تحریر : طارق حسین بٹ شان پاکستان چاروں طرف سے دشمنوں میں گرا ہوا ہے لیکن باعثِ حیرت ہے کہ سیاستدان، پاکستانی اسٹیبلشمنٹٹ، میڈیا اور عدلیہ باہم دوست و گریبان ہیں۔کوئی بھی ایک دوسرے کو برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔کچھ حلقے وزیرِ اعظم کی رخصتی چاہتے ہیں لیکن میاں محمد نواز شریف کسی کو بھی خاطر میں لانے کیلئے تیار نہیں ہیں۔انھوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ جمہوریت کی جنگ پورے عزم اور حوصلے سے لڑیں گے چاہے اس میں ان کی جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔ان کے اس فیصلے میں ان کی شیر دل سپتری مسزمریم صفدر کا کلیدی ہاتھ ہے۔ان کا یہ بیان کہ وہ مرد نہیں ہے جو ڈر جائے ان کے عزائم کا پتہ دیتا ہے۔
کہتے ہیں انسانی زندگی میں کبھی کبھی ایسے لمحے بھی آتے ہیں جب کسی انسان کی اپنی ذات اس کیلئے غیر اہم ہو جاتی ہے اور وہ مقصد جس کا اس نے تعین کر رکھا ہو تاہے اہم ترین ہو جاتا ہے۔ کیا ذولفقار علی بھٹو کو اپنی جان عزیز نہیں تھی ؟ بالکل عزیز تھی لیکن پھر بھی انھوں نے اسے قربان کرنے کا کیوں عہد کیا تھا؟ایسا انسان تو کروڑوں انسانوں میں ایک ہوتا ہے جو اس طرح کے فیصلے کرتا ہے ۔ایسے انسان کی فہم وفراست،اس کی عقل و د انش ،اس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت،اس کی جرات و بسالت اور اس کا عزمِ مصمم کروڑوں انسانوں سے اعلی ہوتاہے اسی لئے تو اسے دیدہ ور کہا جاتا ہے ۔ہم تو محض گفتار کے غازی ہیں لیکن ذولفقار علی بھٹو تو کردار کے غازی تھے۔انھیں خبر تھی کہ ان کی جان لینے کا فیصلہ ہو چکا ہے لیکن اس کے باوجود انھوں نے راہِ فرار اختیار کرنے کی بجائے سورمائوں کی طرح اپنی جان قربان کی تھی۔انھیں معافی مانگ لینے اور جنرل ضیا الحق کے سامنے جان بخشی کی درخواست جمع کروا کر جلا وطنی کا مشورہ دینے والے بزدلوں کی کمی نہیں تھی لیکن انھوں نے ان سب کی ایک نہ سنی اور ایک ایسی راہ کا انتخاب کیا جو ان سب کے وہم و گمان میں نہیں تھا۔
ترکی نے انھیں پناہ دینے کی خواہش ظاہر کی تھی۔یو اے ای انھیں اپنے ہاں رکھنے پر بضد تھا۔سعودی عرب ان کو پلکوں پر بٹھانے کیلئے بے چین تھا۔شام اور لیبیا ان کی راہ میں آنکھیں بچھائے بیٹھے تھے لیکن انھوں نے ملک چھوڑ کر کہیں بھی جانے سے انکار کر دیا تھا ۔ان کا کہنا تھا کہ میں تاریخ کے ہاتھوں مرنے کی بجائے ایک آمر کے ہاتھوں مرنا پسند کروں گا۔وہ ایک آمر کے ہاتھوں طبعی موت ضرور مرے لیکن حیران کن امر یہ ہے کہ ایک آمر اور اس کے حوا ری اسے مل کر بھی مار نہ سکے۔کیسا لاجواب انسان تھا کہ مقدمہ ِ قتل میں پھانسی کی سزا پانے کے باوجود بھی لوگ اسے اپنے دل سے نکال نہ پائے ۔ساری دنیا نے دیکھا کہ ایک نہتا ذولفقار علی بھٹو ایک آمر کی غیر آئینی حکومت کے سامنے کوہِ گراں بن کر کھڑا ہوااورپھا نسی کے پھندے کو چوم کر ہمیشہ کیلئے امر ہو گیا۔،۔
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے۔۔۔یہ جان تو آنی جانی ہے اس جاں کی تو کوئی بات نہیں میاں محمد نواز شریف کو بھی اس وقت اسی طرح کی کیفیت کا سامنا ہے۔وقت کے ساتھ انداز بدل جاتے ہیں، رویے بدل جاتے ہیں، چہرے بدل جاتے ہیں،کردار بدل جاتے ہیں،طر یقہِ واردات بدل جاتے ہیں لیکن وہ بنیادی چیز جسے سچائی کہتے ہی کبھی نہیں بدلتی۔لیکن سب سے پہلے انسان کو اس بات کا یقین ہونا چائیے کہ وہ سچا ہے۔سچائی کے الہام کو بندوقیں اور توپیں شکست نہیں دے سکتیں اور نہ ہی عدالت کے فیصلے اسے مار سکتے ہیں۔مظفر وانی شہیدایک نوجوان تھا اور آزادی کا متوالا تھا لیکن اس کے من میں سچائی کی جوت جلی ہوئی تھی ۔ دشمن کی فوجیں اسے مارنے کے لئے اس کے تعاقب میں تھیںاور جب فوجیں کسی کے تعاقب میں جٹ جائیں تو دیر یا بدیر اس کا کام تمام کر کے چھوڑتی ہیں۔مظفر وانی شہید کو بھی دیر یا بدیر دشمن کی گولی کا نشانہ بننا تھا۔جب ہم جیسے دنیا داروں کو اس کا ادراک ہے تو وہ جو ہمہ وقت دشمن سے آنکھ مچولی میں مشغول تھا اسے تو اپنے انجام کا ہم سے زیادہ علم تھا لیکن اس کے باوجود اس نے اپنی جدو جہد سے ہاتھ نہ کھینچا اور دشمن کو للکارنے اور اسے کشمیر کی وادی سے نکالنے کے اپنے عزم سے پیچھے نہ ہٹا ۔وہ کھڑا رہا،وہ ڈٹا رہا ،وہ جما رہا،وہ آگے بڑھتا رہا،وہ للکار بن کر دشمن کی نیندیں حرام کرتا رہا۔اس کا انجام نوشتہِ دیوار تھا جسے اس نے بھی پڑھ رکھا تھا لیکن شہادت کا وہ انعام جو اس کی سرفروشی کے صدقے میں اسے عطا ہوا ہے شائد وہ خود اس کے حیطہِ ادراک سے ماورا ء تھا۔
لوگ اس کی شہادت کو جرات کا استعارہ بنا لیں گے اس کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوگا۔یہی ہے سچائی سے محبت کا وہ انعام جو ان لوگوں کو عطا ہوتا ہے جو سچائی کی خاطر جیتے اور مرتے ہیں۔،۔پاناما لیکس پر بہت کچھ لکھا جا رہا ہے اور لکھا جاتا رہیگا۔میاں محمد نواز شریف کے خاندان کے وقار کو تختہِ مشق بنایا جا تا رہیگا۔انھیں آنے والے مصائب و آلام اور مشکلات سے ڈرایا دھمکایا جا تا رہیگا۔انھیں زندانوں کی سختیوں اور صعوبتوں سے ہراساں کیا جا تا رہیگا۔ انھیں مستعفی ہو کر اپنا اور اپنے خاندان کے تحفظ کا یقین دلایا جاتا رہیگا۔انھیں بتایا جا رہا ہے کی اگر وہ مستعفی ہو جائیں تو وہ مامون و محفوظ ہو جائیں گئے۔ انھیں بتایا جا رہا ہے کہ ان کیلئے بہترین راہ مستعفی ہو کر گھر کو سدھانا ہے کیونکہ اس سے پہلے سارے وزرائے اعظم کے ساتھ ایسا ہی ہوا ہے ۔ کیاانھیں محمد خان جونیجو یاد نہیں ہیں؟ کیا انھیں محترمہ بے نظیر بھٹو کا علم نہیں ہے؟ محترمہ بے نظیر بھٹو یہی کہتی تھیں کہ میں پارلیمنٹ کے فلور پر مر تو سکتی ہوں لیکن اسمبلی نہیں توڑ سکتی اور نہ ہی مستعفی ہو سکتی ہوں لیکن پھر اسے میر مرتضے بھٹو کا لاشہ اٹھانا پڑا تھا۔اس کی اسمبلی کو اس کے اپنے منتخب صدر سردار فاروق احمد خان لغاری کے ہاتھوںتحلیل کر دیا گیا تھا اور اسے در بدر کی ٹھوکریں کھانے کے لئے حوادثِ زمانہ کے حوالے کر دیا گیا تھا۔
اس کا خاوند جیل میں تھا اور وہ کمسن بچوں کی انگلی پکڑ کر جیل کے دروازوں پر انتظار کی سولی پر لٹکتی رہتی تھیں۔سب کو علم تھا کہ یہ سابق وزیرِ اعظم ہے لیکن کوئی اس پر ترحمانہ جذبوں کااظہار نہیں کرتا تھا۔وہ جہاں جاتی تھیں انھیںغیر اہم سمجھ کرکڑی دھوپ میں قطار میں کھڑا کر دیا جاتا تھا ۔ وہ کوئی بھی حرفِ شکائت زبان پر لائے بغیر اپنی باری پر جیل کی اس کال کوٹھری میں جس میں اس کے خاوند آصف علی زرادری کوقیدی بنا کر رکھا گیا ہوتا تھا اس کے بچوں کی ان سے ملاقات کرواتی تھیں۔ایسا ایک دفعہ نہیں بلکہ کئی بار ہوا ہے ۔وہ دل گرفتہ جاتی تھیں اور دل گرفتہ واپس آ جاتی تھیں ۔ لیکن حرفِ شکائت زبان پر نہیں لاتی تھیں ۔ ایک نوجوان جوڑے کو ایک دوسرے سے دور رکھنا اپنے عدو کو اس کی اوقات دکھانے کیلئے ضروری تھا۔جوشِ انتقام میں انسان بہت کچھ کہہ جاتا ہے لیکن جب اسے زمینی حقائق سے واسطہ پڑتا ہے تو اسے سمجھ آ جاتی ہے کہ کتابوں میں لکھی گئی باتیں اور ہیں جبکہ زندگی کی سچائیاں اور ہیں ۔ جو ان دونوں کو سمجھ جاتا ہے ان سے کوئی تعرض نہیں کیا جاتا بلکہ اسے معاف کر دیا جاتا ہے۔ لیکن جو ذولفقار علی بھٹو کی کی طرح ڈٹ جاتا ہے اور زندگی کی سچائیوں کو کتاب کی سچائیوں سے ملانے کی جرات کرتا ہے تواسے تہِ خاک بھیج دینے میں کوئی تامل نہیں کیا جاتا ۔اقتدار سے محرومی کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو کئی سالوں تک جلا وطنی کا زہر پیتی رہیں اور وطن کی مٹی کو چومنے کو ترستی رہیں۔ ١٨ اکتوبر ٢٠٠٧ کا وہ منظر تو سب کو اب بھی یاد ہو گا جب وطن واپسی پر اس نے دھرتی کی مٹی کو بے خودی میں چوما تھا۔
عرش پر فائز خالقِ کائنات کی جانب دیکھ کر اس کی آنکھیں آنسوئوں سے تر تھیں اور اس خاص لمحے میں وہ سراپا دعا بن گئی تھی۔اس کا پورا بدن اس کے جذبوں کا ایسا ترجمان بن گیاتھا کہ پتھر دل انسان بھی اس کا یہ انداز دیکھ کر پسیج کئے تھے ۔ لیکن پھر کیا ہوا؟مقتدر حلقوں کے حکم سے سر ِ مو انخراف کرنے والے آنسو بہاتے اور سالہا سال اپنی بے گناہی کی قسمیں کھاتے ہیں لیکن کوئی ان کا یقین نہیں کرتا کیونکہ ان کے نمک خوار ایسا ماحول تخلیق کرتے ہیں کہ سچ پر جھوٹ اور جھوٹ پر سچ کا گمان ہو تا ہے۔ان کی بتائی گئی راہ پر جو نہیں چلتے انھیں اپنے انجام کیلئے تیاررہنا چائیے ۔فیصلہ وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف کو کرنا ہے کہ وہ کس راہ پر چلنا چاہتے ہیں؟۔،۔
Tariq Hussain Butt Shan
تحریر : طارق حسین بٹ شان چیرمین مجلسِ قلندرانِ اقبال