پاکستان میں سیاست دانوں کی گرفتاری کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ قیام پاکستان سے لے کر جو بھی حکمران مسند اقتدار پرآیا اس نے اپنے مخالف کو جیل کی سیر ضرور کرائی ہے۔ اس وقت بھی جو کچھ پاکستان میں ہورہا ہے وہ ناقابل فہم نہیں ہے ۔ سب دُور بدل چکا ہے ، چہرے بدل رہے ہیں ، لیکن بس سیاسی اقدار و سیاسی انتقام لینے کی روش نہیں بدلی۔ کئی بار ذاتی اظہارایہ کرچکا ہوں کہ پاکستان کی بود باش میں جمہوریت کا تسلسل اور برداشت کا مادہ نہیں ہے ۔ قیام پاکستا ن کے بعد لیاقت علی خان کے قتل سے لیکر پاکستان جن نشیب و فراز سے گذر رہا ہے وہ ایک ایک ایسی طویل داستان ہے جسے سوئچ آف کرنے کے بعد بھی دیکھا جاسکتا ہے ۔ سیاست میں تشدد کا فروغ بھی کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ جہاں سیاست میں خوانین ، سرداروں،جاگیرداروں ،وڈیروں ، سرمایہ کاروں کے مسلح بند اہلکاروں کی فوج ظفر کی موجودگی بھی ضروری سمجھی جاتی رہی ہے ۔ وہاںپاکستان میں فروعی مفادات کے لئے حکومت پر دبائو ڈالنے کے لئے ہارس ٹریڈنگ ہو یا پھر کوئی بھی غیر مناسب رویہ ہو یہ روش بھی کوئی نئی نہیں ، اس لئے پاکستا ن میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ بالکل نیا نہیں ہے ۔ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں کہ پاکستا ن کی سیاسی تاریخ کبھی جمہوری نہیں رہی ، چاہے وہ آمرانہ ہو یا جمہورانہ ہو۔ لیاقت علی خان سے لیکر بابڑہ ، بارہ مئی ، سٹی کورٹ ،قتل بے نظیر بھٹو، ماڈل ٹائون سمیت ان گنت واقعات کے ذمے داروں کا آج تک کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جاسکا ۔ پاکستان سے باہر نظر دوڑائیں تو اس بات کا شکر ادا کرتے ہیں کہ کم ازکم پاکستان میں مسلح شرپسندوں کی وجہ سے ، امریکی بلاک ہو روس کا دوسرا بلا ک ، پاکستان کی شہری آبادیوں ، اسپتالوں ،بازاروں اور عوامی مقامات کو نشانہ نہیںبنارہا ۔ اس پر تو اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتے ہیں لیکن ایسا کب تک ہوتا رہے گا ۔ کہ بیرونی سازشوں و سہولت کاروں سے اپنی سرزمین کو محفوظ رکھ سکیں ۔ لیکن ایسا کب ہوگا کہ ہم اپنے قوم و فعل میں تضاد کو ختم کردیں یاپھر اپنی غلطیوں کو درست کرنے کی کوشش شروع کردیں۔
انبیاء سابقین کسی ایک خطے، ملک، قبیلے یا قوم میں مبعوث کئے جاتے تھے مگر نبی اکرم ۖ تمام انسانوں کے لئے رسول بن کر تشریف لائے لہٰذا اللہ نے قرآن میںآپ کو حکم دیا: ”کہہ دیجئے،اے لوگو! میں تم سارے انسانوں کی طرف نبی بناکر بھیجا گیا ہوں” ْ۔ مسلم اکثریتی ممالک میں مسلمانوں کی تعداد اقلیت کے مقابلے میں زیادہ ہیں لیکن ایک ایسا انسانی معاشرہ ہمارے درمیا ن موجود نہیں ہے جس سے مختلف مذاہب ، الگ الگ نسلوں اور طبقے کے لوگوں میں اخوت بڑھانے کے لئے میل ، محبت کو بڑھا سکیں ۔قرآن کا پیغام ہے کہ: ”اے لوگو! ہم نے تمہیں نر اور مادہ میں پیدا کیا ہے اور خاندان وقبیلے بنائے ہیں۔ صرف اس لئے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو، ورنہ اصل بات یہ ہے کہ اللہ کے نزدیک تم میں سے زیادہ معزز وہ ہے، جو زیادہ پرہیز گار ہے۔” ۔ قرآن کریم میں بڑے صراحت کے ساتھ بیان کردیا گیا کہ نسل ، ذاتیں ، قبیلے فخر و خود کو برتر ثابت کرنے کے لئے نہیں ہیں ۔ خود ان کے خالق کا فرمان ہے کہ انسان ہونے کی حیثیت سے وہ برابر ہیں اور ان میں سے نہ کوئی بڑا ہے اور نہ مرتبے کے لحاظ سے چھوٹا۔ اگر کسی کو برتری حاصل ہے تو صرف تقویٰ اور خوف خداوندی کی بنیاد پر۔حجة الوداع کے موقع پر رسول اکرم ۖ نے جو خطبہ دیا تھا اس میں بھی آپ نے مسلمانوں کے ایک بڑے مجمع کے سامنے اس بات کا اعلان کیا کہ کسی کو کسی پر فضیلت و برتری حاصل نہیں ہے۔ سب لوگ برابر ہیں اور ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ اللہ اور رسول نے اپنے احکام میں یہ بات واضح کردی ہے کہ حاکم ومحکوم، عربی وعجمی، سیاہ و سفید، کمزور و طاقت ور، مومن و کافرانسان ہونے کی حیثیت سے یکساں ہیں۔ وہ قانون کی نظر میں بھی برابر ہیں لہٰذا کسی کے ساتھ مذہب، ذات، رنگ و نسل یا علاقے کی بنیاد پر کوئی بھید بھاؤ نہیں کیا جا سکتا۔
اسلام نے عصبیت کی بنیاد ہی کھوڈ ڈالی تاکہ کسی مذہب سے تعلق رکھنے والے سے بھید بھائو نہیں کیا جائے۔ قرآن کریم میں ارشاد فرمایا گیا: ”تو اگر(غیر مسلم) تمہارے پاس کسی فیصلے کے لئے آئیں تو ان سے اعراض کرلو اور اگر فیصلہ کرو تو انصاف کرو،کیونکہ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔’ قرآن میں اس تعلق سے بھی فرمایا گیا کہ: ”مذہب کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں ہے۔” دوسرے مقام پر فرمایا گیا کہ: ”تمہارے لئے تمہارا دھرم ہے اور ہمارے لئے ہمارا دین” علاقہ و نسل پرستی کی وجہ سے ہم دنیا کے سامنے ذلیل ہو رہے ہیں۔ مخالفت میں علاقائیت کے نام پر کسی تفرقہ پردازی، فخر و غرور ۔ اپنے سے کمتر سمجھ کر حقارت، رشوت ، سفارش و اقربا پروری عروج پر ہے ۔ آج جائزہ لیجئے تو اتحا د ویکجہتی کا فقدان نظر آیے گا ۔ ہر ایک کسی نہ کسی کے درپے آزار ہوگا ۔ کوئی آپ کو باہم متفق و متحد نظر نہیں آئے گا ایک ملک دوسرے ملک کے درپے آزار تو ہے ہی۔ لیکن عام زندگی میں خلفشار انتشار و عدم سکون عروج پر ہے ۔ احساس ختم ہوتا جارہا ہے بے حسی نے دلوں میں جگہ پالی ہے کیونکہ جس قوم کا احساس مر جاتا ہے ۔دنیا اسے اپنے قدموں تلے روند دیتی ہے۔ مثلاََ دنیا کے کسی خطے میں اگر کسی نصرانی یا یہودی کا قتل ہو جاتا ہے تو پوری عیسائیت و یہودیت اس کی حمایت میں اٹھ کھڑی ہوتی ہے لیکن دنیا کے اکثر خطوں میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی ہے مگر مسلم اکثریتی ممالک میں بے حسی ہے۔ ایک عرصہ سے فلسطین و افغانستان اور چیچنیا و عراق نیز لبنان میں مسلمانوں کا قتل عام ہو رہا ہے۔ اور مسلم حکمراں خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔اقتصادی زبوں حالی ہے۔ مجموعی طور پر مسلم دنیا کی اقتصادی حالت نہایت کمزور ہے۔ جو ترقی کیلئے اہم رکاوٹ اور ذلت و خواری کا سبب بنی ہوئی ہے۔سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں ہماری پسماندگی ہے۔ مسلم دنیا میں سوائے چند کے نہ تو کوئی ماہر سائنس ہے اور نہ علمی دانشگاہیں۔ حالت یہ ہے کہ آج تنہا جاپان میں جتنی یونیورسٹیاں ہیں پوری مسلم دنیا میں اتنی نہیں۔صنعت و حرفت میں مسلم دنیا کا پیچھے رہ جانا شرمندگی کی سب سے بڑی مثالیں ہیں۔
پورے عالم اسلام کا یہ حال ہے تو پاکستا ن کی حالت بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔سیاسی جماعتوں کے کارکنان اپنے رہنمائوں کی گرفتاریوں پر سرپا احتجاج نظر آتے ہیں تو مخالف سیاسی جماعت کے کارکنان بھنگڑے ڈالتے نظر آتے ہیں۔ سیاسی انتقام ہے یا حقیقت اس کے درمیا ن فرق ہی مٹ چکا ہے ، سیاسی رہنمائوں کے بیانات میںجھوٹ کتنا اور سچ کتنا ہے کوئی وثوق سے نہیں کہہ سکتا ۔ حکومت تان سین کی راگ الاپ رہی ہے تو اپوزیشن پانی میں آگ لگانے کی کوشش کررہی ہے ۔ ایک حکومت آئے گی تو دوسری آجائے گی ۔ یہ سلسلہ چلتا رہے گا ۔ کوئی اپنی زندگی و اقتدار کو ہمیشہ کے لئے صحفے پر لکھوا کر لایا ہے ۔ تمامسائل کا حل صرف انصاف کی درست فراہمی ہے۔ ٹرائل عدالتوں میں براہ راست میڈیا کوریج دی جائے تاکہ عوام ان مقدمات کو خود دیکھیں کہ کون سچا اور کون جھوٹا ہے۔ کس نے قوم کی دولت لوٹی تو کس نے قوم کی خدمت کی ۔ پاکستان پوری دنیا کا ٹھیکدار نہیں ہے پہلے ہمیں اپنا گھر درست کرنے ضرورت ہے۔ ہر پانچ منٹ بعد جس کو دیکھو کوئی نہ کوئی پریس کانفرنس کرنے پہنچ جاتا ہے ۔ عوام کی فرسٹرین میں اضافہ کرتا ہے۔ برائے کرم ہر جماعت پریس بریفنگ کے لئے ایک ترجمان رکھ لے ۔ تاکہ قوم کے خلفشار میں اضافہ تو نہ ہو۔عجیب تماشہ بنایا ہوا ہے۔ اس تماشے کو بند کردیںتو بہتر ہوگا ۔ورنہ نتائج کسی کے بھی قابو میں نہیں رہیں گے۔