آج کل ہر طرف عمران خان کا حکومت کے خلاف آزادی لانگ مارچ کرنے کی تیاریاں زور و شور پر ہیں۔ دوسری جانب ڈاکٹر علامہ طاہرالقادری بھی بھر پور طریقے سے حکومت کے خلاف اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔ پاکستان میں کئی ہفتوں سے پاک افواج دہشت گردوں کے خلاف ضرب عضب آپرپشن کر رہی ہے تاکہ ملک کو محفوظہ بنایا جائے۔ پاک افواج نہ صرف سرحدوں کی حفاظت کرتی ہے بلکہ ملک بیرونی چیلنجز کا سامنا کرتے ہوئے لااینڈآرڈر آئی ڈی پیز یا کراچی سانحہ سمندر میں بھی اپنا فریضہ سرانجام دے رہی ہے۔
20 کروڑ پاکستان کے عوام کی حفاظت کیلئے پاک افواج دن رات مصروف عمل ہے۔اس ضمن میں حکومت کی جوذمہ داریاں ہیں۔ جب بھی حکومت ان سے مشکل گھڑی آتی ہے ملک کا سربراہ ملک میں موجودہ نہیں ہو تا تب بھی پاک فوج اپنی خدمات ملک کیلئے وقف کرتے میں مصروف ہوتی ہے۔ ملک میںحکومت نام کی کوئی چیز دیکھائی نہیں دے رہی ملک بغیر ملاح کی کشتی کی جانب دیکھائی دے رہا ہے۔ 15 ماہ گزرنے کے باوجود حکومت کی طرف سے کوئی کارکردگی دیکھائی نہیں دے رہی آج بھی عوام پرویزمشرف دور کو یاد کرتے نظر آتے ہیں کم ازکم اسوقت پٹرول کی قیمت ڈالڑ اور روزمرہ کی اشیاء عوام کی پہنچ میں تھی جس سے عوام ایک بہتر زندگی اور خوشحال پاکستان کی گاڑی میں سفر کر رہے تھے۔
اگرمشرف دور اورآج کے دور کا موازنہ کیا جائے تو حکومت کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے ۔مشرف دور میں اندرونی اور بیرونی حالات قابو میں تھے اور ملک درست سمت کی جانب رواں دواں تھا۔تب بھی چندسیاسی مشیروں کی وجہ سے انکی حکومت کو نقصان پہنچا جسکی وجہ سے ابھی حکومت اقتدار سے باہر ہوگئی اور انہیں مجبورا حکومت ایسے مشیروں کی وجہ سے چندمہنیوں یا چنددنوں کی مہمان دیکھائی دے رہی ہے ۔اگر وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کے مشیر ہوش کے ناخن لیں تویہ حکومت مزید وقت گرازسکتی ہے اور اسے اتنے چیلنجز کا سامنانہ کرناپڑتا۔ماضی میں آصف علی زرداری کے دورکاجائزہ لیا جائے تواس میں انکی مہارت اور انکے مشیروں کی حکمت عملی نے مل کرعام سیاسی پارٹیوں کو ساتھ لے کرایک پانچ سالہ دورکزارادیکھاجائے توانکے دور میں بھی کوئی دودھ کی نہریں نہیں بہہ رہی تھیں یہ تمام چیلنجزاس وقت بھی موجود تھے۔
Pak Army
لیکن انکی سیاسی مہارت اور سطرنج کی چالوں نے انہیں اپنا پانچ سالہ دورمکمل کرنے میں کامیاب کیا اب بھی دیکھا جائے تو آصف علی زرداری نے موجودہ حالات میں کوئی بھی سیاسی بیان ماسوائے ایک یادوبیان کے وہ خاموشی ڈھانے ہوئے ہیں اور دیکھارہے ہیں کہ اونٹ کس کروٹ بٹھاتاہے پھروہ حتمی فیصلہ کرکے اکیلے ساتھ میدان میں دیکھائی دیں گے اور دوسری طرف ایم کیو ایم بھی اسی حکمت عملی پر دیکھائی دے رہی ہے ۔الطاف حسین نے حالیہ بیان میں ملک کو یہ عندیہ دیا ہے کہ ہوش کے ناخن لو جمہوریت کو خطرات لاحق ہیں ۔انہوں نے میاں نوازشریف کومشورہ دیتے ہو ئے آگے بڑھیں تو مسلم لیگ نواز کی حکومت جائے کے امکانات مزید بڑھے سے بہترہے کہ میاں نوازشریف اپنی پارٹی میں کسی اور کو وزیراعظم نامزد کردیں تو شاید پی ٹی آئی اور پاکستان عوامی تحریک کا غصہ ٹھنڈا ہو جائے تو کیا واقعی ایسا دیکھائی دیتا ہے میرے نزدیک ان چیزوں کا وقت گرزچکاہے اب فیصلے کا وقت قریب ہے۔ چند دنوں ہفتوں میں ملک کا سیاسی منظرنامہ تبدیل ہونے کو ہے ۔روزبروز حکومت اور اپوزیشن میں شدید بیان بازی اور آنے والے دنوں میں سٹرکوں پر عوامی قوت کے مظاہروں سے مزیدحالات بگڑنے خدشات دیکھائی دے رہے ہیں ۔تمام سیاسی پارٹیوں کا شدید ردعمل اس ملک کے عام مسائل کو پیچھے چھوڑگیا ہے ہونا تویہ چاہیے تھاکہ تمام سیاسی پارٹیوں کو مل کرپاک افواج کے شانہ بشانہ کھڑے ہونا چاہے تھا ۔اور اپنے سیاسی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پاک افواج کا ساتھ دیناچاہیے تھا۔اس وقت اگرملک میں قیادت کا فقدان ہے توفوج کو چاہئے کہ ایک ایسا ٹکینوکریٹ سیٹ اپ تشکیل دیاجائے جسکی نگرانی چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف ازخود کریں۔جس میں تمام غیر سیاسی لوگوں کا مختصرسیٹ اپ ہو جواس ملک کی باگ دوڑسنبھالے اور اس ملک سے اب تک جن جن سیاستدانوں نے پیسہ لوٹاہے بے رحم احستاب سے یہ پیسہ واپس لیا جائے اور ملک کے خزانے میں جمع کروایا جائے ۔
اس سیٹ اپ میں اچھی شہرت کے حامل لوگ جن میں ریٹائرڈ جنرل بیوروکریٹ ودیگر شعبوں سے وابستہ لوگوں پر مشمل ٹیم تشکیل دی جائے کو کڑے احستاب کا عمل جاری رکھ سکیں۔اور اس ملک سے اب تک جیتا بھی سرمایہ بیرون ملک منتقل کیا گیا ہے ایسے فوری طور پر واپس منگوایا جائے جسکے لیے چندناموں کی درخواست ہائی کو رٹ میں اس وقت موجود ہے جس میں بہت سارے سیاستدانوں کے نام شامل ہیں اور انکے لوگوں کے نام ECLمیں بھی ڈالیں جائیں جہنوں نے مختلف حکومتوں میں خریدوفروخت کے درمیان کیمشن کے ذریعے پیسے بناتے ہیں۔ان کا کڑااحستاب کیا جائے اس کڑے احستاب سے ملک کے خزانے کو بہتر کیا جاسکتا ہے۔
Nawaz Sharif
یہاں میں یہ بتاتا چلوں کی تمام سیاسی پارٹیوں کیلئے 62/63 پر پورااترنالازم قرار دیاجائے تاکہ اس ملک میں صحیح،حقیقی ،محب وطن اور سیاسی بصیرت کے حامل لوگوں کے ہاتھوں میں اقتدار سونپاجائے اس وقت یکم اگست سے اسلام آباد میں آرٹیکل 245نافذ ہو چکا ہے ۔یہ موجودہ حکومت کی خواہش پر نافذکیاگیا ہے پاکستان مسلم لیگ کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں دہشت گردی کی وجہ سے یہ قدم اٹھانا پڑا لیکن عوام جانتی ہے کہ اسکے پیچھے عزائم کچھ اور ہیں تاکہ اپنے مخالفین کو ڈرادھمکاکر احتجاج سے روکاجاسکے لیکن یہ جو احتجاج ہے یہ آج پلان نہیں ہو ا عمران کان نے الیکشن کے فورا بعد آگاہ کردیا کہ 4 حلقوں کی گنتی کی جائے لیکن حکومت کے کانوں پرجوں تک نہ رینگی اب حکومت یہ کروانے کے لئے تیارہے لیکن اب وقت نکل چکاہے چنداپوزیشن پاریٹوں نے ملکر اسلام آباد کی طرف مارچ کرنے کا اعلان کیا ہے جن میں پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری ،پاکستان مسلم لیگ ق اور آل پاکستان مسلم لیگ جسکے سربراہ سابق جنرل پرویزمشرف اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد اس سیاسی گٹھ جوڑ میں ایک پل کا کردار رہے ہیں شیخ رشیداحمدکی بہت کوشش ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقاردی اور پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان مل کر اسلام آباد کی طرف مارچ کریں تو انکے مطالبات کو کامیابی ملنے کے کافی امکامات ہیں۔دیگر مزہبی جماعتوں کی شمیولیت سے انکے مارچ کو مزیدتقویت ملنے کے امکانات ہیں جس میں علامہ راجہ ناصر عباس ،باباحیدرہزازہ کے سرابرہ صاحبزادہ حامد رضاسنی اتحاد
کے سربراہ صاحبزادہ شامل ہیں اسکوون ملین آزادی مارچ کا نام دیا گیا ہے ۔جوآئندہ چندروزمیں اسلام آباد کی طرف رخ کرے گا۔یہ سب کچھ کیوں ہو رہاہے حکومت کی نااہلی کی وجہ سے مذاکرات کے تمام دوروزے بند ہوچکے ہیں اسکی وجہ یہ ہے۔اسکی وجہ یہ ہے کہ سانحہ ماڈل ٹائون جس میں 15 جانوں کا ضاع اور پولیس تشدد کسی سے ڈھکا چھپانہیں ، اس واقعہ نے 1977 کی یادتازہ کردی۔ذوالفقارعلی بھٹو کو دھاندلی کے الزامات کی وجہ سے حکومت ہاتھ سے چلی گئی
فوج اس وقت ایوان صدرپی ٹی وی اور دیگر عمارتوں کے باہر تعینات تھی،جو ان تمام عمارتوں کی حفاظت کررہی تھی کہ کوئی کہ کوئی اندر نہ جائے تب اچانک جنرل ضیاء الحق چیف آف دی آرمی سٹاف تھے انہوں نے 3جولائی1977کو پورے ملک میں مارشل لاء نافذ کردیا گیا جمہوری اختیارات کو معطل کرتے ہوئے کنٹرول سنبھال لیا گیا جو فوج سیاستدانوں کی حفاظت پر مامور تھی مارشل لا لگنے کے بعد اسی سیاستدانوں کی گرفتاری عمل میں لے آئی بتانے کا مقصد یہ ہے کہ موجودہ سونیدیو میں اگر آنے والے وقت میں موجودہ حکومت ختم ہو جاتی ہے تو مڈٹرم الیکشن ہونگے یا ٹیکنو کریٹ سیٹ اپ بنے گا اور آنے والے وقت میں سپریم کورٹ کا رول اہم دیکھائی دے رہا ہے اور جوریٹلی کو بھی اختیارت ملنے کے روشن احکامات ہیں قارئین کرام میں آپ کی توجہ10اپریل1986کی طرف مذول کروانا چاہتا ہوں 10اپریل1996کو جب سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو لاہور ایئر پورٹ پر اتری تو وہاں پر تقریبا10سے 12لاکھ لوگ انکے استقبال کے لئے موجود تھے۔
یہ ایک بہت بڑا ہجوم تھا جس سے بہت سارے خطرات لاحق ہو سکتے تھے اسکے باوجود اس وقت کے وزیراعظم محمد خان جونیجو مرحوم تھے نے حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے عوام کو فری ہینڈ دیا محترمہ بے نظیر بھٹو آرمی کے علاقہ سے ہوتی ہوئی داتا صاحب تک پہنچی جس نے یہ نظارہ اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا نہایت پر امن طریقے سے وہ اپنی منزل مقصود تک پہنچی اور کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آیا دوسری طرف میاں صاحبان آپ کو اپنا لانگ مارچ بھی یاد ہوگا جو آپ نے چیف جسٹس کی بحالی کیلئے ماڈل ٹائون لاہور سے اسلام آباد کی جانب کیا تھا جس میں تقریبا4لاکھ لوگ موجود تھے تب بھی اس وقت کی حکومت پاکستان پیپلزپارٹی نے کوئی ایسا قدم نہیں اُٹھایا جس سے آرٹیکل245نافذ ہوا ہو تب بھی آپ کو مکمل فری ہینڈ دیا گیا تھ اور آپ کے قافلے کو گوجرانوالہ اور گجرات کے درمیان چیف جسٹس کی بحالی کی خوشخبری مل گئی تھی اور اسی رات آپکے چیف جسٹس کی بحالی کے احکامات جاری کردئیے گئے تھے آپ کو بھی اس سے سبق سیکھنا چاہیے تصادم اچھی چیز نہیں بہتر یہ ہو گا کہ حکومت باقی سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر کمیٹی تشکیل دی تاکہ اپوزیشن کے مطالبات کا فوری طور پر حل نکالا جائے اور الطاف حسین کے مائنس ون فارمولے کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے۔
اگر ایسا کرنے سے حالات بہتر ہوتے ہیں تو نواز شریف کو سیٹ کی بجائے ملک کی فکر کرنی چاہے تاکہ تصادم نہ ہو اور اور ملک انارگی کی طرف نہ چلا جائے نہ کہ گلی گلی کوچہ کوچہ سیاسی پارٹیوں کے تصادم سے سانحہ ماڈل ٹائون کی طرز کے واقعات پورے ملک کو لپیٹ میں نہ لے لیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ کو بھی زمہ داری لیڈر بن کر ایسے فیصلے کرنے چاہیں جس سے ملک کو انارگی سے بچایا جا سکے انکو بھی فوری طور پر ڈاکٹر طاہر القادری سے مشاورت کر کے حکومت سے مذاکرات کے ذریعے اپنے مطالبات 14 اگست سے پہلے منوانے چاہیں تاکہ کارکنوں کی جانوں کا ضیاع بچایا جا سکے ایسا نہ ہو کہ سیاسی پارٹیوں کے غلط اقدامات کیوجہ سے جمہوریت کی بساط ایک سے ڈیڑھ دھائی تک لپیٹ دی جائے اور ایک کڑے احتساب کا سامنا کرنا پڑے۔
اس وقت پاکستان کے اندر جو سیادی منظر نامہ تبدیل ہوتا دیکھائی دے رہا ہے اس میں پنجاب کو 62 فیصد پر متحمل ہے یہاں سے جو تحریک اٹھتی ہے وہ اپنے منطقی انجام تک ضرور پہنچتی ہے افسوس اس بات کا ہے کہ باقی صوبوں کوہمیشہ پاکستان کے بدلتے ہوئے منظر نامہ میں کوئی اہمیت نہیں ملتی جس سے کوئی خاطر خواہ مستقل موثر پالیساں اور موثر نظام دیکھنے کو نہیں ملتا۔ عام سیاسی پارٹیوں کو مل کر پاکستان کے بہتر مستقبل کیلئے ایک آواز ہو کر پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑاہو گا۔