تحریر : رائو عمران سلیمان میری نظر میں سیاسی یتیموں سے مراد وہ سیاستدان ہیں جن کی اپنی کوئی سیاسی حیثیت نہیں ہوتی اور نہ ہی سب کچھ ہونے کے باوجود وہ معاشرے میں باعزت زندگی کوگزارتے ہیں بلکہ ان کا زیادہ تر وقت اپنے سے سینئر لوگوں کے جوتے سیدھے کرنے میں گزرتا ہے ،یعنی ان کی اپنی کوئی سیاسی حیثیت نہیں ہوتی بس دوسروں کے ٹکڑوں پر پلتے ہیں جو صرف مداح سرائی کرنے اور قائدین کی آمد پر ڈفلی بجانے کا دھندہ کرتے ہیں جن سے ان کی سیاسی حیثیت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے ،اس وقت مسلم لیگ ن میں ایسے لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جن کا زیادہ تر کام قائدین کی مداح سرائی کرنا اور ان کی منت سماجت کرنا ہوتاہے جنھیں دیگر جملوں میں ڈھنڈورچی بھی کہا جاسکتا ہے ۔جو لیڈروں کی تعریفیں کرکے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ فلاح فلاح لیڈر کے بہت قریب ہیں جن کا ایک مقصد اپنی سیاسی حیثیت کو مظبوط بنانا بھی ہوتا ہے۔
سیاسی یتیموں کی اس گفتگو میںجہاں تک چودھری نثار کا سوال ہے تواس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ 1985سے مختلف اسمبلیوں میں منتخب ہوتے رہے ہیں بعض دفعہ آزاد امیدوار اور بعض دفعہ مسلم لیگ نواز کے ٹکٹ سے، لہذا ان کی ایک زاتی اور انفرادی حیثیت ہے اور ان کی شہرت کا یہ خاصہ رہاہے کہ وہ ببانگ دھل اپنی بات کہنے سے نہیں کتراتے یہ ہی وجہ ہے ان کی پارٹی کے اکثر لوگ ان سے ناراض ہی رہتے ہیں،موجودہ پس منظر میں چودھری نثار ہی وہ واحد لیڈر نظر آتے ہیں جو نوازشریف کی اس حکمت عملی کے قائل نہیں کہ عدلیہ سمیت دیگر اداروں کی ہرزہ سرائی کی جاسکے کیونکہ وہ آئندہ دنوں میں کچھ ایسے بھیانک مناظر دیکھ رہے ہیں جن سے وہ شریف خاندان کو بچانا چاہتے ہیں مگر اس تناظر میں شریف خاندان شاید چودھری نثار کو اپنا سیاسی حریف سمجھنے لگے ہیں یہ ہی وجہ ہے گزشتہ چار سالوں کے اہم اجلاسوں میں انہیں تسلسل سے نظر انداز کیا جاتارہاہے ،جبکہ ان اجلاسوں میں جن لوگوں کی شرکت کو یقینی بنایا گیا ہے وہ سو فیصد سیاسی یتیم کہلانے کے حقدار ہیں جن میں محترم طلال چودھری جن کی شہرت یہ تھی کہ وہ ایک زمانے میں چودھری پرویز الہی کی گاڑی کے سامنے دھمالیں ڈالا کرتے کرتے تھے ،اور آج شریف خاندان کی محبت میں عدلیہ سمیت ملک کے اہم اداروں کو لتاڑتے رہتے ہیں۔
دوسرے دانیال عزیزصاحب جن کی بہت بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ منافق نہیں ہیں کیونکہ جس توانائی کے ساتھ وہ کبھی جنرل مشرف کے گن گایا کرتے تھے اور نوازشریف کو میڈیا میں سرعام بدوعائیں دیا کرتے تھے آج اسی جزبے کے ساتھ وہ نوازشریف کی تعریفیں کرتے ہوئے نہیں تھکتے اورآج کل ملکی اداروں سے ٹکر اکر شریف خاندان کا دفاع کرنے میں مصروف ہیں،مفتاح اسماعیل جو اس وقت اسحاق ڈار کے نقشے قدم پر چل رہے ہیں اور ناجانے کب وہ ملکی اقتصادیات کی ہانڈی کو بیچ چوراہے میں پھوڑ ڈالیں جن کی ڈیوٹی اقتصادی معاملات میں عوام کو گمراہ کرنا اور شریف فیملی کے لیے ڈفلی بجانا ہے، اور یہ کب اور کہاں سے پارٹی میں شامل ہوئے اس کی تاریخ ابھی نہیں لکھی جاسکی ہے کہ ان کی آخر پارٹی کے لیے کونسی قربانیاں ہیں جو انہیں نواز لیگ کے اس دور میں طرح طرح سے نوازا گیا ہا ں ایک قربانی ضرور ہے وہ یہ کہ وہ چودھری نثار کی نسبت مریم بی بی کو اپنا لیڈر مانتے ہیں بلکل اسی انداز میںخواجہ سعد رفیق بھی نواز لیگ کا ایک بڑا نام ہے وہ بھی غالباً کچھ نہ کچھ ایسے ہی لوگوں کی فہرست میں جاپہنچے ہیں آج سے پندرہ سال پہلے کے خواجہ سعد رفیق کو کون نہیں جانتا ہے جو ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔
آج ان کو خود بھی نہیں معلوم کے ان کے پاس کتنا پیسہ ہے ان کے فرنٹ مین لاہور میں ایک ہائوسنگ سوسائٹی کو چلارہے ہیں جس کی لاگت کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے اور یہ سب مسلسل شریفوں کے لیے ڈگڈگیاں بجانے کا انعام ہے ،اس کے علاوہ عابد شیر علی اور رانا ثناء اللہ صاحب جن کی زبان بے لگام ہی ان کی وجہ شہرت ہے ،جن کی موجودگی پر یہ ہی کہا جاسکتاہے کہ نوازشریف کے ان دوستوں کی موجودگی میں انہیں دشمنوں کی کیا ضرورت ہے۔ان ناموں کے علاوہ درجنوں سے ایسے سیاستدان ہیں جن کے نام لکھنے کے لیے ایک الگ سے کتاب لکھی جاسکتی ہے،مگراس وقت نوازلیگ کی قیادت کو صرف چودھری نثار ہی اپنا دشمن دکھائی دیتاہے جو یہ چاہتے ہیں کہ شریف خاندان ملکی اداروں سے نہ ٹکرائیں بلکہ ان کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتے ہوئے حکومت کی مدت کو پورا کیا جائے ،یقیناً یہ بات سمجھ کے قابل ہے کہ اداروں کے ساتھ ٹکرائو کرکے حکومتی کاروبار بندکرنے کے ساتھ مخالفین کو اپنے خلاف بولنے کا موقع فراہم کرنے کے مترادف ہے، چودھری نثار نواز شریف اور شہباز شریف کے ساتھ تو کام کرنے کو تیار ہیں مگر مریم بی بی کو اپنا لیڈر تسلیم نہیں کرتے، اس کے علاوہ ایک ا یسے سینئر ممبر ہیں جو جونیئر کے زیرنگی نہیں رہنا چاہتااور اپنے سے اوپر یا برابرکے لوگوں کے ساتھ بیٹھنا چاہتا ہے۔
کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ انہوںنے پارٹی کو اپنی زندگی کا ایک بہت بڑاوقت دیا ہے اورجس کی عزت کروانا اس کا بنیادی فرض بنتا ہے ،یعنی سیدھی سی بات ہے وہ نوازشریف کے ساتھ تو کام کرنا چاہتے ہیں مگر مریم نواز کے ساتھ نہیں جن کی قیادت کی مدت جمعہ جمعہ آٹھ دن بنتی ہے ۔ ان تمام سیاسی یتیموں کی موجود گی میںاس وقت اگرمسلم لیگ نواز کی کارکردگی کی بات کی جائے یقیناً ان کے سرشرم سے جھک جانے چاہیے مگر ایسا نہیں ہے کیونکہ نواز شریف اور ان کے سیاسی یتیموں کے گھروں میں خوشحالی موجود ہے جنھیں وہ پورے پاکستان کے گھروں سے منسوب کرتے ہیں وہ مہنگی گاڑیوں میں گھومتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی ساری عوام ہی آرام دہ سفر کررہی ہے وہ انواع اقسام کے کھانے کھاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کے پیٹ غریب عوام کا بھر رہے انہیں اپنے گھروں کا باغیچہ ایسے دکھائی دیتا ہے کہ جیسے پورے ملک میں ہریالی ہی ہریالی ہے جب اشیاء خورونوش سے لیکر جہازوں کے ٹکٹ تک میں ان کی جیبوں پر بوجھ نہیں پڑتا تو وہ کیونکر یہ سمجھ سکتے ہیں پاکستان کی عوام اس ملک کی بے جان سڑکوں پر دھکے کھارہی ہے ،لہذا اس ملک کے حکمران اور ان کے منظور نظر سیاستدانوں کو یہ سب احساس ہونے سے پہلے ہی قریبی لوگ ان کا زہن بدل دیتے ہیں ، کہ سب اچھا ہی ہے ،وہ یہ بات باہر ہی نہیں نکلنے دیتے کہ اس ملک میں ان سیاسی یتیموں کے ساتھ لاوارث عوام بھی موجود ہے جن کا کوئی پرسان حال نہیں ان کے وزرا کے آگے بیوریوکریسی کے لوگ اور لیڈروں کے آگے یہ وزرا خود ہی یہ راگ الاپتے رہتے ہیں کہ اس ملک میں سب اچھا چل رہا ہے۔