اللہ پاک انہیں اب نواز فوبیا سے ہٹا کر ملک سے اٹھتی آسمان تک بلند ہوتی بھوک افلاس کی چیخیں سننے والے کان دے الحمد للہ دنیا بھر سے کی گئی دعائیں رنگ لائیں آور آخر کار سیاسی ٹکٹکی پر سیاسی مخالف کو رویے سے زبان سے عمل سے توڑتوڑکر زندل لاش بنا دیا گیا سیادی موشگافیاں قدم قدم پر علاج میں رہائی میں رکاوٹ لیکن نا ممکن. کو ممکن بنانے والی تو صرف ایک ذات ہے اس نے ہر حیلہ بہانہ ختم کروایا رحم کی صدا بلند کر کے بے رحم حرفوں سے قید زخت کرنے والے قدرت کے سامنے اپاہج نظر آئے اور نواز شریف ہر تاوان کو مسترد کرتے ہوئے سیاسی بلیک میلنگ سے لڑتے ہوئے جیتے اور عدالت عالیہ کے پچاس روپے کے اسٹیمپ پیپر پر دستخط کر کے علاج کی غرض سے. بظاہر چارہفتوں کے لیے ملک سے باہر چلے گئے اب حکومت وقت کی مکمل توجہ ملکی بگڑتے ہوئے. استحکام پر مرکوز ہونی چاہیے وزراء جے علاوہ. مشیران کی فوج ظفر موج ہمارے ٹیکسسز سے وصولی کر ہیہے اور کارکردگی جے نام پر صرف زبانی جمع خرچ اب بندہونا چاہیے قفل ڈال لیں ان زبانوں جنہوں نے عوام ٹیکس سے تنخواہیں تو وصول کیں مگر کارکردگی کے نام پر دھوکہ اور مخالفین جو صرف گالیاں دیں یہ بھی کرپشن ہے اس کرپشن کا حساب اور عوام کے آنسوں کا حساب احتساب عدالت لے گی یا سو موٹو سے ان نکموں کی پوچھ وگی یا پھر اب وقت قریب آ رہا ہے زبانی بدلحاظی کا جواب ہر بھوک سےبلکتا ہاتھ میں ہتھر اٹھا لے جس ملک میں بیرونی قرضوں کی وصولی ان شرائط پر ہو کہ ہمیں پیسے چاہیے ہم قبول کرتے ہیں کہ ملک کی عورت کو تمہاری شرائط اور معاہدے میں موجود فیشن انڈسٹری. شو بز الغرض ہر وہ منصوبہ عورتوں کی نام نہاد ترقی کے نام۔پر شروع کر کے انہیں گھر سے باہر لائیں۔گے اور عورت کی گھریلو زندگی ختم کروا کے مہارانی بنا دیا گیا جو آلہ کار بن کر ان غیر فطری اداروں کیلیے ہمارا ساتھ دے نتیجہ یہ بیرونی قرضہ ملک کی ماں بہن بیٹیوں کو باوقار باعزت کام تو کم کم دینے لگا لیکن فیشن انڈسٹری کی مد ہو شو بز ہو یا بین القوامی فرنچائز پر چھوٹی چھوٹی نوکریاں دے کر آنکی جھجھک کو ختم کرنے کی ابتداء پورے ملک میں ہو چکی ریاست مدینہ والی مردوں کی غیرت جن کے سروں پر بیوی بچے پلتے تھے بھول گئے دین سے دورسنی سنائی مطلب کی باتوں پرتعمیر مدینہ کرنے والے آج ناایلی کی مثال ان لاکھوں نوجوانوں کی مایوسی میں دیکھ سکتے ہیں جن کی امیدوں کی کرچیاں ہر طرف بکھری دکھائی دے رہی ہیں سمجھنے کی کوشش کریں جن کی دن رات کی محنت سے یہ گلی محلوں میں دن رات رلنے والے وہیں کے وہیں بیروزگار مایوس رہ گئے وزارتوں پر بد لحاظی کیٹ وہ پہنچے جن کے جملوں کا علاج بھی نہیں ہے اصل پڑھے لکھے بنیادی اراکین جو ملک کو واقعی لاجواب بے مثال بنانا چاہتے تھے آج ایک ب ار پھر حاکم وقت کی کم عقلی کا ماتم کرتے ہوئےگھر والوں کے طعنے سہتے ہوئے واپس اندھیرے کمروں میں منہ چھپائے مایوس قسمت سے گلہ کر رہے ہیں ملک میں اس قیادت کو لایا گیا تھا کہ عام بندےکیلیے ان کی زبان پر ہر وقت منصوبہ بندی سنائی دیتی تھی لیکن ایک بار پھر پوری قوم اعتماد کوپارہ پارہ ہوتے دیکھ جر خود حیران ہے کہ ان کے ساتھ ہوا کیا ہے؟ برسر اقتدار آئے تو سیاسی زنبیل سیاسی شعبدہ بازی کے بعد خالی ہو چکی تھی اس وقت دنیا نے ہندوستان نے دیکھا کشمیر پر چیر پھاڑ کرنے والےتھے وہ صرف. لفظوں کی حد تک تھے ان کی تو توجہ سانسیں لیتے نواز کی سانسوں کو گننے ہرتھی آور کتنی باقی رہ گئیں پاکستان جو بیرونی جانب سے غیر اسلامی نہیں اسلامی ممالک سے سرد جنگ کی کیفیت میں ہے اس طرف کسی کا خیال نہیں وہاں برسوں سے افواج پاکستان کےنام پر جانب از لاشے بن بن کر گھروں کو جا کر اس ملک کوبچا رہے ہیں چاہیے تو یہ تھا پرانے کرپٹ تھے آپ کے آتےہی مزید شھداء کی زندگیاں بچانے کے لیے خاطر خواہ اقدامات کیے چاتے زندگی قید میں سیاستدان کیلیے سیاسی حیات ہے لیکن اگر اسے سیاسی طاقتور حریف سمجھ کر جسم سے زیادہ ذہنی اذیت دے دے نر اعصاب شکن سزا دی جائے تو کبھی کبھار قیدی تو اس اعصاب شکن سزا سے نکل کر علاج کے لیے اسی ط مطراق کے ساتھ ملک سے روانہ ہوتا ہے لیکن بے سکون کرنے والا کا اپنا چہرہ کس قدر وحشتناک ہو جاتا ہے کہ شکست قبول ہے یہ اعلان شہر اقتدار سے رخصتی سے منسوب بچگانہ طرز عمل سے واضح ہوتا ہے عمران خان نواز فوبیا فی الحال ٹل گیا نواز اس کے چاہنے والے اللہ کی مہربانی سے جبر قہر کے اس پہرے سے نکل گئے آپ بھی طویل خوفناک خواب یعنی نواز کو اعصاب سے اتارنے کی کوشش کریں سردی آگئی جن کے گھر توڑے گئےنئے گھروں کے وعدے پر وہ کھلے آسمان تلے بوڑھے بیمار والدین کے ساتھ امداد. کے منتظر ہیں میڈی ا کی پابندی عدالت نے کھلوا دی آب ٹماٹروں مٹروں آلو پیاز کی بڑہتی ہوئی قیمت براہ راست میڈیا دکھا رہا ہے ملک ایک ارب درختوں سے سر سبز و شاداب کرنے سےپہلے کروڑوں بھوک سے مرتے ہوئے لوگوں کو بچائیں پولیو کا مرض پھر سے سر اٹھا رہا ہے وہ فوری توجہ طلب مسئلہ ہے آورنج ٹرین جلد از جلد چلا کرحکومتی آمدنی کوبڑہائیں پشاور میٹرو سے سر دست کوئی توقع نہیں عمران خان عوام کسی صورت مشیران کی بد زبانی سے نواز سے بد ظن اور آن سے راضی ہونےوالی نہیں عوام نےبہانے خیالی پلاوّ پکتےبہت دیکھے آب اور وقت نہیں دیں گے ہم سب نے سوچا تھا ملک کے لیے اتنا زیادہ بولنےوالا آتے ہی ایک ارب کا قرض ان کے منہ پر دے مارے گا ہم سوچتے تھے آپ کے اقتدار پر بیٹھتے ہی. آپ کی کہی ہوئی ہر بات صبح سچ نکلے گی پاکستان کےلیے آپ نجانے کونسا افلاطونی نظام راتوں رات لا کرصبح کے نئے سورج کے ساتھ میرا ملک سونا اگلے گا ہر بچہ سکول جائے گا ہر مریض دوا لے سکے گا چہروں پر سکون بڑہاپا باعزت گزرے گا آپ نے تو ٹھٹھرتی سردی میں بوڑھوں کو کانپتے جسم کے ساتھ ھاتھ پھیلانے پر مجبور کر دیا مداوا لنگر مداوا کیا بھکاری بنادیا کیا یہی انقلابی نئےاقدامات تھے براہ کرم رحم کریں اس قوم پر حکومتی ترجمانوں کی ٹی وی آمد ختم کروائیں کام پر توجہ دیں جب کوئی منصوبہ مکمل کریں تو آکر عوام کولنگر خانہ بناکر بھکاری بنانے کی بجائے نئی نوکریوں کی خوشخبری دیں لیکن آب کنٹینر والی واہی تباہی برداشت کرنے کی برداشت ختم ہو گئی عمل چاہیے وزیر اعظم سےبھی اور انک ے وزرا کرام سے بھی ہمیں دیکھنا ہےوہ دن کہ جس کا وعدہ تھا ہر مخلص پی ٹی آئی ورکر جو عمران خان کے ساتھ نکلا تھا آج مایوسی سےبچنے کا یہ واحد راستہ ہے کیونکہ خواب دکھانے والےحالات نا موافق ہونے پر ہیلی کاپٹر پر سوار ہو کر عوامی احتجاج سے بچ جاتےہیں مگر وہ جو گلی محلے میں قائد پر بھروسہ کر کے اندھا دھند دوستیاں رشتےسب توڑ کر قائد کابیانیہ ہر طرف پہنچاتے ہیں ناکام حکومت کا خمیازہ وہ بھگتتے ہیں کیونکہ آن کے مقدر میں وہی دوکمرے کا نیم تاریک گھر درودیوار سے ٹپکتی ماہوسی اور اسکی حسرتیں رہ جاتی ہیں کیونکہ کمروں سے نکل کر محلوں تک پہنچنے کیلیے جو معیار متعین کیا گیا ہے وہ لاکھوں کیلیے نہیں یہاں بھی خواص کیلیے ہے
اپنی جماعت میں ہر عمل کے دو انداز متعین ہیں ایک خواص کیلیے دوسرا عام کے لیے مگر سیاسی مخالفین کیلیے ایک پاکستان کا نعرہ سیاسی نظریہ ضرورت ہے