آج کل یہ بات ہر محفل میں زیر بحث ہے کہ سندھ میں پانچ برس تک مل کر حکومت کرنے والی دو پارٹیاں متحدہ قومی موومنٹ اور پاکستان پیپلز پارٹی اب بلدیاتی نظام کے سوال پر ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہیں۔ ایم کیو ایم کے قائد نے مہاجر صوبہ کا مطالبہ دہرایا ہے اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کہتے ہیں کہ مرتے مر جائیں گے سندھ کو ہاتھ سے نہیں جانے دیں گے۔ گزشتہ روز حیدر آباد میں کارکنوں کے اجتماع سے ٹیلی فونک خطاب کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے سربراہ نے دعویٰ کیا کہ سندھ کے مہاجروں کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اگر سندھ میں اس بڑی اکثریت کے ساتھ ظلم کا سلسلہ بند نہ کیا گیا تو وہ اٹھ کھڑے ہوں گے اور علیحدہ صوبے کا مطالبہ کریں گے۔ الطاف حسین کا کہنا تھا کہ یہ مطالبہ علیحدہ ملک کے مطالبے کی شکل بھی اختیار کر سکتا ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ کے جلاوطن لیڈر کا یہ کہنا بھی تھا کہ اردو بولنے والے مہاجر اب سندھ میں اکثریت حاصل کر چکے ہیں۔ اس دھرتی پر ان کا بھی پورا حق ہے۔ انہیں ان کے حقوق سے محروم کر نے کی کوشش نہ کی جائے۔
میڈیا میںاس اشتعال انگیز تقریر کے بعد ملک بھر سے سیاسی جماعتوں اور مبصرین نے متحدہ کی نیت اور وطن سے ان کی وفاداری کے سوال پر تبصروں اور مباحثوں کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ اس حوالے سے سب سے پہلا تبصرہ بلاول بھٹو زرداری کا تھا جنہوں نے اپنے ٹویٹر اکائونٹ پر یہ اعلان کیا کہ ہم جان کی بازی لگا دیں گے لیکن سندھ کو ہاتھ سے نہیں جانے دیں گے۔الطاف حسین اپنی تقریروں کے دوران الفاظ اور جذبات سے کھیلتے ہیں۔ وہ اپنے حیران کن فن تقریر سے اپنے حامیوں کو مشتعل اور مخالفین کو ناراض کرتے ہیں۔ تاہم ان کے تاثرات میں ہمیشہ یہ گنجائش موجود ہوتی ہے کہ ان کے مخالفین جب اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے الطاف حسین کے بیان کے منفی پہلوئوں کو سامنے لاتے ہیں تو اصل بیان کی وضاحت در وضاحت کا سلسلہ دراز کر دیا جاتا ہے۔
پاکستانی عوام کا کہناہے کہ الطاف حسین اور ان کے ساتھی گزشتہ چند دہائیوں سے آنکھ مچولی کا یہ کھیل رہے ہیں۔ اس لئے یہ باور کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ ایم کیو ایم سندھ کی تقسیم یا ملک کے حصے بخرے کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اگر کسی سطح پر یہ سیاسی تصور موجود بھی ہو تو یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ کے پاس ملک توڑنے کی سیاسی قوت سے محروم ہے۔ البتہ وہ کراچی اور حیدر آباد میں مہاجر اکثریت کے بل بوتے پر سیاسی بیان بازی کا طوفان ضرور کھڑا کر سکتے ہیں۔اس کے علاوہ گزشتہ چند برس سے ایم کیو ایم نے جس طرح ملک کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ دوستی نبھائی ہے، اس کی روشنی میں یہ کہنا مشکل ہے کہ متحدہ ملک توڑنے کی بات میں کبھی سنجیدہ ہو سکتی ہے۔
تاہم الطاف حسین اس قسم کے کارڈز اور اپنی سیاسی تقریر کا فن اپنا آپ کو منوانے اور ملکی سیاست میں طوفان برپا کرنے کے لئے استعمال کرتے رہتے ہیں۔ اسی لئے اس تقریر کے دوران الطاف حسین یہ دور کی کوڑی بھی لائے ہیں کہ سابق حکمران پرویز مشرف کے خلاف غداری کے الزام میں مقدمہ چلانے کی اصل وجہ یہ ہے کہ وہ مہاجر ہیں۔ پرویز مشرف نے کبھی مہاجر ہونے اور اس حیثیت کا سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی۔ وہ فوجی ہونے پر فخر کرتے ہیں اور فوج کے سربراہ کے طور پر حاصل ہونے والی قوت کے بل بوتے پر ہی انہوں نے 9برس تک ملک پر حکومت کی تھی۔
اب الطاف حسین سابق فوجی حکمران کے برے وقت میں ان کا ساتھ دینا چاہتے ہیں تو اسے حق نمک کی ادائیگی سے ہی محمول کیا جا سکتا ہے۔ ایم کیو ایم نے پرویز مشرف کے دور میں اقتدار کے خوب مزے لوٹے ہیں۔ وفاق اور صوبے میں انہیں اپنی سیاسی حیثیت سے بھی زیادہ حصہ وصول ہؤا تھا۔ اسی لئے جب 2007 میں بحالء عدلیہ تحریک کے سلسلہ میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور ان کے ساتھی کراچی کے دورے پر پہنچے تھے تو اس جماعت نے ایک فوجی آمر کے حمایت میں شہر کو مقتل گاہ میں تبدیل کر دیا تھا۔ پھر اپنی سیاسی قوت استعمال کرتے ہوئے اس واقعہ کی تحقیقات اور مجرموں کے خلاف کارروائی کا راستہ بھی روکے رکھا ہے۔ 2008 کے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کو مرکز اور سندھ میں واضح اکثریت نہیں مل سکی تھی۔
اسی لئے گزشتہ 5سالہ جمہوری دور میں بھی ایم کیو ایم کے پوبارہ رہے اور وہ پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر اقتدار کے مزے لوٹتے رہی۔ اگرچہ ان 5برس میں ناراض ہونے اور مان جانے کا ڈرامہ بھی متعدد بار رچایا گیا لیکن سب ہی لوگ اس طرز عمل کی حقیقت سے آگاہ تھے اور حکومت سے ایم کیو ایم کی ناراضگی اور پھر رضامندی کا رویہ ایک لطیفے کی حیثیت اختیار کر گیا تھا۔
گزشتہ برس منعقد ہونے والے انتخابات میں وفاق میں مسلم لیگ (ن) اور سندھ میں پیپلز پارٹی کو واضح برتری حاصل ہو گئی تھی۔ اگرچہ شروع میں پیپلز پارٹی نے اپنی سابقہ حلیف پارٹی کو صوبائی حکومت میں شامل ہونے کی دعوت دی تھی لیکن ایم کیو ایم نے مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت کے مقابلے میں ایک کمزور پیپلز پارٹی کا فریق بننے کو مناسب نہیں سمجھا۔ اس صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے صوبائی حکومت نے بلدیاتی قوانین میں تبدیلیوں میں ایم کیو ایم کی ضروریات اور خواہشات کو پورا کرنا ضروری نہیں سمجھا۔
Altaf Hussain
اگر الطاف حسین کی تقریر کے سیاسی اشتعال انگیز حصوں کو نظرانداز کر کے ایم کیو ایم کی اس شکایت کو پیش نظر رکھا جائے کہ سندھ میں بلدیاتی نظام میں شہری آبادیوں کی ضروریات اور تقاضے پورا ہونا بھی ضروری ہے تو یہ ہرگز ناجائز سیاسی مطالبہ نہیں ہے۔ سندھ کی حکومت کو کسی صورت صوبے کی ایک اہم سیاسی جماعت کے مطالبات کو مسترد نہیں کرنا چاہئے۔ خاص طور سے ایک ایسی جماعت کے ساتھ تصادم کی صورت حال بے معنی دکھائی دیتی ہے جس کے ساتھ مل کر پیپلز پارٹی 5برس تک حکومت کرتی رہی ہے۔ اس میں شبہ نہیں ہے کہ مہاجر آبادی سندھ کے بڑے شہروں میں آباد ہے۔ ملک کے قیام کے 66برس بعد انہیں اجنبیت کا احساس نہیں ہونا چاہئے۔ مقامی سیاسی معاملات میں انہیں ان کا مناسب حصہ ضرور ملنا چاہئے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ایم کیو ایم پر بھی لازم ہے کہ وہ لسانی اور نسلی بنیاد پر اپنی شناخت کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کا رویہ ترک کر دے۔ پاکستان کے تمام شہریوں کی طرح سندھ میں اردو بولنے والی آبادی کو بھی مساوی حقوق حاصل کرنے کا حق حاصل ہے۔ اس مطالبے کے لئے مہاجر کارڈ کا استعمال غیر ضروری طور سے بے چینی پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔
الطاف حسین اور ایم کیو ایم نے گزشتہ ایک دہائی کے دوران خود کو ایک قومی پارٹی بنانے کی کوشش کی ہے۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں اسے کسی حد تک پذیرائی بھی نصیب ہوئی ہے۔ پارٹی کی قیادت کی جانب سے مسلسل یہ کہا جاتا رہا ہے کہ وہ ملک کے محروم طبقوں کی نمائندگی کرتی ہے اور عام شہری کو سیاسی حقوق دلانا چاہتی ہے۔ یہ جماعت ایک روشن خیال اور متوازن منشور کے لئے کام کر رہی ہے۔ اس نے عام شہریوں کو سیاست میں اعلیٰ مقامات تک پہنچنے کا موقع بھی فراہم کیا ہے۔ان خوبیوں کے باوجود ایم کیو ایم نے سیاست میں مسلح گروہوں کے کلچر کو بھی فروغ دیا ہے۔ اس جماعت کی پیروی کرتے ہوئے اے این پی اور پی پی پی نے بھی کراچی میں اپنے مسلح ونگز منظم کئے ہیں۔ ان کی باہمی لڑائی کی وجہ سے کراچی میں ایک طویل عرصہ سے بدامنی کا دور دورہ ہے اور عام شہری کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے۔ سیاست میں زور زبردستی کے رویہ کی وجہ سے ایم کیو ایم کی شہرت کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ اسی طرح جب الطاف حسین بعض سیاسی مقاصد کے لئے لسانی نعرے بلند کرتے ہیں تو ان کی پارٹی کے وسیع سیاسی پیغام کو نقصان پہنچتا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ پاکستان میںسیاسی بیان بازی کا طوفان کیلئے ایم کیو ایم کے الطاف حسین اور پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو زرداری نے یکساں طور پر سیاسی پیغام رسانی کے لئے جان دینے اور جان لینے جیسے محاورے اور نعرے استعمال کرنا ضروری سمجھا ہے۔ اس قسم کی زبان سے یہ تاثر عام ہوتا ہے کہ سیاست محض فساد کا نام ہے۔ حالانکہ سیاسی نظام ایک مہذب رویہ کی نمائندگی کرتا ہے جس میں جمہوری طریقے سے مطالبات منوائے اور مانے جاتے ہیں۔ ملک کے سیاسی لیڈر اگر جمہوریت کے اس حسن کو عام کرنے میں صلاحیتیں صرف کریں تو ان کی آواز کو احترام اور اعتبار نصیب ہو سکتا ہے۔ اور عام لوگ بھی سیاسی طریقہ کار میں زیادہ دلکشی محسوس کرنے لگیں گے۔