
ن لیگ کے مشاہد اللہ خان کا کہنا تھا کہ کس طرح بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی کے دورے کے موقع پر اسلام سے کشمیر کے بورڈ اُتاردیئے تھے اور اُنہوں نے لگے ہاتھوں پیپلز پارٹی کے اعتزاز احسن کو اپنی زہریلی تنقیدوں کا نشانہ بنانے ہوئے یہ بھی کہا کہ آپ نے ہی سکھوں کی فہرستیں بھارت کو دیں جس پر ن لیگ کے لاہوری بہادروں اور پیپلز پارٹی کے جذباتی جیالوں کے درمیان شدیدہنگامہ آرائی اور جھڑپ چھڑگئی۔
Aitzaz Hasan
پھر پی پی پی کے جیالوں اور جیالیوں نے بھی آو ¿دیکھا نہ تاو ¿ ہم آواز ہوکرفلک شگاف انداز سے” مودی کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے“ کے نعرے لگانے شروع کردیئے اور خورشید شاہ نے بھی موقع کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اجلاس سے بائیکاٹ کی دھمکی دے دی جس پر ن لیگ نے معذرت کرلی۔ جس کے بعد ایوان سے خطاب کے دوران اعتزاز احسن نے جس انداز اور لہجے میں اظہارِ خیال کیا اِس سے ن لیگ پر مکر فریبی کا چڑھا لبادہ اُترگیا اعتزاز احسن کا کہنا تھاکہ” اقوام متحدہ میںنوازشریف بھارتی جاسو س کل بھوشن کا نام تک نہیں لیا ، میں جب غدار تھاتونوازشریف نے اپنا وکیل کیوں بنایا، اعتزاز احسن تو مشاہد اللہ خان کے الزامات کا جواب دیتے ہوئے اپنی وضاحت میں اور بہت کچھ کہتے رہے مگر مشاہد اللہ خان سمیت اور ن لیگ والے کا نوں میں روئی ٹھوسے جیسے اپنی اپنی خیالی دنیا میں ہی کھوئے بیٹھے رہے۔
اورپھر یوں بالآخر مقبوبہ کشمیر میں جاری نہتے کشمیریوں کے حق اور جنگی بندی کی خلاف ورزیوں سے پیداہونے والی صورتِ حال پر منعقد ہونے والا پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ہمارے سیاست دانوں کی غیرسنجیدگی اور آپس کی لڑائی جھکڑوں اور کھینچاتانی کی وجہ سے بغیر کسی مثبت نتیجے کے ختم ہوگیا۔ تاہم جب پارلیمنٹ میں ن لیگ کے لڑاکو لاہوری بہادرں اور پی پی پی کے جیالوں اور جیالیوں کی لڑائی کی خبرپی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان المعروف مسٹرسونامی تک پہنچی تو اِن کی خوش کی انتہانہ رہی اور عالمِ خوشی سے جھوم جھوم گئے اور کئی گھنٹے تک بس ایک یہی جملہ دُہراتے رہے ” آہ آہ لڑائی ہوگئی ، آہ آہ لڑائی ہوگئی،اِن سے تو یہی اُمید تھی آخرکار سانچے کی ہنڈیاں چوراہے پر پھوٹ گئی “ الغرض یہ کہ مسٹرسونامی ن لیگ اور پی پی پی والوں کی لڑائی سے اتنے خوش ہوئے کہ وہ پی پی پی کی اپنی کئی ماہ کی رقابت ہی بھول گئے اور وہ کچھ کہہ گئے جو اِنہیں کچھ عرصہ بعد کہناچاہئے تھا۔
جہاں تک راقم الحرف کو یاد پڑتاہے کہ متحدہ کو سب سے پہلے مائنس الطاف حسین کا مشورہ بھی تحریک ِ انصاف پاکستان کے اکلوتے چیئرمین عمران خان المعروف مسٹر سونامی خان نے ہی دیاتھااوریہ بڑے اتفاق کی بات ہے کہ اِس مرتبہ پھر سب سے پہلے مسٹر سونامی خان نے ہی پی پی پی کو زرداری سے جان چھڑانے یعنی کہ مائنس زرداری کا مشورہ دیاہے اَب دیکھتے ہیں کہ پی پی پی والے خود یا متحدہ کے الطاف مائنس ون کی طرح کوئی اور پی پی پی سے زرداری کی جان کیسے چھڑاتاہے…؟؟
تاہم یہاں یہ بات ضرور توجہ طلب ہے کہ عمران خان المعروف مسٹر سونامی خان ہی تھا جس نے متحدہ کو اُس وقت الطاف مائنس ون کا مشورہ دیاتھاجب نہ صرف کراچی بلکہ سارے مُلک میں الطا ف حُسین اور متحدہ کے جیسے بھی رویوں کی طوطی بولاکرتی تھی کوئی ایسا سوچ بھی نہیں سکتاتھا مگر بھی عمران خان المعروف مسٹر سونامی خان نے متحدہ کے خلاف سب سے پہلے زبان کھولی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے بہت سوں کی زبانیںکھلتی ہی چلی گئیں اور پھر رفتہ رفتہ سونامی خان کا متحدہ سے الطاف مائنس ون کایہ مطالبہ مُلک کی ہربڑی چھوٹی سیاسی و مذہبی جماعت اور اداروں کے سربراہان اور میڈیا پرسنز کی زبان پر آگیاپھر خود بخود حالات ایسے پیداگئے کہ متحدہ کی شق السرحد ہوگئی آج ایک متحدہ پاکستان بن گئی ہے تودوسری متحدہ لند ن کے نام سے اپنی اپنی پہنچان بنانے کی کوششوں میں لگی پڑی ہیں آج دونوں متحدہ کو اپنی اپنی بقاءکی جنگ کا سامناہے اور دونوں ہی خود کو اردوبولنے والے اہلیانِ کراچی اور شہرِ قائد کا اصل مالک اور حق پرست کا نعرہ لگاکرحق دارمنوانے میں لگی پڑی ہیں۔
آج اِسی طرح جب کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتاتھاکہ کبھی کہیںسے پی پی پی سے زرداری مائنس ون اور پیپلز پارٹی سے زرداری کا پیچھا چھڑانے کی کوئی آواز بلند ہوگی اورزرداری نے بھی کبھی خود کو پارٹی سے علیحدہ کرنے کا سوچناتو درکنار زرداری نے کبھی ایساخواب بھی نہیں دیکھا ہوگا کہ وہ پیپلز پارٹی کو چھوڑرہے ہیں۔
ایسے میں تھوڑی دیر کو یہ ضرور سوچناہو گاکہ آج عمران خان نے کسی قوت کے خاص اشارے پر پی پی پی کو زرداری سے جان چھڑانے کا اپنی تئیں صائب مشورہ دے کر مُلک میںایک نئی بحث چھیڑدی ہے یعنی یہ کہ اگر حرفِ عام میں یہ کہاجائے کہ عمران خان نے پی پی پی کو چھیڑکر پڑی لکڑی لے لی ہے گویا کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے دوران کل تک جو لڑائی ن لیگ اور پی پی پی میں جاری تھی اَب اِس لڑائی میں عمران خان نے چھلانگ لگا کر ن لیگ کی جان بخشی کرادی ہے اور پی پی پی کی ساری توپوں کا رخ اپنے سینے کی جانب کرالیا ہے۔
Imran Khan
آج اِس لڑائی میں عمران خان ہیں اور پی پی پی کے جیالے ہیں قبل اِس کے کہ اَب پی ٹی آئی اور پی پی پی کی لڑائی کوئی اور رُخ اخیتار کرجائے پی پی پی کے جیالوں کو عمران خان کے دیئے ہوئے مشورے کا ایک بار ضرور جائزہ لینا چاہئے کہ عمران خان نے پیپلزپارٹی کو زرداری سے جان چھڑانے کی جو بات کہیں ہے اِس کے درپردہ اِدھر یا اَدھر کس قوت کا ہاتھ ہوسکتاہے یوں ہی آپس میں گتھم گتھاہونے کے بجائے اُن حقائق کو جاننے کی بھی اشد ضرورت ہے جس کے سیاق و سباق میں مسٹرسونامی خان نے پی پی پی کو زرداری سے جان چھڑانے کا مشورہ دیا ہے۔
بہر حال ،آج یہ بات بڑی حد تک کسی بھی باشعورپاکستانی سے ڈھکی چھپی نہیںرہی ہے کہ پچھلے 69 ،70 سالوں سے ہماری سیاسی و مذہبی جماعتوں کے رہنماو ¿ںاور سِول وآمرحکمرانوں کی مکر فریبیوں کے باعث وطنِ عزیز پاکستان مسائل اور بحرانوں کی چکی میں پستے پستے بالآخر مسائلستان بن گیاہے۔ آج اگر یہی ہمارے (سیاسی و آمر )لوگ حقیقی معنوں میں محب وطن ہوتے اور اِن کی نیت مُلک اور قوم کے ساتھ مُخلص ہوتی تو یقینی طور پر پاکستان بھی اُسی طرح ترقی اور خوشحالی کے منازل طے کرتاہوا اُوجِ ثُریا تک جاپہنچتاآج جیسا کہ اِس کے بعد دنیا کی آزاد ہونے والی بہت سی ریاستیں ہیں اِن ریاستوںکی ترقی و خوشحالی کی اصل وجہ صرف یہ ہے کہ اِن ریاستوں کی سیاسی قیادت اپنے وطن اور قوم کے ساتھ مُخلص ہے جو اپنے ذاتی وسیاسی مفادات کو مُلک و قوم کی ترقی و خوشحالی پر قربان کردیتی ہیں مگراِدھر ایک ہمارے نئے اور پرانے سیاسی بازی گر ہیں جوایک لمبے عرصے سے اپنی چرب زبانی اور سیراب جیسے لفظوں و جملوں کے گورکھ دھند سے مُلک اور قوم کی بقاءاور سا لمیت سے کھیلتے آئے ہیں اور کھیل رہے ہیں اورآج بھی جب LOCُپر بھارتی جارحیت انتہا پر پہنچ چکی ہے ایسے وقت میں بھی بدقسمتی سے ہماری سیاسی جماعتوں کے رہنماءمتحد ہونے کے بجائے اپنے ذاتی اور سیاسی اختلافات کا طوق اپنے گلے میں ڈالے بکھرے ہوئے نظر آ رہے ہیں اور ایک ایسے وقت میں کہ جب بھارت جیسا ہماراازلی دُشمن اپنی جارحیت سے ہمیں نیست ونابود کرنا چاہتا ہے اِن لمحات میں بھی ہماری سیاسی جماعتوں کے رہنمااپنی ذاتی لڑائیوں اور چپقلش کی بنیاد پراپنی ایک ایک انچ کی اینٹ پر سیاسی یونیورسٹیاں بنائے ہوئے ہیں جو مُلک کو درپیش نازک وقت میں اتحاد اور متحد ہونے کے بجائے اپنے ذاتی اور سیاسی اختلافات اور نظریات کی بنیاد پر اپناسیاسی قد اُونچا کرنے کے چکر میں لگے ہوئے ہیں جس سے اِن کا غیر سنجیدہ پن نمایاں ہو رہا ہے۔
قوم اِس تذذب میں مبتلاہے کہ ایک طر ف بھارت جیسا ہمارا ازلی دُشمن جنگ مسلط کرنے کے درپر ہے اور اِدھر ہمارے سیاستدان متحد و منظم ہونے کے بجائے اپنی سیاست چمکارہے ہیں اور اپنے اختلافات کودنیاکے سامنے لارہے ہیں آج جس پر بھارت کو بھی یہ کہنا پڑگیاہے کہ” LOCپرجاری بھارتی جارحیت پر پاکستان میں اپوزیشن بھی حکومت کا ساتھ نہیں دے رہی ہے“ ہمارے متعلق بھارت کی جانب سے اِس قسم کے خیال کا اظہارہونا ، ہمیں صاف اور واضح طور پر یہ اشارہ دے رہاہے کہ اَب بھارت بھی یہ سمجھ رہاہے کہ آج جب اِس ناز ک وقت میں بھی پاکستان کی حکمران جماعت کے ساتھ اپوزیشن ایک پیچ پر نہیںہے تو پھر ہمیں پاکستان کے کسی دباو ¿ میں آئے بغیر سرحد پر اپنی جنگی جارحیت اور مقبوبہ کشمیر میں بھی بھارتی فورسز کو اپنی غنڈہ گردی اور بدمعاشی جاری رکھنی چاہئے اور اپنے مقاصد حاصل ہونے تک پوری قوت سے وہی کچھ کرتے رہنا چاہئے جو بھارتی حق میں ہو ،یقینا آج ہمارے سیاسی رہنماو ¿ں اور اِن کے غیر سنجیدہ رویوں کی وجہ سے بھارت کا حوصلہ بلند ہورہاہوگااور وہ ہمارے سامنے اپنا ماتھاٹیکنے کے بجائے اُلٹاسینہ تان کر کھڑارہنے سے متعلق سوچ رہاہوگا مگرہم اِس کایہ خواب چکناچور کرسکتے ہیں بس شرط صرف یہ ہے کہ آج بھی اگر ہماری حکمران جماعت اور اپوزیشن سمیت چھوٹی بڑی سیاسی و مذہبی پارٹیوں کے رہنماءبھارتی جارحیت اور مقبوبہ کشمیرمیں کشمیریوں پر بھارتی ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف حقیقی معنوں میں متحد اور منظم ہوجائیں تو ہم بھارت کے جنگی جنون اور مودی سرکار کی کمر پر کاری ضرب لگاسکتے ہیں بس ہمارے متحد اور منظم ہونے کی دیر ہے پھر بھارت ہم پر کبھی بھی اُنگلی اُٹھانا تو دور کی بات ہے یہ ہماری جانب کبھی میلی نظرسے بھی نہیں دیکھ سکتا ہے۔
Azam Azim Azam
تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم azamazimazam@gmail.com